سیاستمضامین

حماس۔ اسرائیل جنگ میں اسٹالن گراڈ کی جنگ کی جھلکیاں دکھائی دے رہی ہیں

l ایسی جنگوں میں دفاعی افواج کی فتح ہوتی ہے۔ l شہری جنگوں میں دفاعی افواج فتح مند ہوتی ہیں۔
l روس کی چیچنیا جنگ میں شکست ہوئی تھی۔

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد

٭ شہری آبادی پر بمباری ایک بزدلانہ عمل ہے۔
٭ دوسری عالمی جنگ میں لندن پر بھی ایسی بھیانک بمباری ہو ئی تھی جس میں50ہزار افراد مارے گئے تھے۔
٭ بیس دن بعد بھی غزہ پر زمینی حملہ نہ کرنا اسرائیل کا ا عترافِ شکست ہے۔
٭ اس وحشتناک انسانی المیہ پر اقوامِ عالم کی خاموشی کیا معنی رکھتی ہے؟
مشرق وسطیٰ میں یہ جنگ اپنی نوعیت کی پہلی جنگ ہوگی جو ایک شہر کے لئے لڑی جائے گی۔ اس سے قبل دوسری عالمی جنگ میں بھی ایسی ہی ایک جنگ حملہ آور جرمن افواج اور روسی دفاعی افواج کے دوران 200 دن تک لڑی گئی تھی جو صرف ایک شہر اسٹالن گراڈ پر قبضہ کیلئے لڑی گئی تھی ۔ جس میں لاکھوں جرمن اور روسی افواج ماری گئی تھیں اور آخرِ کار روس کی فتح پر اس جنگ کا خاتمہ ہوا تھا۔ یہ ایک جنگی اصول ہے کہ جب دفاعی افواج پوری طرح سے مورچہ بند ہوں تو حملہ آور افواج کو ایک کے مقابلہ میں چار کا نقصان ہوتا ہے اور اتنا بڑا نقصان اسرائیل کے لئے ناقابل برداشت ہوگا اور شائد اسرائیل کو اپنے غزہ پر حملہ کرنے سے قبل دوبار سوچنا ہوگا اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ اسرائیل اس ارادے سے باز آجائے۔
7؍اکتوبر کے حملے سے پہلے حماس نے مکمل دفاعی اقدامات کرلئے تھے۔ برسوں سے غزہ میں زیرِ زمین سرنگیں بنالی گئی تھیں جو چھ سو کلو میٹر طویل تھیں جن میں بے پناہ اسلحہ ‘ گولہ بارود اور راکٹس کی ذخیرہ اندوزی کرلی گئی تھی۔ علاوہ ازیں لاکھوں لیٹر پٹرول بھی اسٹور کرلیا گیا تھا تاکہ ان کا استعمال Flame Throwers کے ذریعہ اسرائیل افواج پر آگ برسانے کیلئے کیا جاسکے۔ اسرائیلی ٹینکس کے لئے غزہ کی تنگ و تاریک گلیوں میں جانا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہوگا۔ اگر بفرض محال اسرائیلی ہائی کمانڈ نے ایسی حماقت کرلی تو سینکڑوں ٹیکنس ‘ بکتر بند گاڑیوں اور ہزاروں اسرائیلی افواج کی تباہی لازمی ہوگی۔
1948ء ‘ 1956ء ‘ 1967ء اور 1973ء میں اسرائیل کا مقابلہ کھلے میدان میں عرب ممالک کی افواج سے ہوا تھا جن میں اسرائیل نے عرب افواج کو شکست دی تھی۔ لیکن2006ء میں اسرائیل ۔ حزب اللہ جنگ میں اسرائیل کی شکست نے مشرقِ وسطیٰ میں ایک عسکری تبدیلی لائی اور جنگ کانظریہ ہی بدل گیا۔ اسرائیل کو شمال سے حزب اللہ کے حملے کا خطرہ ہے اور یہ جنگجو گروپ گوریلا جنگ کی ایک نئی تاریخ رقم کررہا ہے۔ 1994ء میں روس اور چیچنیا میں اختلافات شروع ہوئے اور چیچنیا کے جنگجو گروپ اور روس کی ا فواج کے درمیان کچھ جھڑپیں ہوئیں جن میں کچھ روسی سپاہی مارے گئے۔ روس اس شکست کو برداشت نہ کرسکا اور نقصان کا بدلہ لینے کیلئے دو سو ٹینکس اور 5 سو بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ شہر گروزنی پر حملہ ا ٓور ہوا۔ گروزنی شہر میں چیچنیا کے جنگجو پہلے ہی سے تیار تھے اور ان کی کمان مشہورِ زمانہ جنرل ڈیویڈوف کررہے تھے جو سابق میں سوویت روس کے ایک جنرل تھے۔ اس شہری جنگ میں روس کو شکست فاش ہوئی اور سینکڑوں ٹیکنس برباد ہوئے اور ہزاروں روسی مارے گئے۔ یہ دوسری بات ہے کہ بعد میں روس اور چیچنیا میں دوستی ہوئی اور آج چیچنیا روس کا سب سے زیادہ وفادار ساتھی ہے۔ مطلب یہ کہ شہری جنگ یعنی Urban War میں ہمیشہ دفاعی افواج ہی فتح یاب ہوتی ہیں۔
