اور سیاست ’’ بوکھلاہٹ ‘‘ بن گئی…
حمید عادل
وزیراعظم مودی نے ایک نیا شگوفہ چھوڑاکہ ’’ یہ کانگریس کے شہزادے پچھلے پانچ سال سے صبح اٹھتے ہی مالا جپتے، پانچ سال سے ایک ہی مالا جپتے تھے ،پانچ صنعت کار، پانچ صنعت کار، پھر کہنے لگے امبانی ، اڈانی، امبانی اڈانی ،پانچ سال سے… لیکن جب سے چناو کا اعلان ہوا ہے، انہوں نے امبانی ، اڈانی کو گالی دینا بند کردیا، میں آج تلنگانہ کی دھرتی سے پوچھنا چاہتا ہوں یہ شہزادے نے اس چناو میں امبانی اڈانی سے کتنا مال اٹھایا ہے !کتنا کالا دھن ٹیمپو میں بھر بھر کر ان کے پاس پہنچا ہے …‘‘
وزیراعظم اس یقین کے ساتھ جھوٹ کہتے ہیں کہ لوگ اسے سچ مان لیں … راہول گاندھی انتخابات کے اعلان کے بعد مختلف مقامات پر امبانی ، اڈانی کا نام متواتر لیتے رہے ہیں ، اس بات کو خود وزیراعظم بھی جانتے ہیں لیکن الزام عائد کردیا کہ راہول نے دونوں صنعت کاروں کا نام لینا چھوڑ دیاہے …اس بے بنیاد الزام پر راہول گاندھی نے ویڈیو جاری کرتے ہوئے بڑا گہرا طنزکیا ’’ نمسکار مودی جی، تھوڑا سا گھبرا گئے کیا؟آپ بند کمروں میں امبانی اور اڈانی کی بات کرتے ہو، پہلی بار آپ نے پبلک میں امبانی ، اڈانی کہا ، اور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ یہ لوگ ٹیمپو میں پیسہ دیتے ہیں ، کیا یہ آپ کا ذاتی تجربہ ہے ؟ایک کام کیجیے سی بی آئی ، ای ڈی کو ان کے پاس بھیجئے، پوری جانکاری کروائیے، جلداز جلد کروائیے، گھبرائیے مت مودی جی …‘‘
بی جے پی دس سال تک محض جھوٹ پر زندہ رہی ، اورعوام کو نادان سمجھتی رہی ،لیکن آج عوام کے بدلے ہوئے موڈ کو دیکھ کراسے اپنی نادانی پر ترس آرہا ہوگا :
مجھ سا کوئی جہان میں نادان بھی نہ ہو
کر کے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو
سعد اللہ شاہ
وزیراعظم مودی ان دنوں غالباً بوکھلاہٹ کا شکار ہیں،کچھ لوگ اپنی بوکھلاہٹ کو سلیقے سے چھپا لیتے ہیں لیکن باسلیقہ وزیراعظم اس سلیقے سے ناواقف معلوم ہوتے ہیں ….. سنا ہے کہ امبانی اڈانی والے تازہ بیان کے بعد بی جے پی کے دیگر سینئرقائدین کافی ڈرے سہمے ہیں کہ جانے کب وزیراعظم ہمارے بارے میں بھی ایسا ہی کچھ نہ کہہ دیں؟ اُدھرامبانی اور اڈانی جو وزیراعظم کے قریبی ہیں ، سوچ رہے ہوں گے کہ ہم نے مودی جی سے دوستی کرکے نادانی تو نہیں کی؟
نادان کی دوستی کے بارے میں ایک ضرب المثل ہے ۔۔’’نادان کی دوستی، جی کا زِیاںـ‘‘ـــیہ ضرب المثل اصطلاحاً پوشیدہ بیوقوف کی دوستی کو ظاہر کرتی ہے۔مثل تو یہ بھی خاصی مشہور ہے کہ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے۔ نادان دوست ایک ایسا دوست ہوتا ہے، جس کے دل میں آپ کے لیے خلوص کا دریا توموجیں مارتا ہے …لیکن جب کوئی بات اس پرآجائے تو پھر وہ جس کے لیے جاں نثار کرنے کو تک تیار تھا، اسی کی جان کا دشمن بن بیٹھتا ہے …بوکھلاہٹ آدمی کو کہیں کا نہیں چھوڑتی …
