مذہب

ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ

ماہِ رمضان المبارک مومن عبادت گزار بندوں کو تقویٰ کی راہ چلاتا رہا، اس ماہ کی وجہ سے اکثر مسلمان عبادت وریاضت کے عادی ہوگئے تھے، ہماری تمام مساجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھیں، گناہوں کے عادی بھی عظمتِ رمضان کے پیش نظر پابندِ شریعت تھے۔

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ

متعلقہ خبریں
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات
مستقبل کی مائیں:اپنی صحت کا خیال رکھیں

ماہِ رمضان المبارک مومن عبادت گزار بندوں کو تقویٰ کی راہ چلاتا رہا، اس ماہ کی وجہ سے اکثر مسلمان عبادت وریاضت کے عادی ہوگئے تھے، ہماری تمام مساجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھیں، گناہوں کے عادی بھی عظمتِ رمضان کے پیش نظر پابندِ شریعت تھے۔ روزہ، نماز ِ تراویح اور دیگر عبادات نے مسلمانوں کو متقی بنا دیا تھا، یقینا تقویٰ ہی مومن کو بارگاہِ خداوندی میںمکرم ومحترم بنا تا ہے جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:

ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم (سورہ حجرات) جس نے ہمیشہ اس حالت کو برقرار رکھتے ہوئے تقویٰ کا راستہ چلتا رہا وہی دنیا و آخرت میں کامیاب وکامران ہوگا ورنہ وہ بہت بڑی نعمت سے محروم ہوجا ئے گا۔ مسلمانوں کا مال ودولت لٹ جانا اتنا بڑا خسارہ نہیں جتنا کہ تقویٰ کی راہ سے نکل جا نا خسارہ ہے۔ رمضان کے مہینہ میں روزہ کے ذریعہ مسلمانوں کے اندر تقویٰ کی صفت پیدا ہوئی تھی اور یہی مقصدِ روزہ ہے ، اس کی حفاظت میں ہی اللہ ورسول کی خوشنودی ہے، یہ یہی صفت ہر حال میں ایمانی قوت میںاضافہ کا باعث بنتی ہے۔

متقی ہر پریشانی اور مصیبت کا سامنا کرنے تیار رہتاہے، دشمنانِ اسلام کی سازشوں ودھمکیوں سے گھبراتا نہیں بلکہ اس کی ایمانی قوت میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے، صحابہ کرام ؓ جو تقوی وپرہیزگاری کے پیکر تھے انکی حیات طیبہ پرنظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ جنگِ خندق کے موقعہ پرمشرکین مکہ نے دنیا کے تمام ہم خیال لوگوں کو اسلام ومسلمانوں کے خلاف جمع کیا۔

بانیِٔ اسلام رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم وصحابہ عظام کو شہید کرنے کی غرض سے پوری طاقت وقوت سے حملہ کا ارادہ کیا، ایک بہت بڑے لشکر جرار کے ساتھ مدینہ منورہ پر چڑھائی کی، جنگی ہتھیاروں اور تلواروں سے لیس کفارِ مکہ اپنی ظاہری طاقت وقوت پر ناز کرتے ہوئے یہ کہہ رہے تھے آج کے بعد اسلام کا نام ونشان روئے زمین پر باقی نہیں رہیگا کیونکہ انہیں ظاہری طاقت‘ عددی قوت ‘ جنگی اسلحہ پر گھمنڈ تھا، مسلمانوں میں خوف وڈر کا ماحول پیدا کرنے کی غرض سے الگ الگ تدبیریں کیں لیکن صحابہ کی عظمت پر قربان جائیے ڈر وخوف کے بجائے ان کی ایمانی قو ت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ جیسا کہ قرآن کریم بیان کررہا ہے:

