محمد ہاشم القاسمی
اساتذہ کرام ملک اور قوم وملت کے معمار ہوتے ہیں۔ بہتر معاشرہ کو تشکیل دینے میں اساتذہ کرام کا ہمیشہ اہم رول رہاہے۔ معاشرے کی ترقی اور استحکام کے لیے اساتذہ کرام کے کردار سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے۔ دنیا بھر کے دانشور اور مفکرین نے اساتذہ کے کردار اور خدمات کے حوالے سے اپنے اپنے نظریات و خیالات کا اظہار اکثر و بیشتر اپنے بیانوں اور تحریروں میں کیا ہے۔مہا تما گاندھی جی کی نظر میں اساتذہ کی بڑی اہمیت تھی، ان کا ماننا تھا کہ ”اساتذہ کے اندر بہت سی خوبیوں کا ہونا بے حد ضروری ہے، مگر اچھے اخلاق و کردار ہونا چاہیے تاکہ سماج میں اچھائیاں پیدا کر سکیں “ اساتذہ کرام کے افعال وکردار سے متعلق ڈاکٹر محمد مسعود عالم قاسمی صاحب‘ گاندھی جی کے نظریاتِ اساتذہ کو مزید وضاحت کے ساتھ ایک جگہ رقمطراز ہیں ”اساتذہ طلباء کے لئے آئینہ ہوتے ہیں۔ طلباء محض کلاس کے لکچر، منہ کے الفاظ اور بلیک بورڈ کی تحریر کو ہی نہیں پڑھتے، بلکہ اساتذہ کی نقل و حرکت، عادات و اطوار اور رویہ و رحجانات کا بھی اثر لیتے ہیں۔ اس لیے اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اپنا بھی جائزہ لیں، جن مقاصد اور اقدار کو وہ بچوں میں منتقل کرنا چاہتے ہیں، پہلے ان کو اپنے وجود میں تلاش کریں تبھی وہ مخلص اور سچے اساتذہ کا کردار ادا کرسکتے ہیں اور سماج کو اپنی صلاحیت سے فائدہ پہنچا سکتے ہیں، بچوں میں اسی چیز کا انعکاس ہوگا جو اساتذہ میں موجود ہوگی“ ایک معلم اگر چاہے تو معاشرے کو ترقی کی اس منزل پر پہنچاسکتا ہے جس کی اس معاشرے کو ضرورت ہوتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کس طرح دنیا کے عظیم معلمین نے اپنے شاگردوں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ۔ پروفیسر انعام اللہ خاں شیروانی لکھتے ہیں کہ”اساتذہ کرام کے اوصاف کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
(1) عام اوصاف: وہ یہ ہے کہ اعلیٰ سیرت و کردار، احساس ذمہ داری، فرض شناسی، لگن، مردم شناسی، معاملہ فہمی، قوت فیصلہ، خوش اخلاقی، صبر و استقلال، ہمدردی وغیرہ۔
(2)خاص اوصاف: وہ یہ کہ علمی لیاقت، زبان دانی، تعلیمی تجربہ، مطالعہ و مشاہدہ، بچوں کی نفسیات سے واقفیت، تدریسی صلاحیت، اچھی صحت، ذوق مطالعہ، موثر انداز بیان وغیرہ۔
ہمارے ملک ہندوستان میں ہر سال 5 ستمبر کو ٹیچرس ڈے یعنی یومِ اساتذہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جبکہ عالمی سطح پر ٹیچر ڈے، یوم اساتذہ کا انعقاد 5 اکتوبر کو ہوتا ہے، ہمارے ملک میں 5 ستمبر کو ٹیچرس ڈے منانے کی روایت اس وقت شروع ہوئی جب سابق صدر جمہوریہ سروے پلی رادھا کرشنن نے ملک کے دوسرے صدر جمہوریہ کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا ۔