موجودہ حالات میں اسرائیل ایک الجھن اور تذبذب کا شکار نظر آتا ہے۔ اگر غازہ پر حملہ کیا جاتا ہے تو اسرائیلی افواج کی تباہی اور شکست لازمی ہے لہٰذا اس خفت و نامرادی پر پردہ ڈالنے کے لئے معصوم شہریوں ‘ عورتوں اور بچوں کو اپنی بربریت کا شکار بنارہا ہے۔ یہ بمباری ایک وحشیانہ اور سفاکانہ عمل ہے جس کی سارے عالم میں مذمت ہورہی ہے اور خود اسرائیل کے اندر بھی سخت احتجاج کیا جارہا ہے کہ فوری جنگ بندی کی جائے۔ اب اسرائیل کو دوطرفہ شکست کا سامنا ہے اگر جنگ بندی کی جاتی ہے تو بھی اسے شکست مانا جائے گا اور اگر جنگ ہوتی ہے تو بھاری اور ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔
عرب ممالک نے اس جنگ سے دور رہ کر بہت ہی فراست اور حکمتِ عملی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ وہ کام جو صرف دو جنگجو گروپس کررہے ہیں اس میں کسی ملک کی فوج کا کیا کام؟ یہ جنگ صرف اسرائیل ۔ حزب اللہ اور حماس تک محدود رہے تو بہتر ہوگا۔ کسی بھی اسلامی ملک بشمول ایران اس جنگ سے دوری بنائے رکھنا چاہیے ورنہ یہ جنگ دور دور تک پھیل جائے گی اور شائد عالمی طاقتوں کی بھی ٹکر ہوگی۔
تادمِ تحریر تقریباً7000 فلسطینی جن میں عورتیں اور بچے ہیں جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ آزادی کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
آج امریکہ۔ انگلینڈ اور اسرائیل کے اخبارات امریکہ کی اسرائیلی پشت پناہی اور جنگ بندی پر خاموشی اختیار کرنے پر مذمت کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ خود اسرائیل کے اخبار HAARETZ نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی ہے۔ امریکہ۔ برطانیہ اور سارے عالم میں جنگ کے خلاف جلوس نکل رہے ہیں اور تمام جلوسی فلسطین کی حمایت کررہے ہیں۔ ہر طرف اسرائیل کو نشانِ ملامت بنایاجارہا ہے۔
اسرائیل کو آج تک اتنی شدید چوٹ نہیں پہنچائی گئی ۔ اسرائیلی ٹکنالوجی کا جنازہ نکل گیا۔ آئرن ڈوم سسٹم ناکارہ ثابت ہوا۔ اسرائیل میں وسیع پیمانے پر شہروں کو خالی کروایا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق راکٹ حملے میں زائد از دیڑھ ہزار افراد مارے گئے اور ہزاروں مکانات تباہ ہوگئے۔ سچ ہے جو تلواروں کے سہارے زندہ رہتے ہیں ان کا خاتمہ بھی تلواروں ہی سے ہوتا ہے۔
ایسے حادثات ۔ حوادث ‘ مصیبتیں آفات مسلمانوں پر آج ہی نہیں آئیں۔ تاتاریوں نے لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ اسپین میں لاکھوں مسلمان یا تو مارڈالے گئے یا جلا وطن کردیئے گئے۔ خودسابق ریاست حیدرآباد کے مرہٹواڑہ اور کرناٹک کے اضلاع میں1948ء میں دو لاکھ مسلمانوں کو قتل کردیا گیا ۔ لیکن کیا مسلمان ختم ہوگئے؟
وہ آج بھی ہیں اور ان شاء اللہ ہمیشہ رہیں گے۔