ایک صاحب ہیر ڈریسر کی دکان پر، بڑے سکون سے کُرسی پر بیٹھے شیو بنوا رہے تھے۔آدھا شیو بن چکا تھا۔بائیں رُخسار پر شیونگ کریم ابھی موجود تھی کہ اچانک دکان کے دروازے پر ایک نو عمر لڑکا نمودار ہوا اور آتے ہی چلّا کر بولا ’’میاں جعفر! تمہارے گھر میں آگ لگ گئی ہے۔‘‘ یہ اطلاع دے کر وہ لڑکا دروازے سے ہی مُڑا اور واپس دوڑگیا…
یہ سنتے ہی وہ صاحب تڑپ کرکُرسی سے اُچھلے،گلے سے تولیہ کھینچ کر انہوں نے حجام کے منہ پرکھینچ کر مارا، حجام اِس اچانک حملے سے سنبھل نہ پایا … اُس کے ہاتھ میں موجود استرا برابر والی کرسی پر بیٹھے ہوئے کسٹمرکی ناک پر جا لگا… دوسرے کسٹمر نے ایک ہاتھ سے ناک پکڑی اور دلخراش چیخ مارکر جو اٹھا تو اس کی پہیّوں والی کرسی ریورس ہو کر ایک ایسے صاحب کی طرف گولی کی طرح آئی، جو اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے پیچھے موجود ایک صوفے پر بیٹھے،اخبار کے مطالعے میں گُم تھے… اِس اچانک تصادم یا افرا تفری کے نتیجے میں اپنی باری کا منتظر وہ کسٹمر،اخبار اور کرسی تینوں آپس میں بری طرح مدغم ہوگئے…
اتنی دیر میں میاں جعفرنے دروازے کی طرف ایک لمبی جست لگائی اور دکان کے سامنے سے گزرنے والے ایک امرود فروش کی چھابڑی میں جا گرے۔ بد قسمت پھل فروش ایک لمبے بانس کے دونوں سروں پر امرود سے بھری دو چھابڑیاں لٹکا کر بانس اپنے کندھے پر رکھے شاید غلط وقت پر وہاں سے گزر رہا تھا، توازن بگڑنے کے باعث دوسری چھابڑی، ترازو کے اُس خالی پلڑے کی مانند بلند ہوگئی جس کے دوسرے پلڑے میں اچانک پانچ کلو کا باٹ رکھ دیا جائے۔
میاں جعفر ہڑبڑا کر اٹھے،لیکن سڑک پر لڑھکتے ہوئے پھلوں پر پاوں رپٹ جانے کے باعث پھر گرے، اِن کے دوبارہ اٹھنے سے قبل ہی پھل فروش مع دوسری چھابڑی،کسی کٹی ہوئی پتنگ کے آخری غوطے کے مانند میاں جعفر پر کھڑے قد سے آگرا… میاں جعفر نے جھّلا کر امرود فروش کو ایک طرف دھکا دیا، پُھرتی سے اٹھے اورکھڑے ہو کر وہاں سے لانگ جمپ لگائی تو بڑے اطمینان کے ساتھ ایک پہلوان نما شخص کے خیمے جیسے کرتے میں جا گُھسے۔ پہلوان نما شخص کی چار عدد گالیاں ، دوزور دار گھونسے اور دس چانٹے کھا کر وہ بمشکل تمام ڈھیلے ڈھالے کرتے سے باہر آئے اور پوری رفتار سے ناک کی سیدھ میں دوڑتے چلے گئے…