واضح رہے کہ رادھا کرشنن جی ایک ماہر تعلیم، فلسفی اور عظیم سیاستدان تھے، تعلیمی میدان کے ماہر شہ سوار اور صاحب قلم و قرطاس ہونے کی وجہ سے انہیں ہندوستان کی آزادی کے بعد بھارت رتن کے ایوارڈ سے نوازا گیا، انہوں نے اپنی عمر کے چالیس سال تعلیم و تعلم میں صرف کیے تھے ، کلکتہ یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں بحیثیت استاد اپنی خدمات انجام دی تھیں ، وہ تعلیمی میدان کے نبض شناس اور اس کے ابرو کو سنوارنے والے تھے اور ان کے تلامذہ ملک اور بیرون ملک میں پھیلے ہوئے تھے، جب وہ صدر جمہوریہ کے عہدے پر فائز ہوئے تو ان کے چند شاگردوں نے ان کا یوم پیدائش منانے کی اجازت چاہی تو انہوں نے یوم پیدائش منانے کی اجازت دینے کے بجائے اس دن کو بحیثیت ”یوم اساتذہ’“ منانے کا مشورہ دیا۔ سروے پلی رادھا کرشنن ایک تلگو برہمن خانوادے میں مدراس میں واقع تھیروتانی کے قریب ایک گاو¿ں میں5 ستمبر 1888 کو پیدا ہوئے۔ یہ گاو¿ں صوبہ آندھرا پردیش اور تمل ناڈو کی سرحد پر موجود ہے۔ ان کے والد کا نام سروے پلی ویرا سوامی اور والدہ کا نام سیتاما تھا۔ ان کی ابتدائی زندگی کے پل تروتانی اور تروپتی میں گزرے۔ ان کی ابتدائی تعلیم تروتانی کے بورڈ ہائی اسکول میں ہوئی، وہ فلسفہ کے طالب علم تھے، ان کے والد بھی فلسفہ کے طالب علم رہ چکے تھے، ان کے والد نے اپنی کتابیں ان کے حوالے کر دیں تھیں اور یہیں سے انہوں نے پڑھنے کا منصوبہ تیار کیا، اور پھر وہ ایک عظیم استاد بنے۔ اسی مناسبت سے پورے ملک میں ہرسال 5 ستمبر کو ”یوم اساتذہ’“ منایا جاتا ہے اور اساتذہ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے اور ان سے اپنی والہانہ محبت و عقیدت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یوم اساتذہ منانے کا اہم اور بنیادی مقصد سماج میں اساتذہ اور محسنین کے عظیم الشان کردار کو اجاگرکرنا ہے۔ دنیا بھر میں اسکول،کالج، یونیورسٹیاں، مکاتب و مدارس اور جامعات سب تعلیم وتربیت کے کارخانے ہیں، جہاں آدمی کو انسانیت کے سانچے میں ڈھالا جاتا ہے، ان کی اصلاح کی جاتی ہے، ان کو انسانیت کی خدمت کے لیے تیار کیا جاتا ہے، اور یہ کام خود بخود نہیں ہوتا بلکہ ماہر اساتذہ کرام کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے، ایک زمانہ تھا جب ان کارخانوں میں رجالِ کار تیار ہوتے تھے، آج حالات بدل چکے ہیں، اب یہ شکایت عام ہے کہ اسکولوں اور کالجوں سے جو نسل زیور تعلیم سے آراستہ ہوکر نکل رہی ہے، وہ اخلاقی قدروں سے یکسر محروم ہے، اس زوال کا ذمہ دار براہ راست اساتذہ کو ٹھہرایا جارہا ہے، کیوں کہ وہ اپنے پیشے کے ساتھ انصاف نہیں کررہے ہیں۔ مولانا ندیم الواجدی مالک دارالکتاب دیوبند لکھتے ہیں ”اسکولوں اور کالجوں کا حال بڑا خراب ہے، اب تعلیم خدمت سے زیادہ تجارت کی شکل اختیار کرچکی ہے، ایک مہذب معاشرے میں تجارت بھی اعلیٰ قدروں سے مبرا نہیں ہوتی، کالجوں میں تعلیم وتعلم کی صورت میں جو تجارت آج کل مروج ہے وہ ہر طرح کی قید وبندش سے آزاد ہے، طلبہ اور اساتذہ دونوں پر مادیت غالب ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ تعلیمی ادارے اب تعلیم میں کم اور دوسری چیزوں میں زیادہ مشغول ہیں، مار دھاڑ، قتل وغارت گری، ہلڑ بازی، ہنگامہ آرائی، ریگنگ، تعلیمی