طنز و مزاحمضامین

آتاہے یاد مجھ کو گزرا ہوازمانہ

مظہر قادری

بچپن میں ہمارے والد کبھی ”فادرس ڈے“ کے محتاج نہیں تھے‘جب بھی ان کا دل چاہتاتھا جوتا اٹھاکر یاددلادیتے کہ میں تمہارا باپ ہوں۔اوریہ یادداشت ہمیں تقریباً ہرروز تازہ ہوتی رہتی تھی۔دوسری طرف ماں کوبھی سال میں ایک بار ”مدرس ڈے“ مناکر ”تم ماں ہو“بول کے یاددلانے کی ضرورت آج کل کی طرح کبھی نہیں پڑتی تھی،کیوں کہ صبح اٹھے بعد سے ماں کوئی بات بولے اورنہیں سنے توپیٹھ پر گھپ بول کے ایک جم کے پڑتی تھی کہ خودبخود منہ سے اماں تھوڑی تھوڑی دیر کو نکلتے رہتاتھا۔سکوت موت کی نشانی ہے اورحرکت زندگی کی۔ توہم بچپن سے ہمیشہ حرکت میں رہتے تھے، کبھی بھی ایک جگہ چین سے نہیں بیٹھتے تھے۔آج کل کے بچوں کی طرح نہیں کہ ٹی وی یاسیل فون ان کو دیدواوربھول جاؤ۔آج کل کے بچوں کو اگرناشتے میں پکی ہوئی کوئی چیز پسند نہیں آئی تو کئی متبادل چیزیں مل جاتیں۔ ماں بولتی بیٹا پاستہ کھالو،سلائس کھالو،میگی کھالو یااوٹس کھالو۔لیکن ہمارے بچپن میں ہماری ماں کے پاس اتنے سارے آپشن نہیں رہتے تھے۔ ان کے پاس صرف دوہی آپشن ہواکرتے تھے کہ جوپکائے وہ کھاؤ یاپھر چپل کی مارکھاؤ توہم ہرکھانے پر روز دونوں ہی چیزیں کھاتے تھے۔پہلے ضدکرکے کھانا نہیں کھاتے تھے جس پر چپل کھاتے تھے اوراس کے بعد جوبھی بنا وہ کھاتے تھے۔یہ روز کامعمول تھا۔ بچپن میں سب سے زیادہ ہم ا س وقت دکھی ہوتے تھے جب رات بھر برسنے والی بارش عین اسکول جانے کے وقت سے تھوڑی دیر پہلے رک جاتی تھی۔بچپن کی ہماری وہ امیری پتہ نہیں کہاں کھوگئی جب ہم اتنے امیرتھے کہ ہمارے بھی جہازپانی میں چلاکرتے تھے، جب جب بارش پڑتی اورتالا ب کے کنارے ریتی میں پاؤں رکھ کر جومحل بناتے تھے ویسے کئی محلوں کے مالک تھے۔آج جوہم بیمارپڑتے ہیں توہم ڈرتے ہیں لیکن جب بچپن میں ہم بیمارپڑتے اورماں ہمیں ڈاکٹر کے پاس لے جاتی توہمیں ڈاکٹرکی دوہی باتیں بہت اچھی لگتی تھیں‘ ایک تویہ کہ پانی نہیں نہانا اور دوسری یہ کہ دودن آرام کرو اسکول نہیں جانا۔ اسکول جانے کے لیے ماں دوپہر کا توشہ باندھ کر دیتی تھی، لیکن اس توشہ سے اٹھنے والی روٹی اورسالن کی خوشبوہمیں اتنا بے چین کردیتی تھی کہ جب جب موقع ملا توشہ کھول کر لنچ سے پہلے اسے چٹ کرجاتے تھے۔ آج کل کی طرح کوئی چیز آرڈ ردے کر نہیں منگواسکتے تھے اورناہی کوئی فائیواسٹارکی ہوٹل کی سوغات ملتی تھی۔بچپن کی ہماری فائیواسٹار ہوٹل کی سوغات اسکول کی جالی کی گیٹ میں سے باہر ہاتھ ڈال کر آدھی نارنگی پر لگی ہوئی چورن،دوسری نمک لگی ہوئی کیری کی شاخیں،تیسری انگیٹھی کے نیچے رکھے ہوئے گرم گرم چنے یامونگ پھلی ہوتی تھی‘جس کی کسی بھی چیز کا مزہ آج کسی بھی فائیواسٹار ہوٹل میں نہیں آسکتا۔ جہاں آج سب کچھ مل جاتا ہے لیکن وہ لذت اورمزہ پھرکبھی نہیں آسکتا۔