تقریباً نصف کلو میٹر دوڑنے کے بعد انہوں نے اچانک اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا اور رک گئے… پھر اُنہوں نے بڑبڑاتے ہوئے خود سے سوال کیا ’’میں کیوں بھاگ رہاہوں؟ جب کہ میرا نام تو میاں جعفر ہے ہی نہیں اور نہ ہی اِس شہر میں میرا کوئی گھر ہے۔ میں تو قریبی گاوں میں موجود اپنے کرانہ اسٹور کے لیے سامان خریدنے شہر آیا تھا…‘‘
اِس لطیفے کو اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو اِس کے لیے موزوں ترین لفظ ’’بوکھلاہٹ۔‘‘ ہوگا… بوکھلاہٹ میں آدمی کو یاد ہی نہیں رہتاکہ وہ کیا کررہاہے اور کیوں کررہا ہے ،بس دیوانگی کا عالم ہوتا ہے اور ایسی ہی دیوانگی ان دنوں بی جے پی کے سر پر سوار ہے …حالات اس قدر بدلتے جارہے ہیں کہ گودی میڈیا بھی بی جے پی پر سے ہاتھ کھینچتا نظر آرہا ہے …وہی گودی میڈیا جس کے چینلس پرصبح سے شام تک کنول ہی کنول کھلتا نظر آتا ہے…اور جن کے تعلق سے یہ لطیفہ مشہور کردیا گیا ہے کہ اینکرس کو سخت ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ کسی بھی چینل پر کانگریس کے انتخابی نشان ’’ ہاتھ‘‘ کو حتی الامکان اسکرین پرنہ دکھایا جائے اور مختصر رپورٹنگ کے دوران لفظ ’’ہاتھ‘‘ کی آوازبھی ناظرین کو کم کم ہی سنائی دینی چاہیے… چنانچہ ایڈیٹنگ کے دوران فوٹیج میں جہاں کہیں انتخابی ریالیوں میں ’ ’ہاتھ‘‘ نظر آتا یا اس کا نعرہ سنائی دیتا، نیوز پروڈیوسر چیخ مارتا ’’کاٹو ،کاٹو ، کاٹو، یہ ہاتھ نہ کاٹا تو اپنی نوکری کٹ جائے گی اور کبھی تو نعروں یعنی ’’ہاتھ بدلے گا حالات‘‘یا ’’ کانگریس کا ہاتھ عام آدمی کے ساتھ ‘‘ وغیرہ پر رپورٹر کی آواز سوار کردی جاتی … ٹی وی اینکرس پر لفظ ’’ہاتھ‘‘ کے بارے میں بوکھلاہٹ کا عالم یہ ہوچکا تھا کہ ایک مقرر نے کسی موضوع پر تقریر کرتے ہوئے تین مرتبہ مختلف موقعوں پر لفظ ’’ ہاتھ‘‘ کا کچھ اس طرح استعمال کیا:’’بیرون ملک ہمارے فنکاروں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے ۔‘‘،’’کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا بری بات ہے۔‘‘،’’ ہماری ناکامی میں اکثر و بیشتر ہمارا اپناہی ہاتھ ہوتا ہے ۔‘‘ تو نیوز پروڈیوسر نے کہہ دیا کہ یہ تقریر قابل ٹیلی کاسٹ نہیں، اس میں بار بار ’’ہاتھ‘‘ کا ذکر ہے…
سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ ’’ ہاتھ‘‘ کو ہاتھوں ہاتھ لیا جارہا ہے ، اسی کو تاڑتے ہوئے وزیراعظم مودی مسلمان، پاکستان، جہاد، مٹن، چکن کی باتیں کرتے کرتے جھوٹ پر اتر آئے اور جب ان تمام باتوں سے بھی انہیں کوئی قرار نہیں ملا تو ’’ایموشنل اتیا چار ‘‘کو اپنا لیا ہے،اب وہ مرنے جینے کی باتیں کررہے ہیں …