مقاطعہ، گھیراﺅ، یہ سب وہ عنوانات ہیں جو ہماری تعلیم گاہوں کی پیشانی پر جلی قلم سے لکھے جارہے ہیں، کبھی ان اداروں میں تہذیب سکھلائی جاتی تھی، اب بے شرمی اور بے حیائی کا سبق پڑھایا جارہا ہے، کالجوں کے کردار کی اس تبدیلی کی ذمہ داری اساتذہ پر زیادہ ہے جنہوں نے اپنے منصب کے تقاضوں کو پس پشت ڈال دیا ، اور خود بھی ان تجارت گاہوں کا ایک حصہ بن گئے ہیں ، ان حالات میں جو نسل تعلیم گاہوں سے نکلے گی، اس سے ایک باوقار، پرامن، مہذب اور اعلیٰ اقدار سے روشن معاشرے کی تعمیر وتشکیل کی توقع کس طرح کی جاسکتی ہے؟ ماہرین تعلیم کا خیال ہے کہ معاشرے میں معلم کو وہی حیثیت حاصل ہے جو چمن میں مالی کو حاصل ہوتی ہے، جس طرح پودوں کی مناسب افزائش مالی کی توجہ اور محنت کے بغیر نہیں ہوسکتی، اسی طرح معلم کی دلچسپی اور توجہ کے بغیر چمنستان علم کے نونہالوں کی پرورش بھی ممکن نہیں ہے، معلم تعلیمی سرگرمیوں کا بنیادی مرکز اور محور ہے، اس کے بغیر تعلیم کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا کے ہر مہذب معاشرے میں اساتذہ اور معلمین کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، ہر مذہب نے طبقہ معلمین کی قدر افزائی کی ہے، اسلام چوں کہ کہ بنیادی طور پر علم کا مذہب ہے، اس لیے تعلیمات اسلام میں معلمین کی قدر افزائی کا پہلو اپنی پوری تابانیوں کے ساتھ جلوہ گر نظر آتا ہے، اسلام نے معلم کو بہت بلند مقام عطا فرمایا ہے اور اس کی شخصیت کو نہایت مقدس اور انتہائی قابل تعظیم قرار دیا ہے، معلم کی اہمیت اور اس کی عظمت وتوقیر کا اندازہ لگانے کے لیے تنہا یہ بات کافی ہے کہ اللہ رب العزت نے خود اپنے آپ کو انسانیت کا معلم اول قرار دیا ہے۔ علمین کے لیے یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ اسلام نے روز اول ہی سے ان کا درجہ بلند رکھا ہے، اور ان کو مکرم ومعزز بنایا ہے، اور اس وقت بنایا ہے جب کسی انسان کو اس کا خیال بھی نہیں آتا تھا کہ معلمین کی قدر افزائی کے لیے کوئی خاص دن متعین کیا جائے، اسلام تو اس کا بھی قائل نہیں کہ معلم کی عظمت کا اعتراف کرنے کے لیے کوئی خاص دن معین ہو، وہ تو زندگی کی آخری سانس تک معلمین کی قدر افزائی کرتا ہے بلکہ اس حیاتِ ناپائیدار کے بعد آنے والی دائمی زندگی میں بھی اس کے درجات بلند کرتا ہے۔ قرآن کریم میں جہاں بھی اہل علم کی تعریف وتوصیف فرمائی گئی وہاں دنیوی یا اخروی زندگی کی کوئی قید نہیں ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس تعریف وتوصیف کا دائرہ دنیا کی زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ مرنے کے بعد کی زندگی تک وسیع ہے۔
