بات برسات کی

حمید عادل
وہ کون ہے جسے ہر کوئی سنتا توہے پر اس کی بات پر یقین مشکل سے آتا ہے؟
محکمہ ٔ موسمیات کا ’’ آدمی‘‘
جی ہاں!حال ہی میں محکمہ ٔ موسمیات نے پیش قیاسی کی تھی کہ مطلع صاف رہے گا لیکن مطلع ابر آلود تھا اور وقتاً فوقتاً رم جھم برسات بھی ہورہی تھی۔اسی طرح جب محکمۂ موسمیات زور دار بارش کی پیش قیاسی کرتا ہے تو چلچلاتی دھوپ ہر طرف اپنا جلوہ دکھاتی ہے۔
انسانی زندگی میں بارش کی خاصی اہمیت ہوتی ہے ، بارش اس لیے ہوتی ہے کیونکہ آسمان زیادہ دیر تک پانی کاوزن سنبھال نہیں سکتا ، ٹھیک اسی طرح آنسو بہتے ہیں کیونکہ دل زیادہ دیر تک درد نہیں سنبھال سکتا۔
برسات خوشیوں کی ہوتی ہے ،برسات دکھ، درد کی ہوتی ہے ۔ایک برسات دولت کی بھی ہوتی ہے ، اور جس پر دولت کی برسات ہوتی ہے ، سارا زمانہ اس کے ساتھ’’ بھیگنے‘‘ کی حسرت رکھتا ہے ، نہ صرف اس کے ساتھ’’ بھیگنا‘‘ چاہتا ہے بلکہ اس کے ساتھ گنگنانے اور چائے پینے سے بھی احتراز نہیں کرتا۔
ہمارے ہاتھ میں اخبار تھا اورہم ’’کھلاڑیوں کے کھلاڑی‘‘ ’’ سب سے بڑا کھلاڑی ‘‘ یا پھر ’’ کھلاڑی 420 ‘‘کی خبر پڑھ رہے تھے۔جی نہیں !فلم اداکار اکشے کمار نہیں بلکہ ہمارا اشارہ سریش کلمڈی کی طرف ہے، ان سے بڑا کھلاڑی تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔دولت مشترکہ میں جو کھیل موصوف نے کھیلا، اسے کوئی بھی فراموش نہیں کرسکتا۔
خیر ! کلمڈی کے تعلق سے خبر تھی کہ ٹرائل عدالت کے جج برجیش کمار گرگ نے 30 جون کو جیل کا اچانک دورہ کیاتو سریش کلمڈی کو مبینہ طور پر سپرنٹنڈنٹ کے ساتھ چائے نوشی کرتا ہوا پایا۔یہ نظارہ دیکھ کر جج صاحب کو بڑی حیرت ہوئی( حالانکہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں تھی) وہ اگر کچھ دیر پہلے تہاڑ جیل میں داخل ہوتے تو ہمیں یقین ہے کہ انہیں اور بھی زیادہ ہوش اڑا دینے والا نظارے دکھائی دیتے ۔عین ممکن ہے کہ چائے نوشی سے پہلے سریش کلمڈی اور جیل سپرنٹنڈنٹ ساتھ بیٹھ کر مرغ مسلم اوربریانی اڑا رہے ہوں اور اس سے پہلے ہوسکتاہے دونوں آپس میں ’’ چور پولیس ‘‘ کا کھیل ، کھیل رہے ہوں۔ جی ہاں!سریش کلمڈی ’’ پولیس ‘‘ کا رول اور جیل سپرنٹنڈنٹ ’’ چور‘‘ کا رول ادا کررہے ہوں!خدا نخواستہ یہ نظارہ اگر ٹرائل عدالت کے جج دیکھ لیتے تو شاید وہ سیدھے ’’ کوما‘‘ میں چلے جاتے!