الذین قال لھم الناس ان الناس قد جمعو الکم فاخشو ھم فزادھم ایمانا (سورہ اٰل عمران)صحابہ کرام ؓ انکی ظاہری قوت وطاقت کو دیکھ کر گھبرائے نہیں بلکہ خدائے وحدہ لا شریک کی خوشنودی کی خاطر اپنی جانیں قربان کرنے کیلئے تیار ہو گئے اور ایسی تدبیر اختیار کی کہ اہل کفر کو بہت بڑی ناکامی ہوئی جو بڑے ناز سے فتح کی غرض سے آئے تھے وہ شکست کھا کر لوٹ گئے، صحابہ نے اپنی حفاظت کی خاطر ایک گہری وطویل خندق کھودی جس کی وجہ سے کفار مسلمانوں پر حملہ نہیں کرسکے، کئی دنوں تک انتظار کرتے رہے، مشرکین میں انتشارکی کیفیت پیدا ہوگئی اور وہ ناکامی کے ساتھ لوٹنے پر مجبور ہوگئے۔

اسی طرح آج ہندوستان میں اسلامی دشمن مسلمانوں میں خوف کا ماحول پیدا کرنے کی غرض سے ہر ممکن کوشش کررہے ہیں، کبھی کسی مسلمان کا کھلے عام انکاونٹر کر دیا جاتا ہے تو کبھی پولیس کی موجود گی میں سرِ راہ شوٹ کردیا جاتا ہے، پہلے انہیں غلط الزامات کے ذریعہ بدنام کیا جاتا ہے پھر انہیں قتل کیا جاتاہے۔ کبھی کسی تنہا نہتہ مسلمان کو مارا جاتاہے، اس طرح کے حربوں سے مسلمانوں میں خوف ودہشت پیدا کرنے کی ناپاک کوشش کی جاتی ہے۔ ہند کے مسلمانوں کو اپنی حفاظت کیلئے جنگِ خندق کی طرح تدبیر کرنی چاہئے، سب سے پہلے آپس میں اتحاد کی رسی کو مضبوط کرلیں، اپنی مساجد کو آباد رکھیں، ہر مقام کے مسلمان اپنے مظلوم بھائیوں کی ہر اعتبار سے مدد کیلئے آگے آئیں۔

ایمانی پاور وقوت میں کمی آنے نہ دیں، کسی سے ڈرنا گھبرانا مسلمانوں کا شیوا نہیں ہے، قرآن کریم کہتا ہے : ولا تہنوا ولا تحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم مومنین اے مسلمانو! تم کو کچھ بزدل ہونیکی اور گھبرانے کی ضرورت نہیں اگر تم (سچے) مومن ہو، تم ہی غالب آئوگے۔

ایمان صرف کلمہ پڑھنے کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ ورسول نے جن باتوں کا حکم دیا ہے ان پر عمل کرنے کا نام ایمان ہے۔ اگر اس میں کمی آجائے تو فتح و کامیابی حاصل کرنا دشوار ہوگا، کامیابی چاہتے ہیں تو ہر وہ عمل جو ایمان کے خلاف ہے ا س کو چھوڑنا ہوگا، ہم ایمان کے خلاف عمل کرتے ہوئے اپنے آپ کو کامل مسلمان سمجھتے ہیںحالانکہ ایسا نہیںہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جن میں چار خصلتیں ہوں وہ منافق ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:

قال النبي ﷺ: اربع من کن فیہ کان منافقا، اِذا اَؤتمن خان، واِذا حدث کذب، واِذا عاھدغدر، واِذا خاصم فجر (بخاری ومسلم ) جن میں چار خصلتیں پائی جائے وہ منافق ہے ۱) جب کسی کے پاس امانت رکھی جائے تو وہ خیانت کرے ۲)اور جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولے ۳) اور جب کسی سے وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے ۴ ) اور جب کسی سے لڑے تو گالی گلوج کرے۔ ایسی خطرناک وبری خصلتوں کو چھوڑنا ہوگا، ان میں سے کوئی بھی خصلت کسی مسلمان میں ہو تو وہ کامل مومن نہیں ہوسکتا، اسی طرح جو لوگ اپنی نمازوں سے مساجد کو آباد نہیں کرتے‘ نمازیں چھوڑتے ہیں وہ کامل مومن نہیں ہوسکتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قال النبي ﷺ :

لا ایمان لمن لا صلوۃ لہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اسکے لئے (کامل ) ایمان ہی نہیں جس کے لئے نماز نہیں۔ جہاں نمازیوںسے ہماری مساجد کا بھرنا عبادت ہے وہیں اہل باطل پراسکا ظاہری وباطنی بہت بڑا اثر پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پانچ وقت مؤذنین سے مساجد سے کہلوانے لگاتا ہے’’ حی علی الصلاۃ ‘‘ لیکن مسلمان اس سے غافل ہیں۔ اہل ِ ایمان کی شان تو یہ ہے کہ ٓاپس میں اتحاد واتفاق سے رہیں، قرآن کریم میں اتحاد واتفاق کی تاکید کی گئی ۔ چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے :

(اے مسلمانو) تم تمام کے تمام اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو (آپسی اختلاف کی وجہ سے ) تفرقہ میں نہ پڑو۔ آپسی اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ تقوی کے لغوی معنی ہے بچنا، متقی منہیات وگناہوں سے بچتے ہوئے احکامِ الٰہی پر عمل کرتا ہے، نماز‘روزہ ‘ حج‘ زکوۃ ‘ عبادت یہ سب تقوی کے اعمال ہیں، اسی طرح ہر برائی وگناہ سے بچنا تقوی ہے۔ تقویٰ کا اصل مادّہ واصلی حروف وقی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے وَقنا عذابَ النار :اے اللہ ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا۔

جہاں اپنے آپ کو گناہوں سے بچانا تقویٰ ہے وہیں پر اپنے ماتحتین کی عصمت وعزت کی حفاظت کرنا اور انہیں گناہوں سے بچانا بھی تقوی ہے۔ ہند کی سرزمین پر اپنی نوجوان نسل (بچے اور بچیوں) کو ارتداد سے بچانا اہم مسئلہ ہے۔ صرف نماز پڑھنا ہی مسلمانی نہیں ہے بلکہ اپنی بچیوں کی عصمت وایمان کی حفاظت ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔

۱)جن کالجس میں مخلوط تعلیمی نظام ہو ان میں اپنی بچیوں کو شریک نہ کروائیں ، بچیوں کی دنیاوی تعلیم سے زیادہ اہم ان کے ایمان وعصمت کی حفاظت ہے

۲) بلوغیت کے ساتھ ہی لڑکیوں کے نکاح میں جلدی کریں

۳) اعلیٰ تعلیم سے اگر آراستہ کرنا ہو تو انہیں صرف لڑکیوں کے کالجس میں ہی داخلہ دلوائیں

۴) لڑکیاں اسی جگہ ملازمت کریں جہاں مرد وزن کا اختلاط نہیں ہوتا۔

آج آزادی نسواں کے نام پر ہمارے معاشرے میں بہت خرابیاں جنم لے رہی ہیں ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ اولیٰ یا اوبر (ola uber) بائک بُک کرکے غیر محرم کے ساتھ ہماری مسلمان لڑکیاں ان کے پیچھے بیٹھ کر جا رہی ہے۔ کیا ایسی لڑکیاں غلط کام سے محفوظ رہیںگی؟؟ اس کے ذمہ دار صرف وہ لڑکیاں نہیں ہیںبلکہ انکے ماںباپ اور سرپرست ہیں۔ جبکہ شریعت مطھرہ میں آنکھوں کا زنا‘ کان کازنا‘ زبان کا زنا‘ ہاتھ کا زنا‘ پیر کا زنا یہ سب گناہ ہیں۔

اگرکوئی لڑکی کسی غیر مسلم لڑکے سے تعلقات قائم کرکے مرتد ہوجائے (نعوذ باللہ من ذلک) تو صرف وہ ایک لڑکی مرتد نہیں ہورہی ہے بلکہ ایک خاندان وقبیلہ کو ارتداد کی طرف لے جارہی ہے۔ غیر مسلم مسلم لڑکیوں کی غربت کا فائدہ اٹھا تے ہوئے انہیں اپنے مذہب میںداخل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ آج ہر فرد کوعظمتِ اسلام کی خاطر بیدار ہونے اور ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ علماء وائمہ کرام کو جمعہ سے قبل اس میسیج (message)کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح محلہ کے قائد ‘ رہبروامیر ارتداد کے سدِ باب کیلئے ہر ممکنہ کوشش کریں۔

