او دیوانے پتھر سے نہ مار کسی شانے کو ۔۔۔!!

سید علی حیدر رضوی
بر صغیر کی جمہوریت کا باوا آدم نرالا ہے کیونکہ یہاں کے سیاسی قائدین کا کوئی سیاسی نظریہ مضبوط نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ یہ قائدین کوئی مضبوط سیاسی نظریہ رکھنے والی جماعت سے اٹوٹ وابستگی نہیں رکھتے۔ ان کا تعلق پارٹی سے اس وقت تک ہی باقی رہتا ہیں اور ان مفادات کی حسب منشاء تکمیل ہوتی رہتی ہے۔ جب انہیں لگتا ہے کہ پارٹی ان کے مفادات کی تکمیل نہیں کر رہی ہے تو پھر پارٹی سے قطع تعلق کرلینے اور کسی ایسی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلینے کے مواقع تلاش کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔ جب کوئی پارٹی انہیں ہلکا سا اشارہ بھی دے دیتی ہے کہ وہ ان کا اپنی پارٹی میں استقبال کرے گی۔ تب وہ شمولیت سے قبل بھائو تائو کرنا اور سودے بازی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ سارے شرائط سامنے رکھ دیتے ہیں جن آنے والے انتخابات میں ان کی مرضی کے حلقہ انتخاب سے پارٹی ٹکٹ دینا۔ کے حامیوں کیلئے بھی پارٹی کی تنظیم میں مناسب عہدے دینا۔ ان کی سیاسی آباد کاری کرنا تاکہ وہ سیاسی بیروزگاری کا شکار نہ ہوں۔ وہ اپنے علاوہ اپنے حامیوں کیلئے بھی ضمانتیں طلب اسی لئے کرتے ہیں تا کہ وہ نئی یاد دوسری پارٹی میں یکا وتنہا نہ ہو جائیں اور دوسری نئی پارٹی میں کمزـور اجنبی اور بے سہارا نہ سمجھے جائیں۔ یہ مکار و چالاک سیاسی قائدین بہت سوچ بچار اور غور و خوض کے تمام پہلوں کا باریک بینی سے جائزہ لے کر دائو کھیلتے ہیں ۔ جب تک اپنی ساری شرائط کی تکمیل نہ کروالیں شمولیت اختیار نہیں کرتے۔ اگر اس دوران ان کی ا پوزیشن پارٹی سے ساز باز اور اندرونی طور پر ہونے والے سلسلہ جنبانی کی خبر ان کی پارٹی جس میں وہ ابھی باقی ہیں ہو جاتی ہے یا پھر میڈیا سن گن کے لیتا ہے تو یہ مکار قائدین بڑی ڈھٹائو سے انکار کر دیتے ہیں۔ غلط ٹھہرا دیتے ہیں۔ مخالفین کی سازش کہہ کر معاملہ کو رفع دفع کردینے کی کوششیں کرتے ہیں مبادا کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ جس پارٹی میں ہیں وہ پارٹی انہیں ڈسپلن کی خلاف ورزی کی پاداش میں پارٹی سے نہ نکال دے اور شمولیت اختیار کرنے والی پارٹی سے سودے بازی بھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچے اور ان کی حیثیت مثل دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کاسی ہو جائے ۔ اسی خوف کے زیر اثر وہ ہر دائو خوب جانچ پرکھ کے بعد ہی کھیلتے ہیںاس کے باوجود بعض اوقات پانسا الٹا پڑ جاتا ہے اور وہ دائو کھا جاتے ہیں کیونکہ موجودہ دور سیاست بازی گری اور دائو پیچ کا ہے ‘ ورنہ اس میدان میں ہر کس و نا کس ٹک نہیں سکتے۔ چنانچہ سیاست میں تقریباً ہر لیڈر خرقۂ سالونس میں ملبوس نظر آتا ہے۔ خرقۂ سالوس اگر اتر جائے تو وہ عریاں ہو جاتا ہے۔ سب جان جاتے ہیں کہ یہ قوم پرست قائد نہیں ہے بلکہ ایک مکار‘ مفاد پرست اور اقتدار کا بھوکا شخص ہے۔ انتخابات کے منعقد ہونے کے وقت کے اعلان کے ساتھ ان سیاست دانوں کی دو فصلی اور دوقولی ‘ باتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ عوام کو رجھانے اور انہیں اپنے اور اپنی پارٹی کے حق میں ووٹ دینے کی ترغیبات شروع ہو جاتی ہیں۔ جن پارٹیوں نے اپنے حلقوں میں عدم کارکردگی کی وجہ سے مقبولیت کھو دی ہے یا جن کے جیتنے کے امکانات موہوم ہو چکے ہیں تو انہیں ٹکٹ دینے سے انکار کر دیتی ہیں۔ تب یہ پارٹی ٹکٹ سے محروم قائدین دوسری پارٹی میں شمولیت کیلئے دوڑ دھوپ کرنے لگ جاتے ہیں۔ اب اس سال کے ماہ اپریل یا مئی ریاستی اسمبلی کے انتخابات متوقع ہیں ۔ اس کے بعد آئندہ سال یعنی 2024ء کے ماہ مئی میں پارلیمانی انتخابات منعقد ہوںگے لہٰذا ریاستی اور قومی پارٹیاں خود کو کیل کانٹوں سے لیس کرنے میں آٹھوں پہر مصروف ہیں۔نت نئی چالیں چلنے اور حزب اختلاف کو بچھاڑنے کی منصوبہ بندی میں لگی ہوئی ہیں۔ پارٹیاں بدلی جا رہی ہے۔ جس پارٹی کو ما بعد الیکشن اقتدار ملنے کی امید قوی ہے۔ اس میں شمولیت اختیار کی جارہی ہے۔ آج کل جو ا خبار اٹھا ئیے اس میں پارٹی بدلنے کی خبریں زیادہ مل رہی ہیں۔ بر صغیر میں پارٹیاں بلدنے کی روش عام ہے کیونکہ ان سیاست دانوں کا کوئی سیاسی نظریہ نہیں ہوتا اور نہ کوئی مطمع نظر ہوتا ہے۔ انہیں تو فقط اقتدار مطلوب ہوتا ہے۔ یہ انہیں جہاں سے ملے جس پارٹی کی معیت میں ملے منظور ہے خواہ اس پارٹی کے نظریات کچھ بھی کیوں نہ ہوں ۔ چنانچہ وہ لیڈر جو خود کو سیکولر ظاہر کرتے رہے عہدے اور منصب کے ایچ میں فرقہ پرست پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔ اسی طرح کٹر فرقہ پرست جن کی زبان کل تک زہر اگلا کرتی تھی سیکولر پارٹی میں شامل ہونے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے کیونکہ ان کی ہمیشہ روش جدھر ہری ادھر چری والی ہوتی ہے۔ یہ لیڈر جہاں سبزہ نظر ادھر ہی دوڑ جاتے ہیں۔
بعض اوقات دوسری پارٹیاں بھی مضبوط حزب اختلاف کی پارٹی کو توڑنے اسے کمزور کرنے ‘ اسے نابود کرنے کی غرض سے اس پارٹی کے اہم اور عوام میں مقبولیت رکھنے والوں کو تحریص دے کر اپنی پارٹی میں شامل کرلیتے ہیں حالیہ دنوں میں بی جے پی نے کھیل کھیل کرکئی ریاستو ں میں خوب کھیلا ہے۔ مہاراشٹرا میں شیو سینا کی اودھو ٹھاکرے کی حکومت کو ایکناتھ شنڈے کو تحریص اور وزارت اعلیٰ کے عہدے پر برجمان کرنے کی لالچ دے کر گرادی اور حسب وعدہ انہیں وزیر اعلیٰ مقرر کر دیا۔ اب جبکہ سپریم کورٹ نے اسپیکر کو ایکناتھ شنڈے اور ان کے تمام باغیوں حریفوں کے خلاف ڈسپلین شکنی کے خلاف تادیبی کارروائی میں دانستہ تاخیر کرنے اور مختلف حیلوں بہانوں سے کارروائی کرنے میں تاخیر کرنے نوٹس بھیجی تو بی جے پی کو لگا کہ ایکناتھ شنڈے کو خاطی قرار دیا جائے گا اور انہیں اسمبلی رکنیت سے معہ باغی ارکان کے معطل کر دیا جائے گا اور مہاراشٹرا میں غیرجمہوری طریقے سے ہتھیائی حکومت اقلیت میں آجائے گی تو پیش بندی کرتے ہوئے شردپوار کی پارٹی این سی پی پر ہاتھ مارا اور اجیت پوار کو ا ی ڈی ‘ سی بی آئی اور دیگر ایجنسیوں کا خوف دلا کر اورنائب وزیر اعلیٰ کا خوف دلا کر توڑ دیا تاکہ مہاراشٹرا میں ہونے والی امکانی اقلیت کی پابجائی ہو سکے۔ چنانچہ اجیت پوار کو نائب وزیر اعلیٰ کا حلف بھی دلوا دیا لیکن اندرون دو ہفتے اجیت پوار کو احساس ہو گیا کہ ان سے بہت بڑی غلطی سر زد ہ وگئی ہے۔ان کا سیاسی کیئرئر دائو پر لگ گیا ہے کیونکہ شرد پوار نے مراٹھی عوام کو باغی لیڈر کے خلاف کھڑا دیا چنانچہ وہ اچانک دوبارہ شرد پوار کی خدمت میں پہنچ گئے لیکن خبروں کے مطابق شرد پوار نے انہیں گھانس نہ ڈالی۔ وہ ان سے کوئی بات نہ کی‘ بس خاموش رہے۔ پرفل پٹیل نے خود اس کا اعتراف کیا ہے خود ان کا کہنا ہے کہ شرد پوار نے فقط ان کی بات سنی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بھی کسی دلچسپی کے بغیر۔ بی جے پی نے پے درپے خطرناک سیاسی غلطیاں کی ہیں۔ وہ حکومت اور اقتدار کے نشے زبردست اکثریت کے بھرے پر بدمست ہو گئی تھی جس کی وجہ ملک کی تمام حریف پارٹیوں کو متحد ہونے پر مجبور کر دیا تا کہ بی جے پی حکومت کو بے دخل کیا جا سکے۔ تمام حزب اختلاف کی اجلاس منعقد کر رہی ہیں ۔ 17؍ جولائی کو بنگلور میں اجلاس منعقد کیا۔ اسی بی جے پی نے بھی اپنی حلیف پارٹیوں کو لیکر دہلی میں 18؍ جولائی کو منعقد کر رہی ہے۔ ہر دو گروپ عوام تک کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ کسی کو اپنا اقتدار بچانے کی فکر ہے تو کسی کو اقتدار پانے کی تمنا ہے۔
اس تک ودو میں ہر دو گروپ ایک دوسرے پر تنقید اور جوابی تنقید میں اور الزام تراشیوں میں لگی ہوئی ہیں۔ بی جے پی اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور ان ناکامیوں کو شاندار کامیابیاں باور کرانے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے تو دوسری طرف کانگریس جو خود بی جے پی کا دوسرا روپ ہے بی جے پی کی غلط حکمرانی اور فرقہ پرستی کو اپنی حق میں بھنانے کی تگ ودو میں مصروف ہے ۔ عوام ان کو خورد بین سے دیکھ کر بغور جائزہ لے رہے ہیں ۔ علاقائی پارٹیاں جو اپنے اپنے علاقوں میں مضبوط ہیں اور کارکردگی کا بہترین ریکارڈ بھی رکھتی ہیں اور عوام میں بھی مقبول ہیں جیسے تلنگانہ میں بی آر ایس ‘ دہلی میں عام آدمی پارٹی‘ بہار میں نتیش کمار جنہیں ہرانا کانگریس کے بس میں ہر گز نہیں ورنہ وہ کانگریس کو بی جے پی کا نرم رو د ‘ وسرا روپ سمجھتے رہے ہیںاور ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں کہ ہندوستان کو بی جے پی اور کانگریس مکت ملک بنانا ہے۔ بی جے پی پر اگر فرقہ پرستی اور عوام کو مذہب ذات پات اور اقلیتوں کے ساتھ معاندانہ رویہ رکھنے کا ریکارڈ ہے تو کاگریس پر بھی یہی الزام عرصہ دراز عائد ہوتے رہے ہیں۔ بابری مسجد کا تالا کھلوانے وہاں مورتیارں رکھنے ‘ شیلا نواس کروانے کا الزام ثابت ‘ سنہری گردوارہ کا نہدام‘ سیکھوں کا قتل عام ایمرجنسی کا نفاذ جیسے بھیانک جرائم سے وابستہ ہیں۔ کئی مسلم کش فسادات کا الزام بھی ہے جو مسلمانوںکے نزدیک ثابت شدہ ہیں۔ علاوہ ازیں دوران ایمرجنسی سنجے گاندھی اور ان کے قانون شکن غنڈوں کی زیادتیاں مسلمانوں کے دلوں پر نقش ہیں۔ دہلی کی جامع مسجد اور سیڑیوں کی مسماری اس کے سامنے کی مسلمانوں کی ہوٹلوں اور دوکانوں کو منہدم کیا جانا نقش ہے۔ آج کس منہ سے کانگریس بی جے پی بڑا بھلا کہنے اور اس پر فرقہ پرستی کا الزام عائد کر سکتی جبکہ خود ریکارڈ بھی ویسا ہی ہے اس لئے کانگریس مسلمان نرم ہندتواء پر عمل پیرا اور بی جے پی دوسرا رخ مانتے ہیں۔ تلنگانہ کو سونیا گاندھی کی دین قرار دے کر ٹی آر ایس کی جدوجہد اور قربانیوں کو مخفی رکھنے کی کوششیں کرتی ہے۔ چنا ریڈی جو کانگریسی لیڈر اور وزیر اعلیٰ بھی رہے 1969ء میں تلنگانہ ایجی ٹیشن چل کر ہزاروں طلباء کو مروا ڈالا۔ برہما نند ریڈی جو اس وقت کے وزیر اعلیٰ تھے مجاہدین تلنگانہ کو پولیس کے ذریعہ گولیوں سے بھون ڈالا۔ چنا ریڈی نے دھوکہ دے کر گورنر ی کی خاطر دغا کی۔ اب کانگریس بڑی معصوم بن کر کے سی آر ‘ کے ٹی آر اور بی آر ایس پر بیجا تنقیدیں کر رہی ہے۔ جھوٹے الزامات عائد کر رہی ہے ۔ بی آر ایس حکومت کو ہر محاذ پر ناکام بتا رہی ہے لیکن وہ کے سی آر حکومت سے قبل اپنی حکومت جو وائی ایس آر کی قیادت میں بھیکا کوئی کارنامہ بتانے سے قاصر ہے۔ وائی ایس آر کی بد عنوانیوں کی وجہ جگن موہن ریڈی کو جیل جانا پڑا تھا۔ اسی وجہ سے ہریش رائو کو کہنا پڑا کہ کانگریس پارٹی کا حال دیوانے کے ہاتھ میں پتھر کی طرح ہے ’’ دیوانہ بلا کسی وجہ کے کسی کو پتھر مار کر لہولہان کر سکتا ہے۔‘‘ لیکن تلنگانہ عوام سیانے ہیں۔ وہ کانگریس کے جھانسے میں نہیں آنے والے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰۰