باپ کے بجائے دوسرے کی طرف لڑکی کی نسبت
میری سالی صاحبہ کی لڑکی اپنے شوہر کے گاؤں سے ایک غریب لڑکی کو بالکل کم عمری میں حیدرآباد لے کر آئیں ، وہ لڑکی اب مستقل ان ہی کے زیر پرورش ہے ، اس لڑکی کا اپنے ماں باپ کے پاس آنا جانا بند ہے ،
سوال:- میری سالی صاحبہ کی لڑکی اپنے شوہر کے گاؤں سے ایک غریب لڑکی کو بالکل کم عمری میں حیدرآباد لے کر آئیں ، وہ لڑکی اب مستقل ان ہی کے زیر پرورش ہے ، اس لڑکی کا اپنے ماں باپ کے پاس آنا جانا بند ہے ،
وہ لوگ اس لڑکی کو اپنی اولاد کی طرح پالے ہیں ، ماشاء اللہ وہ بالغ ہوچکی ہے ، اس لڑکی کو میں اپنی بہو بنانا چاہتا ہوں ، بات بھی پکی ہوچکی ہے ؛
لیکن تھوڑے دن پہلے اس لڑکی کا آدھار کارڈ دیکھنے میں آیا ، جس پر اس کے والد کی جگہ میری سالی کے مرحوم شوہر کا نام لکھا ہے ، کیا دوسروں کی لڑکی کو اپنے شوہر کا نام دینا شریعت اس کی اجازت دیتی ہے ، صراحت فرمائیں ۔ (وجیہ الدین، پٹیل مارکیٹ)
جواب :- دوسرے کی لڑکی کے نام کے ساتھ ولدیت کے طور پر اپنے نام لکھادینا جائز نہیں ، اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے ،
اگر نام کی تبدیلی ممکن ہو اور قانونی طورپر اس میں رکاوٹ نہ ہو تو والد کا نام تبدیل کرادینا چاہئے ،
اگر قانونی طورپر یہ ممکن نہ ہوتو کم سے کم گھر میں اس کی نسبت اس دوسرے شخص کی طرف نہیں کرنی چاہئے ،
اسی طرح نکاح کے وقت زبانی ایجاب و قبول میں اصل والد کا نام لینا چاہئے ، تاہم اس غلط انتساب کی وجہ سے اس سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ، آپ اس لڑکی کو اپنی بہو بناسکتے ہیں ۔