مضامین

این سی پی میں پھوٹ سے بی جے پی کو فائدے سے زیادہ نقصان ہوا!

سجاتا آنندن

نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کی تقسیم کے بعد پیدا ہوئی ہلچل کے پُرسکون ہونے کے 24 گھنٹوں کے اندر، ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ مہاراشٹرا میں اپنی حکومت میں نام نہاد ”تیسرے انجن“ کو شامل کرنے کے باوجود بی جے پی بے چین ہے۔
سیدھے سوال اٹھ رہے ہیں کہ جب اسمبلی میں بی جے پی کے پاس کافی عددی طاقت موجود ہے تو پھر اسے ایک اور پارٹی کو توڑ کر اپنے ساتھ لانے کی ضرورت کیا پڑی؟ حالا نکہ غالباً یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ انہیں این سی پی کو توڑ کر اپنی عددی طاقت مضبوط کرنی پڑی۔ خیال رہے کہ اسمبلی کے اسپیکر کو جلد ہی شنڈے دھڑے شیو سینا کے 18 ایم ایل اے کو نااہل قرار دینے کے معاملے پر فیصلہ سنانا ہوگا جن کے خلاف ادھو ٹھاکرے نے سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے چاہے کچھ بھی کہا ہو، اس نے واضح کر دیا تھا کہ ان ارکان اسمبلی کا انحراف غیر قانونی تھا، لیکن حتمی فیصلہ اسپیکر پر چھوڑ دیا۔ اب قانون کے مطابق اسپیکر کے پاس ان ایم ایل ایز کو نااہل قرار دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، ایسے میں بی جے پی اگلے سال اکتوبر ۔نومبر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات تک اپنی تعداد برقرار رکھنے پر مجبور ہے، لیکن اس نے جو قدم اٹھایا ہے ، ایسے میں اس نے اپنے اس فائدہ کو شاید کھودیا ہے جو اسے حاصل تھا۔
این سی پی میں پھوٹ سے ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے پر بی جے پی کی گرفت کمزور پڑ گئی ہے جس کی بنیاد پر اس نے شیوسینا کو تقسیم کرواکر اپنی حکومت بنائی تھی۔ ایکناتھ شندے شروع سے صرف ایک ہی راگ لگا رہے ہیں کہ ”ا±دھو ٹھاکرے نے ہندوتوا کو دھوکہ دیا ہے…“ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کانگریس اور این سی پی کے ساتھ اتحاد کیا، جو سیکولر نظریہ کی پیروی کرتے ہیں، جو بی جے پی کے فرقہ وارانہ ایجنڈے کے خلاف ہے۔
اسی لیے جب آدتیہ ٹھاکرے نے طنز کیا کہ ان کے والد (ادھو ٹھاکرے) کی حکومت کو تین ٹانگوں پر ٹکی ہوئی حکومت کہنے والوں کی حکومت بھی اب صرف تین ٹانگوں پر کھڑی ہے۔ اور اس بار تیسری ٹانگ وہ ہے جس سے بی جے پی کی نفرت جگ ظاہر ہے۔
سیاسی تجزیہ کار پرتاپ آسبے نے تبصرہ کیا، ”میں یہ سمجھنے میں ناکام ہوں کہ بی جے پی کو ایسا کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی، کیوں کہ اس نے خود کو مذاق کا موضوع بنالیاہے۔“
اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ بی جے پی کے اس قدم سے اس کے وفادار اتحادی ایکناتھ شندے کی پوزیشن عجیب ہو گئی ہے، بلکہ شندے گروپ کے لیڈر جو وزیر بننے کی امید لگائے بیٹھے تھے، انہیں حیرانی سے این سی پی سے ناطہ توڑ چکے اُن سینئر قائدین کو حلف لیتے دیکھنا پڑا جن سے وہ نہ صرف نفرت کرتے تھے بلکہ جنہوں نے ان کے ڈپٹی چیف منسٹر دیویندر پھڈنویس کی زندگی بھی ایک طرح سے مشکل بنادی تھی۔ پچھلے سال جب شندے اور ان کے حامیوں نے شیو سینا سے علیحدگی اختیار کی تھی تو اس کی ایک وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ ادھو حکومت میں این سی پی کے وزراء نے ان کے انتخابی حلقوں کے فنڈز روک دیے تھے، جس کی وجہ سے انہیں عوام سے رابطے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اب وہی وزیر فڑنویس-شندے حکومت میں آگئے ہیں تو ایک بار پھر وہی صورتحال ان لیڈروں کے سامنے کھڑی ہوگئی ہے۔ ممکن ہے کہ مجبوری میں اب شندے دھڑے کے ان لیڈروں کو ادھو ٹھاکرے کے پاس لوٹنا پڑے۔پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی نے انہیں ناراض کرکے کیا حاصل کیا؟
فڑنویس طویل عرصے سے شندے کو بی جے پی کی کٹھ پتلی مانتے رہے ہیں جس کی وجہ سے شندے نے حال ہی میں اخبارات میں اشتہار جاری کرکے خود کو مضبوط ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ فڑنویس کو ان اشتہارات سے نکال دیا گیا تھا۔ تاہم، اس بات کا امکان نہیں ہے کہ فڑنویس اجیت پوار یا ان کے کسی آدمی کو کم سمجھنے سے بچ جائیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ خود بی جے پی والے مستقبل قریب میں اجیت پوار کو وزیر اعلیٰ بنانے کی بات کر رہے ہیں۔ یہ وہ معاملہ ہے جس کی خواہش اجیت پوار نے برسوں سے پالی ہے۔
یہاں تک کہ اگر بی جے پی کو یقین ہے کہ شندے کے بی جے پی کے ساتھ اتحاد سے دستبرداری کے بعد وہ اجیت پوار اور ان کے آدمیوں سے اس جگہ کو بھر سکتی ہے، تو کیا بی جے پی کسی سابق وزیر اعلیٰ کے دوسرے نمبر پر رہنے کا خطرہ مول لے گی۔
آسابے کہتے ہیں کہ یہاں بی جے پی نے حساب لگانے میں گڑبڑ کی ہے۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں لگتا کہ بی جے پی این سی پی سے آئے لوگوں کو کمتر سمجھ سکے کیونکہ اسے اب ادھو ٹھاکرے کی شیو سینا کے ساتھ ساتھ شرد پوار کی این سی پی کے بارے میں لوگوں کے جذبات سے بھی نمٹنا پڑے گا۔
آسبے کا کہنا ہے کہ بی جے پی کو ادھو ٹھاکرے کے طریقوں سے سبق لینا چاہیے تھا، کیونکہ ٹھاکرے کے زیادہ تر اقدامات شرد پوار کے مشورے پر تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر چہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شرد پوار کو اس ٹوٹ پھوٹ سے صدمہ پہنچے گا اور وہ خاموشی سے بیٹھ جائیں گے، لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ پھر سے لڑکر کھڑے ہونے میں شرد پوار کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا ہے۔
شاید شرد پوار کے موقف سے اشارہ لیتے ہوئے آدتیہ ٹھاکرے نے بھی کہا ہے کہ اب لڑائی اصولوں اور ذاتی مفادات کے درمیان ہے۔ شندے دھڑے پر طنز کرتے ہوئے آدتیہ ٹھاکرے نے کہا کہ شاید شندے کو سمجھایا گیا ہوگا کہ این سی پی کے بغیر، شنڈے دھڑے کے ساتھ بھی بی جے پی 145 سیٹیں نہیں جیت سکتی تھی۔ پرتاپ آسبے ٹھیک کہتے ہیں، ”کیا یہ (شندے گروپ کی طرف سے) اعتراف نہیں ہے کہ ان کے پاس زیادہ بنیاد نہیں ہے اور وہ اگلا الیکشن ہار جائیں گے؟“ شاید ایسا ہی ہے، حالانکہ سیاسی جواز کے نقطہ نظر سے ایسا اقدام بے وقوفی کہلائے گا، کیونکہ بی جے پی نے اپنے دوست چننے میں کوئی عقل نہیں دکھائی اور اس کے سیاسی دشمن تو پہلے ہی گھات لگائے بیٹھے ہیں۔