مضامین

برطانیہ: آئیڈیل جمہوریت، آئیڈیل بادشاہت

منور مرزا

گزشتہ دنوں ملکہ برطانیہ، الزبتھ دوم 96 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں۔انہوں نے برطانیہ پر 70 برس تک حکم رانی کی، اس طرح وہ طویل ترین عرصے تک تاج برطانیہ اپنے پاس رکھنے کے اعزاز کی بھی حامل رہیں۔ ملکہ الزبتھ ثانی کے انتقال کے بعد تاج برطانیہ ان کے ولی عہد، بڑے بیٹے، پرنس آف ویلز، چارلس کو منتقل ہوگیا اور وہ برطانیہ کے بادشاہ اور دولت مشترکہ میں شامل 14 ممالک کے سربراہ بن گئے ہیں۔ اس موقعے پر برطانیہ کی وزیرِ اعظم، لز ٹرس نے اعلان کیا ہے کہ وہ ”شاہ چارلس سوم“ کے نام سے جانے جائیں گے۔ برطانوی جمہوریت کی ایک طویل ترین تاریخ ہے، کئی تجربات کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ ملک کی اصل طاقت عوام ہیں،اسی لیے ملک کا اصل حکمران، یعنی وزیر اعظم، عوام کا منتخب کردہ نمایندہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں طاقت کا اصل منبع عوامی نمائندوں کے ایوان، ”پارلیمنٹ“ ہی کو سمجھا جاتا ہے۔ بہت کم لوگوں کو پتا ہوگا کہ برطانیہ کا کوئی تحریری آئین نہیں ہے کہ وہ روایات، قوانین اور تجربات کی بنیاد پر ملک چلاتے ہیں، مگر مجال ہے کہ کوئی ان سے انحراف کرسکے، عوام الناس سے لے کرسیاسی رہنماﺅں تک ہر ایک قانون کی پاس داری کرتا ہے۔ سر ونسٹن چرچل کی مثال سامنے ہے، چرچل دوسری عالمی جنگ میں برطانیہ کے وزیر اعظم تھے۔درحقیقت ،یہ انہی کا عزم،فراست اور سفارتی تدبر تھا، جس نے ہٹلر کے خلاف یوروپ اور مغربی ممالک کو یک جا کرکے بالآخر جرمنی کو شکست دی، لیکن، دوسری جنگ ِ عظیم کے خاتمے کے بعد جب برطانیہ میں1947 ئ میں انتخابات ہوئے، تو چرچل وہ انتخابات ہار گئے اور کلیمینٹ ایٹلی وزیرِاعظم بنے۔ واضح رہے، یہی وہ زمانہ تھا، جب تقسیم ہند ہو رہی تھی، تو کیا اس وجہ سے چرچل انتخابات ہارے، برطانوی عوام میں غیر مقبول ہوئے، ان پر الزامات لگائے گئے، ان کے خلاف تحریک چلائی گئی، سازش کی گئی؟ تو ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ درحقیقت برطانیہ کے عوام کا خیال تھا کہ جنگ کے لیے تو چرچل ایک بہترین لیڈر ہوسکتے ہیں، لیکن اب وقت معاشی اور معاشرتی بحالی کا ہے، اس لیے انہیں ایک ایسے لیڈر کی ضرورت تھی، جو ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرسکے۔ چرچل الیکشن ہار گئے اور خاموشی سے اپوزیشن کی بینچز پر جابیٹھے۔ ذرا سوچیں کہ نہ صرف برطانیہ، بلکہ پورے مغرب کو دوسری عالم گیر جنگ میں فتح یاب کروانے والے لیڈر کے پاس کیا یہ آپشن نہیں ہوگا کہ وہ اپنی کام یابی کے بل پر لوگوں کو جذباتی کرتا، ہزاروں افراد کے ساتھ سڑکوں پر نکل آتا اور ہر طرح سے اقتدار میں آنے کی کوشش کرتا، لیکن چرچل نے ان میں سے کوئی بھی طریقہ اختیار نہیں کیا۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ اگلے انتخابات میں وہ کام یاب بھی ہوئے، برطانیہ کے وزیر اعظم بھی بنے اور ”سر“ کا خطاب بھی پایا۔آج تک چرچل کو نہ صرف برطانیہ، بلکہ پوری مغربی دنیا میں ایک عظیم لیڈر اور فاتح کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ برطانیہ میں بادشاہت کے باوجود ان کا جمہوری نظام اس قدر مضبوط اس لیے ہے کہ وہاں کا بچہ بچہ قانون اور آئین پر عمل کرتا ہے۔ برطانیہ کی حکمرانی کے تین بنیادی عنصر ہیں۔ جمہوریت، جس میں پارلیمان شامل ہے اور وہی حکم رانی کی اصل مالک ہے، بادشاہت، جو قومی روایات اوریک جہتی کا تسلسل ہے اور چرچ، جو مذہبی معاملات کی نگہبانی کرتا ہے۔ آرچ بشپ آف کنٹربری اس کے پوپ ہیں۔برطانیہ کی کام یابی کا راز ہی یہ ہے کہ تینوں ادارے اپنے اپنے دائرہ کار سے بخوبی واقف ہیں اور کسی بھی صورت اس سے تجاوز نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تو کوئی مذہب کارڈ کھیلتا ہے، نہ بادشاہت کے باوجود عوام کو غلام سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی پارلیمان کاتقدّس پامال کرتا ہے۔ ذرا سوچیں کہ کیا ملکہ برطانیہ کے بعد برطانیہ کے حالات یا عوام پر کوئی فرق پڑے گا؟ ہر گز نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کی جمہوریت مضبوط ہے، چند ہفتے قبل ہی ایک وزیراعظم اپنے پارٹی ارکان کے ”ووٹ آف نو کانفیڈینس“ سے رخصت ہوا اور دوسری وزیراعظم نے قلم دان سنبھال لیا۔یاد رہے، سابق برطانوی وزیر اعظم، بورس جانسن کو ایک معمولی اخلاقی اصول توڑنے پر اپنے ہی پارٹی ارکان کی بغاوت کی وجہ سے مستعفی ہونا پڑا تھا،حالاں کہ عدم اعتماد کی تحریک میں وہ بھاری اکثریت سے کام یاب ہوئے تھے اور ان کے خلاف ایک سال تک ایسی کسی تحریک کا کوئی خطرہ بھی نہیں تھا، لیکن مہذب ممالک میں اصولوں کو ”یوٹرن“ کے نام پر روندا نہیں جاتا۔لزٹرس بھی ایک منجھی ہوئی سیاست دان ہیں، جو اس عہدہ سے قبل وزیر خارجہ تھیں۔برطانیہ کو اس وقت جن دو بڑے مسائل کا سامنا ہے، وہ مہنگائی اور بعد از بریگزٹ اثرات ہیں۔ مہنگائی کا معاملہ عالمی گرانی سے جڑا ہواہے، جس میں روس،یوکرین جنگ کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ تیل اور اجناس کی قیمتوں نے برطانوی عوام کے اوسان خطا کر رکھے ہیں۔ دوسری طرف بریگزٹ کا عمل بھی ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا۔ یوروپ سے آنے والے تیس لا کھ تارکین ایک دن میں تو واپس نہیں جاسکتے اور نہ ہی ان کے جانے کے بعد فوری طور پر ان کا خلا پُر کیا جاسکے گا۔ شاید عوام سابق وزیراعظم، بورس جانسن کے ان اقدامات سے مطمئن نہیں تھے،اسی لیے وہ عوام میں روز بہ روز غیرمقبول ہوتے گئے۔