گجرات فسادات: بلقیس بانو کیس کے تمام 11 مجرمین جیل سے رہا
ممبئی میں سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے 21 جنوری 2008 کو بلقیس بانو کی عصمت ریزی اور اس کے خاندان کے سات افراد کے اجتماعی قتل کے الزام میں گیارہ ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
گودھرا: گجرات میں سال 2002 کے بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری کیس میں عمر قید کی سزا پانے والے تمام گیارہ مجرموں کو پیر کے دن گودھرا کی سب جیل سے رہا کر دیا گیا جبکہ گجرات حکومت نے اپنی معافی کی پالیسی کے تحت ان کی رہائی کی اجازت دی، ایک عہدیدار نے یہ بات بتائی۔
ممبئی میں سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے 21 جنوری 2008 کو بلقیس بانو کی عصمت ریزی اور اس کے خاندان کے سات افراد کے اجتماعی قتل کے الزام میں گیارہ ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ بعد میں بمبئی ہائی کورٹ نے بھی ان کی سزا کو برقرار رکھا تھا۔
ان مجرموں نے 15 سال سے زیادہ عرصہ جیل میں گزار لیا ہے جس کے بعد ان میں سے ایک مجرم اپنی قبل از وقت رہائی کی درخواست کے ساتھ سپریم کورٹ سے رجوع ہوا۔
سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو ہدایت دی کہ وہ اس کی سزا کی معافی کے معاملے پر غور کرے جس کے بعد حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی، پنچ محل کے کلکٹر سوجل مایاترا نے جو پینل کی سربراہی کر رہے تھے، یہ بات بتائی۔
انہوں نے بتایا کہ "کچھ مہینے پہلے تشکیل دی گئی ایک کمیٹی نے اس کیس میں تمام 11 مجرموں کی سزا معاف کرنے کے حق میں متفقہ فیصلہ لیا تھا۔ سفارش ریاستی حکومت کو بھیجی گئی تھی، اور کل ہمیں ان کی رہائی کے احکامات موصول ہوئے۔”
واضح رہے کہ گجرات فسادات میں بلقیس بانو کے خاندان کے افراد پر 3 مارچ 2002 کو داہود ضلع کے لمکھیڈا تعلقہ کے رندھیک پور گاؤں میں ایک ہجوم نے حملہ کردیا تھا۔
بلقیس بانو، جو اس وقت پانچ ماہ کی حاملہ تھی، کی اجتماعی عصمت ریزی کی گئی جبکہ اس کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا گیا۔
کیس کے ملزمان کو 2004 میں گرفتار کیا گیا تھا۔
مقدمے کی سماعت احمد آباد میں شروع ہوئی۔ تاہم، جب بلقیس بانو نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ گواہوں کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے اور سی بی آئی کی طرف سے جمع کیے گئے شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جاسکتی ہے تو سپریم کورٹ نے اگست 2004 میں کیس کو ممبئی منتقل کر دیا۔
سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے 21 جنوری 2008 کو بلقیس بانو کی عصمت دری اور اس کے خاندان کے سات افراد کے قتل کے الزام میں گیارہ ملزمین کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
جن 11 مجرموں کو قبل از وقت رہائی دی گئی، ان میں جسونت بھائی نائی، گووند بھائی نائی، شیلیش بھٹ، رادھے شیام شاہ، بپن چندر جوشی، کیسر بھائی ووہنیا، پردیپ موردھیا، بکا بھائی ووہنیا، راجو بھائی سونی، متیش بھٹ اور رمیش چندنا شامل ہیں۔
ان میں سے ایک رادھے شیام شاہ نے گجرات ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور ضابطہ فوجداری کی دفعہ 432 اور 433 کے تحت سزا میں معافی کی درخواست کی تھی۔
ہائی کورٹ نے اس کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کی معافی کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے "مناسب حکومت” مہاراشٹر ہے نہ کہ گجرات۔
اس کے بعد رادھے شیام شاہ سپریم کورٹ پہنچا جہاں13 مئی کے اپنے حکم میں، سپریم کورٹ نے کہا کہ چونکہ یہ جرم گجرات میں ہوا تھا، اس لیے اس درخواست پر غور کرنے کے لیے ریاست گجرات ہی مناسب حکومت ہے۔
سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو 9 جولائی 1992 کی پالیسی کے تحت قبل از وقت رہائی کی درخواست پر غور کرنے کی ہدایت دی اور کہا تھا کہ وہ دو ماہ کے اندر فیصلہ کر سکتی ہے۔