طنز و مزاحمضامین

مطب

شوکت تھانوی

مطب کی متعدد اقسام ہیں یعنی حکیم کا مطب، ڈاکٹر کا مطب، دیدکا مطب،جرّاح کا مطب وغیرہ ان اقسام میں امتیاز ذرا دشوار کا م ہے، لیکن پڑھے لکھے اورسمجھدارآدمی کے لیے یہ بھی کچھ مشکل نہیں مثلاً اگروہ مطب کسی حکیم کا ہوگا تو اس میں ایک بات یہ ضرور ہوگی کہ سائن بورڈ اُردو میں لکھا ہوگا۔ اس کو درسی چاندنی مسند ادر تکیے سے آراستہ کیاگیا ہوگا اور اس میں مسندتکیہ لگائے جو شخص بیٹھا ہوگا وہ ہندوستانی لباس میں ہوگا، اس کے سامنے خاصدان اوراُگالدان ضرورہوگا جہاں سب باتیں یکجا ہوں وہاں توبلاپس وپیش یہ فیصلہ کرلینا چاہیے کہ مطب کسی حکیم کا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر مطب ڈاکٹر کا ہے تواس کا سائن بورڈ انگریزی اوراُردو دونوں زبانوں میں ہوگا اوراس میں بجائے فرش کے ایک میزاور اس کے سامنے دیوار سے لگی ہوئی چاروں طرف کرسیاں ہوں گی، میز پرقلم لیے جوشخص بیٹھا ہوگا وہ انگریزی لباس میں ہوگا اور ننگے سراس کی میز پر قلم دوات کاغذ کے علاوہ ایک اور چیز ربڑکی نلکیوں کی بنی ہوئی رکھی ہوگی جس میں کچھ حصہ دھات کا بھی ہوگا اور جس کووہ باربار اُٹھا کر کان میں لگاتاہوگا، یہ تمام علامتیں ڈاکٹر ی مطب کی ہیں لیکن اس میں بھی تھوڑے سے مغالطہ کی گنجائش ہے یعنی بہت سے حکیم ایسے ہیں جنھوں نے اپنے مطب میں بجائے فرش کے کرسیاں رکھی ہیں اوربہت سے ڈاکٹرایسے ہیں جوبجائے انگریزی لباس کے ہندوستانی لباس پہنتے ہیں۔ ان صورتوں میں عقلمندسے عقلمند آدمی دھوکا کھاسکتا ہے لیکن اگرذرا محققانہ رفتار ذہنی کا آدمی ہے توو ہ دوسری علامتوں کا موازنہ کرکے ہمیشہ صحیح نتیجہ پر پہنچے گا۔مثلاً اگر کسی طرح سمجھ میں نہ آتا ہوکہ یہ مطب حکیم کا ہے یاڈاکٹر کا توذراسی عقلمندی یہ کرنا چاہیے کہ فوراً نبض دکھادے، اس کے بعد جب وہ نسخہ لکھے گا تو یہ راز بھی معلوم ہوجائے گا کہ یہ حضرت خودکیا ہیں یعنی ڈاکٹر ہیں یا حکیم ہیں جوکچھ وہ خودہوں اُسی کا مطب ہوگا، یہ دراصل بڑے گرکی بات ہے مگر ہم بتائے دیتے ہیں کہ اگرنسخہ لکھنے والے نے انگریزی میں نسخہ لکھا ہے تووہ یقینا ڈاکٹر ہوگا اور اگراُردو کے حروف اورفارسی زبان میں لکھا ہے تو ان کے حکیم ہونے میں شک نہیں، جو لوگ پڑھے لکھے نہیں ہیں اورانگریزی اوراُردو میں امتیاز نہیں کرسکتے وہ صرف اتنا یاد رکھیں کہ اگر نسخہ لکھتے وقت قلم داہنی طرف سے بائیں طرف چلا ہے توڈاکٹر ہے یہ پہچان اتنی بڑی ہے کہ اب سائن بورڈ فرش ،لباس،فرنیچر وغیرہ سے شناخت کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔
مطب کے اقسام میں فرق محسوس کرلینا اتنا دشوار نہیں جتنا حکیم اورڈاکٹر کے مختلف اقسام کو سمجھنا مشکل ہے،اس لیے کہ ایک ڈاکٹر کی ہزار ہاقسمیں ہوتی ہیں، آدمی کے ڈاکٹر، جانوروں کے ڈاکٹر، علم کے ڈاکٹر،قانون کے ڈاکٹر وغیرہ وغیرہ اگربفرض محال یہ شناخت ہوبھی گئی کہ جس کے پاس ہم آئے ہیں وہ جانور علم یاقانون وغیرہ کا ڈاکٹر نہیں بلکہ آدمیوں کا ڈاکٹرہے تو بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ڈاکٹروں کی اقسام ختم ہوگئیں، اس لیے کہ ان ڈاکٹروں کی بھی صد ہاقسمیں ہیں، ایک ڈاکٹروہ ہیں جنھوں نے میڈیکل کالج میں پانچ سال کے کورس کودو ایک مرتبہ فیل ہوکر سات آٹھ برس میں پڑھا اورپاس ہوکر ڈاکٹر بنے۔ ایک وہ ہیں جنھوں نے گھر بیٹھے ایک آدھ کتاب پڑھی اوربذریعہ‘ ڈاک امتحان دے کر ڈپلوما منگا لیا اورڈاکٹر بن گئے۔ ایک وہ ہیں جنھوں نے بغیر کچھ پڑھے امریکہ تک سے ایک منی آرڈر بھیج کرڈگریاں منگالیں یا ڈگریاں خود بذریعہ دیلوآگئیں اور ان کو وصول کرکے ڈاکٹر ہوگئے۔ غرضکہ ڈاکٹر بننے کے مختلف طریقے ہیں اور ڈاکٹر بھی مختلف اقسام کے ہوتے ہیں جس کو لوگ سول سرجن کہتے ہیں وہ بھی ڈاکٹر اسٹنٹ سرجن ہے وہ بھی ڈاکٹر،بلکہ بعض اوقات جو کمپاؤنڈر ہیں، وہ بھی ڈاکٹر سمجھا جاتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کسی بیچارے نے لاہور میں پانچ سال سرکھپایا ہے تو کسی نے لکھنو میں اور جن کو سول سرجن بننے کا شوق ہوا وہ سات سمندرپارولایت جاپہنچا اورجن لوگوں کے نزدیک ڈاکٹرڈاکٹرسب برابر والا مسئلہ پسندیدہ ہے وہ آگرہ سے سب اسسٹنٹ سرجن بن کر ڈاکٹر کہلانے لگے مگر سب سے زیادہ مزے میں وہ ڈاکٹر صاحبان ہیں جن کو گھربیٹھے ایک دواؤں کے بکس اورایک کتاب ”راہبرہومیوپیتھی“ نے ڈاکٹر بنا دیا ہے۔ بالکل یہی حال حکیموں کا ہے کہ کسی نے طبےّہ کالج دہلی میں حکیم اجمل خاں مرحوم کے تجربوں سے کچھ حاصل کیاہے تو کسی نے تکمیل الطب کالج لکھنو میں حکیم صاحبان جھوائی ٹولہ کے سامنے زانوئے تلمذتہ کرکے کچھ سیکھا ہے۔ اور بہت سے وہ حکیم بھی ہیں جنھوں نے اپنے دولت خانہ سے ایک خط بھیج کر”عمدۃ العلماء“ کی سندپنجاب سے منگالی ہے، بہرحال ہیں سب حکیم اور حکیم بن جانے کو گھر کی کھیتی سمجھتے ہیں، اس لیے کہ طبیہ کا لجوں کی کچھ ایسی ہواچلی ہے کہ علی گڑھ کالج سے لے کر ہرحکیم کامطب ایک طبیہ کالج بن گیا ہے اورہر جگہ سے حکیم بن جانے کی سند بہت آسانی کے ساتھ مل سکتی ہے حالانکہ ان حکیموں کے نسخے اپنی تاثیر کے اعتبار سے عدم آباد کے پاسپورٹ سے کم ثابت نہیں ہوتے لیکن قبرستانوں کا آباد ہونا ان کو ”غیر حکیم“ ثابت نہیں کرسکتا اور ان کے مطب کا سائن بورڈ یاسائن بورڈپر سے لفظ ”حکیم“کسی طرح علیحدہ نہیں کیاجاسکتا۔ مطب کا عام منظر میدان حشرکی طرح کا ہوتا ہے ہرشخص کواپنی اپنی پڑی رہتی ہے، لوگ اپنی اپنی بولیاں بولا کرتے ہیں اور حکیم یاڈاکٹر گردن جھکائے نسخہ لکھا کرتے ہیں، اگرکوئی شخص اپنے علاج کے لئے نہیں بلکہ مطب کی سیرکرنے کو مطب میں چلا جائے تو اس کو عجیب کیفیت نظرآئے گی، کچھ لوگ بچوں کو کندھے سے لگائے ان کو بہلاتے اور چمکارتے ہوئے نظرآئیں گے، کچھ لوگ بچوں کو کھانستے اورہانپتے دکھائی دیں گے۔ کچھ ڈولی میں پڑے ہوئے کراہتے ہوں گے، کچھ لوگ قارورے کو اخبار سے باربار لپیٹ رہے ہوں گے، کچھ پردے دارڈولیوں کے پاس انچارج بنے کھڑے ہوں گے اوراس جدوجہد میں مصروف ہوں گے کہ اب کی ہم حکیم صاحب کے سامنے پیش ہوجائیں کسی طرف سے آواز آتی ہوگی۔ ”حکیم صاحب رات سے جاڑا لگ کربخار آیا“
کوئی کہتا ہوگا۔ ”حکیم جی کھانسی دم نہیں لینے دیتی“ اورجب سب ایک دم سے بولتے ہوں گے تو مختلف آوازیں آتی ہونگی“ کہ رات سے بخار ہے ”کمر میں درد ہے“ متلی نہیں جاتی قبض ہوگیا ہے۔ سرگھومتا ہے، پیروں پر ورم ہے، بھوک نہیں لگتی ”حکیم جی‘ اے حکیم صاحب‘ حکیم جی“ اے حکیم جی بابوجی، بابوصاحب وغیرہ وغیرہ“۔اس تمام شورغل میں حکیم صاحب نہایت اطمینان کے ساتھ ایک ایک ایک مریض کوبلاتے جاتے ہیں اورچاہے ٹانگ میں درد ہویا حال سنانے والے کی بیوی بیمار ہومگر حکیم صاحب نبض دیکھتے کے لیے ہاتھ ضرور بڑھاتے جاتے ہیں، نسخہ دیکھتے ہیں اورسوال شروع کرتے ہیں۔ کیاغذا ہوئی؟ نیند آئی؟ اب افاقہ ہے؟ لیپ لگایاتھا؟ غرارہ کیاتھا؟ اجابت ہوتی ہے قبض کے ساتھ ورم میں کمی ہے؟ ان سب سوالوں کا جواب پانے کے بعداب اگرمریض آیا ہے توپیٹ ضرور دیکھتے ہیں اوردریافت کرتے جاتے ہیں ”یہاں درد ہے؟ یہاں؟ اچھا یہاں؟“ اورپھر دریافت فرماتے ہیں ”قارورہ لائے؟“ ان تمام باتوں کے بعد آپ پھر نسخہ دیکھتے ہیں اوراپنے شاگردوں کی طرف نظراُٹھاکرفرماتے ہیں“۔ لکھو نسخہ معمون بیدالورداول بخورزوعقب آن گل بنفشہ کشمیری ”برگ گاؤ زبان‘ پوست بیخ کاسنی،تخم خطمی،تخم خبازی عناب ولایتی،سپستان،گلوئے تازۂ خاکسی‘ شاہترہ‘ ورآب جوشانیدہ‘ صاف نمود وشربت بنفشہ کردہ بنوشنداُٹھاؤ مہراڈولی ہلاۂ وقارورہ‘ اس کے بعد مریض کی طرف رخ ہوتا ہے اور فرماتے ہیں ”کھٹی چیز نہ کھائیے گا۔میٹھی چیز نہ کھائیے گا،کل فاقہ”اورفاقہ کہتے ہی کہتے“دوسرے مریض کی آواز بلند ہوتی ہے اور دوسرے مریض کے ساتھ بھی بالکل یہی کہاجاتا ہے جواس مریض کے ساتھ کہا گیا، صرف دواؤں میں تھوڑا بہت فرق ہوتا ہے، تعجب تویہ ہے کہ حکیم صاحب کے شاگرد یعنی نسخہ لکھنے والے نسخہ میں ”اُٹھاؤ مہراڈولی ہلاؤ قارورہ‘ کیوں نہیں لکھ جاتے، اس لیے کہ یہ نقرہ بالکل نسخہ کے ساتھ بولا جاتا ہے۔ حکیم صاحب جیسے ہی دوسرے مریض کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، پہلا مریض تھوڑی دورجاکر پھر لوٹ آتا ہے اورپوچھتا ہے: ”حکیم صاحب ارہرکی کھچڑی کھاسکتا ہوں؟“ حکیم صاحب ”نہیں صرف مونگ کی دال کا پانی اورروٹی کا چھلکا۔“ مریض:۔ ”حکیم صاحب منہ کا مزا خراب ہے ذرا سا آم کا اچارکھالوں؟“ حکیم صاحب“ جی نہیں آپ کے لیے زہرہے۔ آپ صرف مونگ کی دال کا پانی اورروٹی کا چھلکا،آپ کے جگر کا فعل خراب ہے۔ تلی بڑھی ہوئی ہے پیٹ سخت ہے۔“ حکیم صاحب دوسرے مریض کا حال سننے لگتے ہیں، پہلا مریض پلٹتا ہے اورپوچھتا ہے۔ ”حکیم صاحب چاء پی سکتا ہوں؟ حکیم صاحب ہلکا رنگ دودھ زیادہ شکر کم صرف ایک پیالی دوا کے گھنٹہ بھر کے بعد۔ مریض:۔اور بسکٹ؟ ابھی نہیں ذرا ورم جگر کم ہو تو بتاؤ۔ مریض: تو وہ کب کم ہوگا سال بھر تو ہوگیا۔ حکیم صاحب غصہ سے بیچ و تاب کھاکر غصہ کو ٹال کر دوسرے مریض کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔

حکیم صاحبان کی سواری کی پہلے تو فیس تھی مگر اب جہاں مطب میں بجائے فرش کے کرسیاں رکھی گئی ہیں وہاں سواری میں بجائے فٹن لینڈربلکہ موٹرہوگیا ہے۔ موٹرکیا اگرحکیم صاحبان ہوائی جہاز بھی رکھ لیں توان کی گرہ سے کچھ خرچ نہیں ہوتا، اس لیے کہ ان کی سواری کے ذمہ دار بھی مریض ہیں۔ حکیم صاحب کو گھرپر بلانے کے معنی یہ ہوئے کہ آٹھ دس پندرہ روپے جوکچھ ان کی فیس ہووہ الگ اورایک روپیہ سواری کا علیحدہ ضرور دینا پڑتا ہے اوراس کے علاوہ جوکچھ دید یجئے حکیم صاحب ”اس کی کیا ضرورت ہے“ کہہ کر انشاء اللہ ضرورقبول کرلیں گے اور اتنا سب کچھ لینے کے بعدبھی حکیم صاحب کے سرمریض کے زندہ رہنے یا مرنے کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ حکیم صاحب کی بلا سے مریض اچھا ہو یاجہنم میں جائے وہ اپنی فیس اورموٹر یاگاڑی کے کرایہ سے جیب گرم کرلیتے ہیں، اس کے بعد اگرمریض کو نسخہ سے نقصان پہنچا، اس کی حالت بدسے بدترہوگئی توحکیم صاحب بجائے اپنی غلطی تسلیم کرنے کے ہمیشہ مریض خفا ہوں گے کہ یقینا کوئی بدپرہیزی ہوئی ہے۔ برف کا پانی پی لیا ہوگا، کباب کھالیے ہوں گے، ہوا میں بیٹھے ہوں گے، قبل ازوقت کھانا کھایا ہوگا، دوانہ پی ہوگی، بارش میں بھیگے ہوں گے،چہل قدمی زیادہ کی ہوگی، ”غرضکہ حکیم صاحب اتنے کثیر التعداد الزام لگائیں گے کہ ایک آدھ واقعی سچ بھی نکل آئے گا اورجب مریض اس کا اقرار کرلے گا تو حکیم صاحب ناک چڑھا کر گردن ہلاکر نہایت فخریہ انداز سے فرمائیں گے، ”وہ تو میں پہلے جانتا تھا کہ بدپرہیزی ضرور ہوئی ہے ورنہ مجال نہ تھی کہ میری دوا سے فائدہ نہ ہوتا۔ اتنا لاجواب نسخہ تجویزکیاکہ اگر احتیاط سے استعمال ہوتاتو مرض کب کا دورہوجاتا مگراس کا کیا کیا علاج مگر کوئی زہر کھالے آپ خود غورکیجئے کہ مالائی کی برف آپ کے لیے کس حد تک نقصان دہ ہے، لاحول ولاقوۃ،استغفراللہ‘ توبہ‘ توبہ‘ توبہ“
حکیم صاحب نے تویہ کہہ کر تمام ذمہ داری مریض کے سررکھدی اورخود الگ ہوگئے اورایسے الگ ہوئے گویا فیس ہی نہیں لی ہے، یہاں مریض کو نمونیہ ہوا،ڈیل نمونیہ ہوا، سانس اُکھڑی،نبضوں کا نظام خراب ہوا اور بیچارہ براہ مطب قبرستان جابسا، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
ڈاکٹرصاحبان کا ذریعہ معاش بھی دراصل ڈاکٹری ہے۔ لیکن وہ آدمی کو پہنچاننے اور اس پرقابو حاصل کرنے میں حکیم صاحبان سے زیادہ ماہر ہوتے ہیں یایہ سمجھئے کہ حکیم بیچارے توصرف مطب اورایک آدھا مریض کوگھر جاکر دیکھنے کے سہارے پرجیتے ہیں مگرڈاکٹر علاوہ مطب اور پرائیویٹ پریکٹس کے ملازم سرکاری بھی ہوتے ہیں۔ اگران کو مطب سے اورپرائیوٹ پریکٹس سے کچھ بھی آمدنی نہ ہوتو تنخواہ اتنی ہوتی ہے کہ مزے سے کھاپی لیں، لیکن حکیم بیچارے تونہ نوکر نہ چاکر اگر مریضوں سے آمدنی بند ہوجائے تو کوئی دوسرا ذریعہ بھی نہیں۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ حکیم زیادہ خوش اخلاق مشہورہیں اورڈاکٹر آمدنی کی طرف سے مطمئن ہونے کی صورت میں پرائیوٹ پریکٹس کے لیے جان نہیں دیتے، لہٰذا ان کا اخلاق اتنا عام پسند نہیں سمجھا جاتا پھر بھی ڈاکٹر ی علاج کے لیے لوگ ایسے قائل ہوگئے ہیں کہ بیمارپڑتے ہی پہلے ڈاکٹر صاحب کے پاس جاتے ہیں اور اگر ڈاکٹری علاج سے مایوس ہوگئے تو پھر حکیم صاحب کے پاس جاتے ہیں، بہرحال سب سے پہلے ڈاکٹری علاج کیاجاتا ہے۔چنانچہ ہسپتالوں کو چھوڑکرصبح کے وقت ہرڈاکٹر کے مطب میں دوایک موٹرچارپانچ گاڑیاں کچھ تانگے کچھ یکے اور حکیم صاحب کے مطب کی طرح ڈولیاں وغیرہ تک موجود ہوتی ہیں، بچے بوڑھے، مرد، عورت ہندو مسلمان امیرغریب، مختلف قسم کے مریض کرسیوں پہ بیٹھے رہتے ہیں کچھ جگہ نہ ہونے کی وجہ سے کھڑے رہتے ہیں اورڈاکٹرصاحب ہرمریض کا حال سن سن کر نسخہ لکھتے جاتے ہیں اور بداہتیں دیتے جاتے ہیں کہ ”ہردو گھنٹے کے بعدایک خوراک دوا سنتے وقت ٹھنڈے پانی سے پڑیا کھائی جائے گی اور کھانے کے بعد د و گولیاں گرم پانی یا چاء سے پی جائیں گی‘ غذا میں صرف دودھ۔کسی مریض کے کپڑے اُترواکر کان میں لگانے والے آلے سے جوبیک وقت ڈاکٹر اورمریض دونوں کے لگتا ہے، صرف کان اورسینہ کا فرق ہوتا ہے، سینہ دیکھتے ہیں اور مریض سے کہتے ہیں“۔ بولو ایک دو تین“ ہاں پھر بولو ایک دو تین ہاں پھر کہو ایک دو تین“ اس کے بعد آلہ رکھ کر مریض کے سینہ پر بایاں ہاتھ رکھ دیتے ہیں اورداہنے ہاتھ کی بیچ والی انگلی سے بائیں ہاتھ کی بیچ والی انگلی کوٹھو نکتے ہیں اورمریض سے کہتے ہیں، ”بولو، ایک دو تین“ پھربولو“، ایک‘ دو تین“ اس معائنہ کے بعد نسخہ لکھتے ہیں اور مریض سے نہایت سنجیدہ چہرہ بنا کر فرماتے ہیں کہ آپ ذرا مستقل مزاجی سے علاج کیجئے اور غذا کا خاص اہتمام رکھئے۔آپ کو دراصل ضرورت ہے پہاڑپرجانے کی۔ اچھا کل آپ سفید پیالے میں بلغم لائیے گا، اس کے بعد میں کسی نتیجہ پرپہنچ سکوں گا گویایہ سینہ کا ٹھونکنا،بجانا، محض تفریحاًتھا اورجونسخہ آج تجویز فرمایا ہے وہ رسم مطب کے مطابق قبل تشخیص ہے۔ بہرحال مریض بیچارے کے ذہن میں یہ خیالات ذراکم آتے ہیں ورنہ علاج ہی نہ کرائے، اسی طرح دوسرا مریض آجاتا ہے، اس کی زبان نکلوائی جاتی ہے، آنکھوں کے پیوٹے اُلٹ کردیکھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹری کارعب جمانے کے لیے کان میں لگانے آلہ بھی بلاضرورت استعمال کیاجاتا اور ایک دوسطر کا نسخہ لکھ دیا جاتا ہے جس کے متعلق ہدایت ہوتی ہے کہ اس کو فلاں دوکان سے خریدئیے گا، اس لیے کہ ڈاکٹرصاحب کووہاں سے کمیشن ملتا ہے اوراگر کہیں مریض نے ڈاکٹر صاحب کی بتائی ہوئی دوکان کے علاوہ نسخہ خریدلیا اور نسخہ پرڈاکٹر صاحب نے دوسرے دواخانے کی مہرپڑھ لی تو ڈاکٹر صاحب دواکی اچھائی یا برائی یعنی دوا کے فائدہ کرنے یا نہ کرنے نقصان پہنچانے یانہ پہنچانے کے ذمہ دار نہیں رہتے بلکہ اکثر یہ بھی فرمادیاکرتے ہیں کہ جب نسخہ ہی ٹھیک نہ خرید اجائے گا تو فائدہ کیسے ہوگا۔ علاج کرنے سے آخر کیافائدہ ہو، میرے نسخوں کو ہردو کاندار نہیں سمجھ سکتا،ہمیشہ غلط دوائیں دیدیتا ہے وغیرہ وغیرہ اس کے بعدڈاکٹر صاحب اس مریض کی طرف متوجہ بھی کم ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحبان میں ایک بڑا زبردست ہنر ہوتا ہے کہ ہر مریض میں دق یاسل کے جراثیم ثابت کرسکتے ہیں اوریہ ان کے بائیں ہاتھ کاکھیل ہے کہ جب کوئی مرض تشخیص ہی نہ ہوسکے تو اس کو دق بتایا جاتا ہے اورمریض کوپہاڑپرجانے، خاموش لیٹ جانے، مکمل آرام کرنے، عمدہ غذا کھانے وغیرہ کی ہدایتیں کرکے اپنے سرسے بلاٹالتے ہیں۔ بخارہوکھانسی ہو،سرمیں درد ہو،آنکھ دکھنے آئی ہو، پیر میں پھوڑا ہو‘ پیٹ میں درد ہو، غرضکہ جوکچھ بھی ہو سب دق ہوسکتا ہے۔ مگر بشرط ضرورت۔
ایک اور بات ڈاکٹر صاحب میں عجیب ہوتی ہے اوردنیا کے ہرڈاکٹر میں تقریباً ہوتی ہے۔ مریض چاہے جس مرض کا ہواور اس کی حالت جیسی بھی ہو ڈاکٹر صاحب آنکھ بند کرکے اس کو دودھ غذا میں ضرور بتادیں گے چنانچہ مطب میں جب مریض کھانے کے متعلق ڈاکٹرصاحب سے سوال کرتے ہیں تو ڈاکٹرصاحب کی زبان سے بلاارادہ ”دودھ“ ہمیشہ نکل جاتا ہے پھر مریض لاکھ کوشش کرے کہ بجائے دودھ کے کچھ اوربتادیں مگرڈاکٹر صاحب غذا میں دودھ کے علاوہ اور کچھ جانتے ہی نہیں‘ مریض پوچھ رہا ہے۔
”ڈاکٹر صاحب شلّہ کھاؤں؟“
ڈاکٹر صاحب: ”دودھ پیجئے پیٹ بھر کر دودھ پیجئے،خوب پیجئے“
مریض: ”ڈاکٹر صاحب دودھ نہیں پیاجاتا ہے“۔
ڈاکٹر صاحب ”اچھا دودھ میں سوڈا واڑملا کر پیجئے ورنہ قوت کم ہوجائے گی۔“
مریض: ”سوڈا واٹرسے تواوربھی بدمزہ ہوجاتا ہے“۔
ڈاکٹرصاحب: ”پانی ملا کر دودھ پیجئے اورکچھ نہیں۔“
مگر معلوم نہیں مریض کوبھی بیماری کے ساتھ کون سا عارضہ ہوجاتا ہے کہ یہ معلوم ہوتے ہوئے کہ صرف دودھ پینے کی اجازت ہے، تمام دنیا کی چیزیں ڈاکٹر صاحب کوگنواتے ہیں اورڈاکٹرصاحب ہر چیز کے بجائے دودھ بتاتے ہیں۔ مریض پھلوں کو پوچھنے کا ارادکرتا ہے توآم سے لے کر املی تک سب پوچھ جاتا ہے مگرڈاکٹر صاحب بھی اپنی ضد کے ایسے پکے ہوتے ہیں کہ بھولے سے بھی سوائے دودھ کے کچھ ان کے منہ سے اورنہیں نکلتا۔ مریض غذا پوچھتا ہے ڈاکٹر صاحب دودھ بتاتے ہیں۔ مریض روٹی مانگتا ہے، ڈاکٹر صاحب دودھ فرماتے ہیں،ہمارا تو خیال یہ ہے کہ حکیموں کا فاقہ اورڈاکٹری کا دودھ ان کی حکمت اور ڈاکٹر ی کی اصل جڑ ہے۔