وزیراعظم کسی نہ کسی طرح سے عوام جڑے رہنا چاہتے ہیں ، لیکن کیا وہ عامآدمی کے درد کو سمجھتے بھی ہیں ؟ ’’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘‘کہنے والے وزیراعظم کے دور میں خاتون ریسلرس جو اپنے حق کے لیے لڑہی تھیں، پولیس نے ان پر لاٹھیاں برسائیں،ملک کے مختلف علاقوں میں خواتین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے لیکن وزیراعظم ’’ میں چپ رہوں گا‘‘ کی مورت بنے رہے ، 26 اپریل2023ء کاایک واقعہ یاد آرہاہے جب انہوں نے کسی خاتون کی خودکشی کو ایک میڈیا پروگرام میںہنسی مذاق کا موضوع بنادیا تھا ، جس کی بدولت سوشل میڈیا پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی …پی ایم مودی نے کہا تھا ’’ بچپن میں، ہم ایک لطیفہ سنتے تھے،ایک پروفیسر کی بیٹی نے خودکشی کر نے سے قبل ایک چٹھی چھوڑی، جس میں لکھا تھا ’’ میں زندگی سے تھک چکی ہوں ، اس لیے کنکریاجھیل میں چھلانگ لگا کر مر رہی ہوں۔‘‘ صبح اس چھٹی کو پڑھ کر باپ کو بہت غصہ آیا کہ میں پروفیسر ہوں اور میری بیٹی نے مرتے مرتے میرا نام مٹی میں ملا دیا’’کنکریا‘‘ لفظ کو غلط لکھ کر مرگئی…‘‘لطیفے سننے کے بعد سامعین مسکراتے ہوئے تالیاں بجارہے تھے تو وزیراعظم ہنستے مسکراتے نظر آرہے تھے….اس موقع پرراہول گاندھی کو ٹوئٹ کرنا پڑا تھا: خودکشی کی وجہ سے ہزاروں خاندان اپنے بچوں کو کھو دیتے ہیں اور وزیر اعظم کو ان کا مذاق نہیں اڑانا چاہئے جب کہ پرینکا گاندھی نے کہا: بھارت میں خودکشی کی بڑی تعداد ایک المیہ ہے نہ کہ مذاق…
لیکن اس کو کیا کیجیے کہ اب سیاست ، سیاست نہ رہ کر ’’ مذاق ‘‘ بن گئی ہے …معروف ادیب سعادت حسن منٹو، سیاست اور سیاست دانوں کے بارے میں برسوں پہلے ایسے ایسے خیالات کا اظہار کرچکے ہیں کہ لگتا ہے جیسے انہوں نے آج کے حالات کو دیکھ کر لکھنے پر مجبور ہوگئے ہیں… ذیل میں ان کے چند اقوال زرین پیش کیے جارہے ہیں ، پڑھیے اور سر دھنیے…
’’لیڈر جب آنسو بہا کر لوگوں سے کہتے ہیں کہ مذہب خطرے میں ہے تو اس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ مذہب ایسی چیز ہی نہیں کہ خطرے میں پڑ سکے، اگر کسی بات کا خطرہ ہے تو وہ لیڈروں کا ہے جو اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے لئے مذہب کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ ‘‘
’’ہندوستان کو ان لیڈروں سے بچاؤجو ملک کی فضا بگاڑ رہے ہیں اور عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔‘‘
’’سیاست اور مذہب کی لاش ہمارے نامور لیڈر اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں اور سیدھے سادے لوگوں کو (جو ہر بات مان لینے کے عادی ہوتے ہیں) یہ کہتے پھر تے ہیں کہ وہ اس لاش کو از سر نو زندگی بخش رہے ہیں۔ ‘‘
۰۰۰٭٭٭۰۰۰