اف! ہم بھی برسات کا ذکر کرتے کرتے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ہمیں اپنی یہی عادت پسند نہیں ہے،تو ذکر چل رہا تھا موسم برسات کا۔
احتیاط علی محتاط برسات میں بھیگنے سے بہت زیادہ احتیاط برتتے ہیں ،کہتے ہیں کہ کیا تم نہیں جانتے انسان ’’ مٹی‘‘ سے بنا ہے ! اب انہیں یہ کون سمجھائے کہ کمہار کے بنائے ہوئے گھڑے بھی مٹی کے ہوتے ہیں لیکن وہ ہردم اپنے اندر پانی کو سموئے ہوئے رہتے ہیں ۔
موسم گرما کے بعد ہر کوئی موسم برسات کی پہلی بارش کا بے چینی سے انتظار کرتا ہے،ہمارا بھی ان ہی لوگوںمیں شمار ہوتا ہے اب یہ الگ بات ہے کہ برسات میں بھیگتے ہی ہمارا حلیہ کچھ اس طرح بدل جاتا ہے کہ ہمیں ہمارے دوست احباب تو چھوڑیے ہم خود اپنے آپ کو نہیں پہچانتے۔ چنانچہ بھیگی ہوئی حالت میں ہم کبھی آئینہ دیکھ لیتے ہیں تو اپنا ہی عکس دیکھ کر پوچھ بیٹھتے ہیں ’’ بھائی صاحب ! آپ کون ہیں؟ ہم نے آپ کو پہچانا نہیں، براہ کرم اپنا تعارف تو دیجیے!‘‘
قصہ مختصر یہ کہ برسات میں بھیگ کر ہم ’’ ہم‘‘ نہیں رہتے، بلکہ کچھ اور ہوجاتے ہیں۔ہر طرف سے چپک جاتے بلکہ پچک کر رہ جاتے ہیں ۔دبلے پن کی بدولت برسات میں بھیگے ہوئے مرغ اور ہم میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا!
یہ توہوئی ہماری بات ، اب کرتے ہیں با ت برسات کی:
بارش ہمیں چپکے چپکے بے شمار پیامات دے جاتی ہے،ان پیامات میں سے سب سے بڑا پیام یہ ہوتا ہے کہ ’’ بوند بوند سے دریا بنتا ہے!‘‘اگر آدمی اس کہاوت کو اپنے اندر اتار لے تو پھر وہ اسراف سے یقین محفوظ رہے گا اور زندگی میں کبھی قلاش نہیں ہوگا۔آج لوگ جھوٹی شان و شوکت کی خاطر روپیہ ’’ پانی‘‘ کی طرح بہانے لگے ہیں لیکن یہی پانی(بارش کی بوندوں کی شکل میں) انسان کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ ’’ نادانو! دیکھو بوند بوند سے سارا شہر کیسے جھیل میں تبدیل ہوجاتا ہے! تم بھی روپیہ روپیہ جوڑوگے تو لاکھوں بن جائیں گے!‘‘
ایک وقت تھا جب انسانی بچپن کا موسم برسات سے خاص تعلق ہوا کرتا تھا،جیسے ہی برسات ہوتی بچے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے کاغذ کی کشتیاں بنا بنا کر پانی میں چھوڑا کرتے تھے۔اگر ان کی کشتی پانی کی لہروں کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھتی جاتی تو پھر ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ ہوتا اوراگر خدا نخواستہ ان کی کشتی کچھ دیر بہنے کے بعد ڈوب جاتی تووہ کسی قدر رنجیدہ ہوجاتے لیکن پھر سے ایک نئے جذبے کے ساتھ ایک اور کشتی بنا کر پانی میں چھوڑ دیا کرتے تھے اور جیسے جیسے کشتی آگے بڑھتی جاتی ویسے ویسے بچے اس کے ساتھ آگے بڑھتے جاتے ، چیختے چلاتے اور خوشیاں منایا کرتے تھے۔ آج بھی بارش ہوتی ہے ، آج بھی بچے پانی میں بھیگ کر خوش ہوتے ہیں لیکن آج وہ کاغذ کی کشتیاں نہیں رہیں حالانکہ آج بھی کاغذ کی کوئی کمی نہیں ہے!لیکن جب بھی برسات ہوتی ہے ہم اس برسات میں بچپن کی یادوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں،اس پس منظر میں کسی شاعرنے کیا خوب کہا ہے :
یہ دولت بھی لے لو، یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
