مضامین

اسرائیل: نئی حکومت کو سات خون معاف کیوں؟

منصور جعفر

اسرائیل کی ’خوش قسمتی‘ ہے کہ اس میں ایتمار بن گویر اور سموتریش ایسے عناصر ترکیبی کی بنیاد پر تشکیل پانے والی نتن یاہو کی حکومت کو بڑی طاقتوں کے لبرل ڈیموکریٹ سفارت کار اور ذرائع ابلاغ انتہا پسند، بنیاد پرست یا دہشت گرد حکومت ایسے القابات نہیں دے رہے۔ یہ سوال بھی نہیں اٹھا کہ دنیا کی لبرل ڈیموکریٹ اقدار کے برعکس ایجنڈے کی حامل یہ حکومت کیونکر اس لائق ہو سکتی ہے کہ اس کے ساتھ تعلقات اور میل ملاقات رکھا جائے! اس طرح کی حکومت کسی اور ملک میں بر سر اقتدار آتی تو یقینا اسے عالمی سطح پر تسلیم کرنے سے پہلے دسیوں قسم کی شرائط رکھی جاتیں اور اس کے خلاف دسیوں قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے۔ مگر اسرائیل کے لیے یہ نرمی اور رعایت پرانے محاورے کے تناظر میں دیکھی جائے تو ’سات خون معاف‘ قسم کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی وزیر خارجہ نے اس کی تشکیل سے پہلے ہی غالباً اس کے لیے راہ ہموار کرنے کی نیت سے یہ بیان دے دیا تھا کہ ’امریکہ اسرائیل کی نئی حکومت کو شخصیات کی بنیاد پر نہیں بلکہ پالیسیوں اور پریکٹس کی بنیاد پر دیکھے گا۔‘ یہ بیان نتن یاہو کو جس کے ساتھ مرضی حکومتی اتحاد بنانے دینے کا ایک گرین سگنل تھا، لیکن اب یہی گرین سگنل جو بائیڈن انتظامیہ کی بیان کردہ لبرل ڈیموکریٹک اقدار کے ساتھ ساتھ امریکہ کے عالمی سطح پر بار بار اعلان کردہ موقف کے لیے آزمائش کا سبب بن رہا ہے۔ صرف ہفتہ دس دن کے اندر ہی اسرائیل کی نئی نویلی مگر جارحانہ حد تک غصیلی اور بھڑکیلی حکومت نے کئی ایسے فیصلے اور اقدامات کر لیے ہیں، جو اس کی پالیسیوں اور پریکٹس کا کافی اظہار سمجھے جا سکتے ہیں۔ حکومت کے پہلے ہی ہفتے کے دوران بن گویر کا مسجد اقصیٰ کا اشتعال انگیز دورہ، اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ کا فلسطینی محصولات پر ہاتھ صاف کرنے کا فیصلہ، مغربی کنارے میں فلسطینی تعمیرات پر پہلے سے بھی زیادہ سختی کا اہتمام اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فلسطینی پرچموں کو برداشت نہ کرنے کا اعلان اس کی شدت پسندی کے مظہر ہیں۔ سلامتی کونسل کے اجلاس کے تناظر میں اسرائیلی نمائندہ برائے اقوام متحدہ گیلاد اردان کا فلسطینی اتھارٹی کو دشمن اور فلسطینی اتھارٹی کے اقوامِ متحدہ میں مستقل مندوب ریاض منصور کو دشمن کا نمائندہ قرار دینا بھی جو بائیڈن انتظامیہ کے لیے ایک آزمائش سے کم نہیں ہے۔ اسرائیلی نمائندے کا یہ معاہدہ اوسلو پر براہ راست حملہ ہے، جبکہ اس بیان نے ابراہم معاہدے پر بھی ضرب لگائی ہے۔ نئی اسرائیلی حکومت کے جارحانہ سرعت کے ساتھ اس طرح کے فیصلے، پالیسیاں اور اقدامات سامنے لانے کے بعد یقینا معاہدہ ابراہم کی مارکیٹنگ کرنے اور بائینگ کرنے والوں کے بارے میں ان کے اپنے عوام کا ردعمل بھی آ سکتا ہے۔ صرف ہفتہ دس دن کے دوران کیے گئے اتحادی حکومت کے مذکورہ بالا فیصلوں اور اقدامات دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کے لیے پالیسیوں اور پریکٹس کی بنیاد پر اسرائیلی حکومت کو سمجھنے اور اس کے بارے میں اپنی رائے بنانے کے لیے کافی مواد فراہم ہو چکا ہے۔ اسرائیل کی نئی حکومت کی اندھی سرپرستی اور وکالت سے باز آنے کے لیے مغربی ممالک کے لیے بھی کافی جواز میسر آ گیا ہے یا کم از کم اتنا ضرور ہو گیا ہے کہ ایک مکمل ابنارمل ملک کا تعارف بننے والی اسرائیلی حکومت کے سامنے آ جانے کے بعد ’نارملائزیشن‘ کے حوالے سے امریکہ اپنے 80 سالہ پرانے اتحادی سعودی عرب کو کسی نئی آزمائش کی طرف دھکیلنے سے رک جائے۔ جیسا کہ متحدہ عرب امارات نے چین کے ساتھ مل کر سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا اور اردن نے ’نقب سمٹ‘ میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ گویا جن ملکوں نے اسرائیل کو ایک نارمل ریاست کے طور پر دیکھنا شروع کیا تھا، وہ بھی محسوس کرنے لگے ہیں کہ معاملہ اتنا بھی نارمل نہیں ہے۔ دوسرے عرب ممالک بھی محتاط ہونے کی طرف مائل ہیں۔ اسرائیل کی نئی حکومت کس قدر خوفناک ہے، اس امر کا سب سے زیادہ اظہار خود اسرائیل کے اندر سے ہو رہا ہے۔ اب تک اسرائیلیوں نے اس حکومت کی پالیسیوں اور ممکنہ اقدامات کے خلاف کم از کم دو مرتبہ بھرپور احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔ پہلا احتجاج حکومت کے حلف کے دن اسرائیلی کنیسٹ کے باہر ہوا۔ دوسرا احتجاج حکومت کی عدالتوں کو عملاً اپنے ماتحت کرنے کے لیے قانون سازی کی نئی شروعات سامنے آنے پر ہزاروں اسرائیلی عوام نے تل ابیب میں کیا ہے۔ دوسرے احتجاجی مظاہرے میں مظاہرین اسرائیل کے خبیمہ اسکوائر کے سامنے جمع ہو گئے۔ مظاہرین نے حکومتی فاشزم کے خلاف بھی خوب نعرے لگائے اور حکومتی نسل پرستی کو بھی اپنے نعروں میں بے نقاب کیا ہے۔ گویا عالمی ذرائع ابلاغ نئی اسرائیلی حکومت کو فاشسٹ اور نسل پرست حکومت کہنے سے جس قدر خوف کھا رہے تھے۔ اسرائیلی مظاہرین نے اسی قدر بے خوفی کے ساتھ اسے نسل پرست اور فسطائی حکومت قرار دیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اسرائیلی مظاہرین سابق چیف جسٹس ہارون بارک کے اس انٹرویو کے بعد باہر نکلے ہیں، جو انہوں نے نئی حکومت کے عدلیہ پر حملے کے حوالے سے اسرائیلی ذرائع ابلاغ کو دیا ہے۔ سابق عدالتی سربراہ اور ان کے حامی عدالتی اختیارات کو محدود کرنے، ’جوڈیشل ایکٹو ازم‘ کو روکنے، ججوں کی تقرریوں پر حکومتی اختیار بڑھانے کو جمہوریت دشمنی قرار دیتے ہیں۔ مزید یہ کہ اسرائیلی فوج سے متعلق ترامیم بھی زیر عمل ہیں۔ اب اسرائیلی فوج کے سربراہ کو ایک وزیر دفاع کے بجائے عملاً تین وزرا کے سامنے جوابدہ بنانے کی تیاری کے لیے قانون تبدیل کیے جا رہے ہیں۔ فوج کے سربراہ سے وزیر دفاع ہی نہیں وزیر داخلہ اور داخلی سلامتی سے متعلق پولیس کا وزیر ایتمار بن گویر بھی آرمی چیف سے جواب طلبی کر سکے گا۔ فوج سے متعلق قانون میں اس ترمیم پر اسرائیلی فوج کے سربراہ نے بھی سخت ردعمل دیا ہے جبکہ سیاسی حلقوں میں نئی حکومت کو ’اپنی مرضی کی فوج‘ بنانے کی کوشش کے تبصروں سے یاد کیا جا رہا ہے۔ یہ بظاہر فلسطینیوں کے خلاف جاری جارحیت سے الگ معاملات ہیں، اسی لیے پالیسیوں اور اقدامات کی بنیاد پر اسرائیل کے لوگ بھی اس اتحادی حکومت کو خوب اچھی طرح سمجھنے اور پہچاننے لگے ہیں۔ مگر اصل آزمائش نتن یاہو کی ہے۔ وہ اپنے انتہائی انتہا پسند اور انتہائی دائیں بازو کے اتحادی حکمرانوں کے ساتھ کس طرح اور دنیا کے ساتھ کیسے معاملہ کرتے ہیں؟ اگرچہ نتن یاہو کی کوشش ہے کہ وہ اپنے انتہا پسند اتحادیوں کا کاندھا خوب استعمال کریں اور اسرائیل کو ایک خالص یہودی قوم پرست ریاست بناتے ہوئے دو ریاستی حل کو قصہ پارینہ بنا دیں، البتہ خارجہ محاذ پر مختلف رام کہانی سناتے رہیں۔ ممکن ہے اب تک انتہا پسندی، بنیاد پرستی، نسل پرستی جیسے القابات سے بیرونی دنیا میں بچائی گئی نئی اسرائیلی حکومت خود اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے سامنے آنے والے ردعمل کا سامنا نہ کر سکے۔ نتیجتاً ہر معاملے میں بے سمت حکومت کو جلدی لوٹ کے گھر جانا پڑ جائے۔