تعلیم وتربیت کا آغاز بچے کی پیدائش کے بعد سے ہوتا ہے۔ ابتدا میں والدین بچے کو دنیا کی سچائیوں اور انسانی قدروں سے روشناس کرواتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد جب بچہ بولنا اور چلنا سیکھتا ہے تو اس کا تعلق اپنے والدین کے ساتھ ساتھ اپنے اساتذہ سے بھی ہوجاتا ہے اور اساتذہ بچے کو علم کے ساتھ ساتھ اخلاق و کرد سکھاتے ہیں۔ اساتذہ کا کام دراصل انسان سازی ہے۔ اس بنیاد پر اساتذہ بچہ کی پوشیدہ صلاحیتوں کو ابھارنے، ان کی نشوونما کرنے، بچہ کی سیرت کو بنانے اور اس کی شخصیت کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور انسانی قدروں سے ہمکنار کرواتے ہیں اور ایک اچھا شہری بنانے میں اپنا اہم کردار ادا کرتے۔ بچے کا لڑکپن یعنی چھ سال سے چودہ سال تک کا زمانہ اس کی زندگی میں کافی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ دور اس کی تعلیم و تربیت کا اصل دور ہوتا ہے۔ اس کی ترقی کا دور ہوتا ہے۔ اس دور میں لڑکے ہر چیز کی تلاش و جستجو میں ہوتے ہیں، یہ وہ دور ہے جب کہ ان کا حافظہ بہت تیز ہوتا ہے، وہ بہت زیادہ غور و فکر کرنے لگتے ہیں ، اچھی عادتیں سیکھتے ہیں، مختلف مثالوں سے تربیت پاتے ہیں اور اساتذہ کے حسب رہنمائی و ہدایت اچھی صحبت اختیار کرتے ہیں۔ اگر اس زمانہ میں ان پر نظر نہیں رکھی گئی اور ان کی بہتر طور پر تربیت نہیں کی گئی تو وہ بگڑ جاتے ہیں اور غلط راہوں پر نکل جاتے ہیں، اس لیے جہاں استاد کا پہلا کام بچہ کے اندر تعلیم کے شوق کو پیدا کرنا ہے۔ وہیں استاد بچہ کا مربی اور رہنما بھی ہوتا ہے، اس اعتبار سے اس کی رغبت بچوں کی سیرت و شخصیت کو سنورانے کی طرف بھی ہونا ضروری ہے ۔ اس طرح یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ بچوں میں اچھے اخلاق کو پیدا کرے، ان کو اچھی عادتیں سکھانے میں اپنی صلاحیتوں کو صرف کرے۔اس لیے معلم کو چاہیے کہ اپنے طلبہ کو ایسا درس دیں کہ وہ اچھے اور برے میں تمیز کرسکیں۔ دنیا کے نت نئے چیلنجز کا مقابلہ کرسکیں۔ اپنے کردار کو بہتر بنائیں، خود شناس اور خدا شناس ہوں تاکہ انہیں دونوں جہانوں میں کامیابی ملے،شاید یہی وجہ تھی کہ سکندر اعظم نے کہا تھا، ”میں زندگی جینے کے لیے اپنے والدین کا قرض دار ہوں لیکن اچھی زندگی جینے کے لیے اپنے استاد کا قرضدار ہوں، لیکن حالیہ دنوں میں ریاست اتر پردیش کے شہر مظفر نگر کے ایک سرکاری اسکول میں ایک خاتون ہندوانتہا پسند ٹیچر نے کلاس کے ہندو بچوں کو کہا کہ وہ باری باری آ کر مسلمان طالب علم کو تھپڑ ماریں۔ جس کے بعد ہندو بچے باری باری اپنی جگہ سے اٹھ کر آ تے رہے اور ٹیچر کے پاس کھڑے روتے ہوئے مسلمان بچے کو تھپڑ مارتے رہے، ہندو ٹیچر نے ویڈیو بنانے والے کو مخاطب کرتے ہوئے مسلمان بچوں کی ماو¿ں کے بارے میں بھی توہین آمیز الفاظ بھی استعمال کیے۔ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے باوجود حکام نے اس نام نہاد، انتہا پسند ٹیچر کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا، جب کہ بچے کے والد کا کہنا ہے کہ انہوں نے بچے کو اسکول بھیجنا بند کردیا ہے۔ اسکول انتظامیہ کی جانب سے ٹیچر کے خلاف رپورٹ درج نہ کرانے کے لیے دباو¿ ڈالا گیا اور اس کے بدلے میں داخلہ فیس معاف کرنے کا آفر دیا گیا ہے۔ وہ شاید یہ بھول گئیں کہ استاد کو معاشرے میں روحانی والدین کا درجہ بھی حاصل ہے، لہٰذا ہمیں اب ٹیچرز ڈے کے موقع پر محاسبہ ڈے منانے کی ضرورت ہے۔٭٭