ماہِ رمضان میں ہمارے قلوب ایمانی حرارت سے روشن تھے، دل تقوی کی صفت سے منور تھے ، اور روزہ و دیگر عبادات کی وجہ سے ایمان میں تازگی اور روح میں بالیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ تقوی کی اصل وبنیاد اللہ کے رسول واحکامِ الٰہی کی تصدیق کرنا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: والذي جاء بالصدق وصدق بہ اولئک ھم المتقون (سورہ زمر) اور وہ ذات گرامی(رسول کریم) جو کچھ سچائی کو لیکر آئی جس نے ان کی تصدیق کی وہی متقی ہیں۔ اس آیت کریمہ میںصرف رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے جس نے ان کی دل وجان سے تصدیق فرمائی وہی متقی وپرہیز گار ہیں۔ اسی آیت شریفہ میں نماز‘ روزہ‘ زکوۃ‘ حج کسی اور چیز کا ذکر نہیں ہے اس سے معلوم ہوا کہ اصل تقویٰ رسول ِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنا ہے۔ اس میں اگر تھوڑی سی بھی کمی آجائے توساری عبادتیںرائیگاں جاتی ہیں۔

چنانچہ بخاری شریف میںہے : ایک مرتبہ رسولِ رحمت ؐ اپنے دست مبارک سے صحابہ کے درمیان مال تقسیم کررہے تھے ، آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ کس صحابی کو کتنی ضرورت ہے، انکی حاجت کے مطابق آپ نے مال تقسیم کیا، کوئی زیادہ محتاج ہے تو اس کو تھوڑا سا زیادہ دیا کوئی کم محتاج ہے تو اسکو کم عطا کیا، ایک شخص آپ کے اس عمل کو دیکھ رہا تھا ، اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ میںگستاخی کر بیٹھا کہنے لگا یا محمدؐ اعدل اتق اللہ اے محمد ؐ انصاف کیجئے اور تقویٰ اختیار کیجئے ۔ آقا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر میں انصاف نہ کروںتو پھر کون انصاف کریگا۔ یہ تقویٰ تو رسولِ کریم ؐ کے درسے بٹتا ہے اور کائنات میں آپ سے بڑھ کر کوئی متقی نہیں۔

جیسا کہ آپ ؐنے فرمایا: میں تم میں اللہ کو سب سے زیادہ جانتا ہوں اور تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں، اس بدبخت نے تصدیق ِ رسول میںکمی کی تو اس کے سارے اعمال رائیگاہ چلے گئے، اسی لئے حضرت عمر ؓ نے حضور ؐ کی بارگاہ میں عرض گذار ہوئے یا رسول اللہ ؐ !مجھے اس گستاخ کا سر قلم کرنے کی اجازت دیجئے؟ آقا نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا اے عمرؓ اسے جانے دو اس کی صلب سے ایک ایسی جماعت پیدا ہوگی جو کثرت سے عبادتیں کرے گی لوگ ان کی عبادتوں کو دیکھ کر رشک کریں گے ،ان کے ذوقِ عبادت کو دیکھ کر کہیں گے: کیا عبادت گذار ہیں لیکن ان کے دلوں میں ایمان بالکل نہیں ہوگا، ان کے دلوں سے ایمان اس طرح نکل جائیگا جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ اس حدیث شریف سے واضح ہے کہ تقوی کی اصل اللہ ورسول کی کامل تصدیق کرنا ہے اگر اس میں کمی آجائے تو ساری زندگی کی عبادتیں بیکار ہوجائیں گی۔

بارگاہِ ایزدی میں دعاء ہے کہ وہ تمام اہل اسلام کو تقوی کی راہ پر چلائے اور ان کے ایمان وعقیدے کی حفاظت فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلینؐ۔
٭٭٭