آج کل کے ماں باپ بچوں کو اسکول اتنے اہتمام سے بھیجتے ہیں اوراسکول بس میں بٹھا کر بائے بائے بولتے ہوئے بس نظروں سے اوجھل ہوئی تک ہاتھ ہلاتے اسے دیکھتے کھڑے رہتے ہیں اوراتنی ساری احتیاطی نصیحتیں کرتے رہتے ہیں جیسے بچے اسکول کو نہیں بلکہ جنگ میں لڑنے جارہے ہیں۔جبکہ ہم روز اسکول جانے کے لیے ماں یاباواکی لات کھا کر دوڑتے اورروتے ہوئے اسکول پہلے چلے جاتے تھے اورجس دن لات نہیں پڑتی تھی توسمجھ جاتے تھے کہ آج اتوارہے۔آج کل کے بچے پھولوں کے جیسے پاک،صاف ان شرٹ کرکے ٹائی وغیرہ لگاکر جوتاپہن کر صبح جیسے جاتے شام میں ویسی ہی حالت میں واپس آتے ہیں لیکن ہم بچپن میں کسی نہ کسی بچے سے جھگڑاکرکے مٹی میں گتھم گتھا ہوکر پوراحلیہ بگاڑکر دھول مٹی میں لُت پُت ہوکر جب شام میں گھرآتے تھے توگھر میں گھستے ہی پھر دُھنائی ہوتی تھی۔چاہے وہ ماں کے ہاتھ سے ہو یاجوچیزبھی ماں کے ہاتھ میں ہواس چیزسے۔آج کل کے بچوں کوصرف 4Gاور5Gمعلوم ہوتاہے جبکہ ہمارے بچپن میں ہمیں صرف پِتا جی یاگروجی ہی معلوم تھا اور دونوں کے ایک ہی تھپڑمیں پورا نیٹ ورک آنکھوں میں آجاتا تھا۔
ہمارے بچپن میں کوئی غیر نظرہی نہیں آتاتھا۔گھروالے توگھروالے پڑوسی بھی خاندان کا ایک حصہ ہواکرتے تھے۔ہم پڑوسی بزرگوں سے بھی اتنا ہی ڈرتے تھے جتنے اپنے ماں باپ سے اوروہ بھی ہم سے اتنا ہی پیارکرتے تھے جتنا ہمارے ماں باپ کرتے تھے لیکن آج ایک ہی خاندان والے ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن گئے ہیں۔پہلے گھرجتنے بڑے رہتے تھے، دل بھی اتنے بڑے ہوتے تھے۔اب گھربھی چھوٹے ہوگئے اوردل بھی۔ پہلے حسد کی بیماری نہیں ہوتی تھی،دوسروں کو دیکھ کر خوشی ہوتی تھی۔ اب دوسروں کی خوشی دیکھ کر حسد ہورہی ہے اوراس کا مقام حاصل کرنے کے لیے انسان ہرجائزاورناجائز کام کررہاہے۔ پہلے جب بیمار ہوتے تھے جلد اچھے ہونے کی فکررہتی تھی،لیکن اب بیمارہوئے تودواخانے کے بل کی فکر کھاجارہی ہے۔پہلے بغیر علاج کے خودبخود ٹھیک ہوجاتے تھے اب علاج کے بعد بھی ٹھیک ہونے کی کوئی گیارنٹی نہیں رہی‘پہلے سائیکل کے فالتوٹائر کو دھکیلتے ہوئے سارے محلے کا چکر لگاکر گھرواپس آتے تھے‘اب گاڑیاں بھگاتے ہو ئے جاکر واپس آنے کی گیارنٹی نہیں رہی۔ آج کل کے ہربچے نوجوان اوربوڑھے پر کسی نہ کسی چیز کی ذمہ داری ہے۔ہرکسی کو کوئی نہ کوئی بیماری ہے۔فرصت کم ہے اس لیے ہرایک آنکھ نم ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی نے گزشتہ پچیس سال میں ساری دنیا بدل دی۔بچوں سے اس کی معصومیت چھین لی ہے‘جوانوں سے اس کی خوشیاں چھین لیں اوربوڑھوں کو ذہنی طورپر مفلوج کردیا۔اب نہ توکسی کو کسی دوست کی ضرورت ہے اورنہ کسی رشتے دارکی اب میں ہوں اورمیری تنہائی اکیلے میں بات کررہے ہیں۔

a3w
a3w