لگے ہاتھوں بارش سے جڑا ایک لطیفہ ملاحظہ فرمائیں :
ایک شخص اپنی بیوی کی آخری رسومات ادا کرکے گھر لوٹ رہا تھا کہ اچانک بجلی چمکی ، بادل گرجے اور زور دار بارش شروع ہوگئی ۔شوہر آسمان کی طرف دیکھ کر بولا ’’ لگتا ہے اوپر پہنچ گئی ہے !‘‘
پیار کرنے والے موسم برسات کو بے انتہا پسند کرتے ہیں اور پیار کرنے والوں سے زیادہ موسم برسات کو بالی ووڈ کے فلم ساز پسند کرتے ہیں ۔ وہ ہر فلم میں محترمہ ہیروئن صاحبہ کو کم از کم ایک بار جب تک بھیگا نہ لیں، انہیں چین ہی نہیں پڑتا۔پیار کرنے والوں کا ذکر چھڑ گیا ہے تو ہمیں کسی عاشق کابے بحر شعریاد آرہا ہے :
تیری گلیوں میں نہ رکھیں گے قدم آج کے بعد
کیونکہ کیچڑ بہت ہوتاہے بارش کے بعد
ایک شخص کی کار کے پیچھے لکھا تھا ’’ ساون کو آنے دو‘‘ اچانک ایک ٹرک نے اس کار کو ٹکر مار دی۔ ٹرک کے پیچھے لکھا تھا ’’آیا ساون جھوم کے!‘‘
سنا ہے کہ محکمہ ٔ موسمیات سے وابستہ ایک عاشق نے اپنی معشوقہ سے اپنے پیار کا کچھ اس طرح اظہار کیا:
’’تم میری زندگی میں سرما کی دھوپ ہو ، تمہارے بغیر زندگی کا مطلع ابر آلود ہے ، تم ہر دم میرے دل میں خوشیوں کی بارش کرتی ہو ۔ ‘‘
معشوقہ نے منہ بسور کر جواب دیا :یہ پیشکش ہے یا موسم کا حال؟
موسم برسات اور چھتری کا سر اور ٹوپی کا ساتھ ہوتا ہے ۔اچانک برسات شروع ہوجاتی ہے تو پھر گھر آیا مہمان اپنے ساتھ میزبان کی چھتری بھی لے جاتا ہے اوراسے لوٹانا بھول جاتا ہے ۔اس پس منظر میں میزبان کی فریاد ملاحظہ فرمائیں:
جب بارش ہوتی ہے تم یاد آتے ہو
جب کالی گھٹا چھائے تم یاد آتے ہو
جب بھیگتے ہیں تم یاد آتے ہو
بتاو میری Umbrellaکب واپس کروگے؟
موسم برسات میں چھتری کے علاوہ مینڈک بھی خوب دکھائی دیتے ہیں ۔ایک دوست، دوسرے دوست کو مفت کے مشورے سے کچھ اس طرح نواز رہا ہے:
کیا موسم آیا ہے
ہر طرف پانی ہی پانی لایاہے
ایک جادو سا چھایا ہے
آپ گھر سے باہر مت نکلنا
ورنہ لوگ کہیں گے
برسات ہوئی نہیں اور مینڈک نکل آیا ہے
مینڈک والی بات کو کوئی اور کچھ اس طرح پیش کررہا ہے :
آج تو بہت خوش ہوں گے آپ
کیونکہ بارش جو ہورہی ہے
اور بارش میں تو
سبھی مینڈک خوش ہوتے ہیں
کچھ لوگوں کے بارے میں سنا ہے کہ وہ صرف جمعہ کی نماز ادا کرتے ہیں ، جب کہ کچھ لوگوں کے بارے میں سنا ہے کہ وہ صرف عیدین کی نماز پڑھتے ہیں ۔ اسی طرح کچھ لوگوں کے تعلق سے ہم نے سنا ہے کہ وہ جمعہ یا پھرعیدین کے موقع پر ہی نہاتے ہیں ۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے مشورہ دیا جارہا ہے :
سنو
محسوس کرو
بادل کی گرج
بجلی کی چمک
بارش کی ایک ایک بوند
تم سے
چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے
نہالو
عید بہت دور ہے !
کہتے ہیں کہ عشق، ساون اور بادل کو بھی ہوتا ہے، اسی بات کو کسی نے شاعری میں کچھ اس طرح ڈھالا ہے:
ساون نے بھی کسی سے پیار کیا تھا
اس نے اسے بادل کا نام دیا تھا
روئے تھے دونوں ایک دوسرے کی جدائی میں
اور لوگوں نے اسے بارش کا نام دیا تھا
آخر میں ہم آپ سب کے لیے بس یہی دعا کرتے ہیں کہ بارش کے پانی کا ہر قطرہ آپ کی مسکراہٹ بنے اورایسی زور داربارش آپ کی زندگی میں بار بار آئے!
۰۰۰٭٭٭۰۰۰