دنیا نے اسرائیل کو اس قدر روتا ہوا کبھی نہیں دیکھا۔
تین عرب ممالک کی افواج کو چھ روزہ جنگ میں شکست دینے والا اسرائیل آج دو عسکری گروپس کے آگے بے بس نظر آتا ہے؟ یہ کیا بات ہے۔ کیوں غزہ پر حملہ نہیں ہورہا ہے۔ آپ اس سے بے عملی کو اسرائیل کی شکست سے تعبیر کرسکتے ہیں۔
ورثہ میں تقسیمِ جائیداد سے متعلق سوال
سوال:- میں ایک موظف گزیٹیڈ ملازمِ سرکار ہوں۔ میری آبائی زرعی اراضیات موازی35ایکر ہیں۔ علاوہ ازیں تین مکان اور چار دوکانیں ہیں جن کا کرایہ آرہا ہے۔ میں نے دورانِ ملازمت اپنے بچوں کے نام پر بھی کچھ جائیدادیں خریدیں۔ بیوی کا انتقال ہوچکا ہے۔ عمر اس قابل نہیں کہ شادی کروں۔ میرے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں ۔ سب کی شادیاں ہوچکی ہیں۔ عمر کا تقاضا ہے کہ میں اپنی ساری آبائی اور خود کی بنائی ہوئی جائیدادوں کو بذریعہ ہبہ اپنے بچوں میں حسبِ شریعت تقسیم کردوں ۔ اگر رجسٹری کے ذریعہ ان جائیدادوں کو بچوں میں تقسیم کروں تو لاکھوں روپیہ بطورِ اسٹامپ ڈیوٹی ادا کرنا پڑے گا جو فی الوقت ممکن نظر نہیں آتا۔
زرعی اراضی کا پٹہ میرے نام پر ہے اور جائیدادیں بھی میرے نام پر ہیں ۔ وہ اس طرح کہ والدین کے انتقال کے بعد جب آبائی تقسیم ہوئی تو زرعی اراضی میرے نام پر آئی اور پٹہ پاس بک بھی جاری ہوئی۔ حکومت کی جانب سے زرعی اراضی کی رقم ملتی ہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ میرے بعد تقسیمِ جائیداد کے لئے بچوں کو عدالت سے وراثتی سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ہوگا لہٰذا اب مصمم ارادہ کرلیا ہے کہ اپنی جائیداد کو ان کے حقداروں کے بذریعہ ہبہ دے دوں۔
اس ضمن میں جناب سے گزارش ہے کہ یہ جائیداد شرعی طور پر تین بیٹوں اور دو بیٹیوں میں تقسیم کروں؟ فقط
X-Y-Z حیدرآباد۔
جواب:- آپ کی تمام جائیدادیں بشمول زرعی اراضی 8 حصوں میں تقسیم طلب ہے۔ ہر بیٹے کو دو اور ہر بیٹی کو ایک حصہ ملے گا۔
سب سے آسان طریقہ یہ ہوگا کہ آپ تمام جائیدادوں کی موجودہ قیمت کا تعین کریں اور اس کے ہی حساب سے تمام جائیدادیں آٹھ حصوں میں تقسیم کردیں۔ آپ کو قیمتوں کا تعین کرنا ہوگا۔
جب آپ آٹھ حصوں کا تعین کرلیں تو جائیدادوں کی قیمت کے مطابق آٹھ حصے بنائیں اگر کچھ کم زیادہ ہو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
حصہ داروں کا حق اگر زندگی ہی میں دے دیا جائے تو ایک مستحسن اقدام ہوگا ورنہ بعد میں جھگڑے پیدا ہوں گے ۔ اگر کوئی بیٹا یا بیٹی راضی نہ ہو تو عدالت سے رجوع ہونے کی بات آئے گی اور کئی سال تک مقدمات چلتے رہیں گے۔ دوسری جانب اگر آپ بذریعہ ہبہ اپنی جائیداد کی تقسیم کردیں تو کسی کو اعتراض کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی۔
لہٰذا اس نیک کام کو اولین وقت میں کرلیں۔
سوال:- میرے بیٹے کی شادی ہوئے ایک سال ہوچکا ہے۔ کوئی جہیز نام کی چیز نہیں لی گئی او رایک لاکھ روپیہ مہر نقد ادا کیا گیا۔ میرا ایک ہی بیٹا ہے۔ اس کے پاس کوئی بڑی ڈگری نہیں صرف انٹر تک پڑھا ہوا ہے لیکن کمپیوٹر کے کئی باہر کے کورس کرچکا ہے اور بہت ماہر ہے ۔ اس میں ایک خرابی یہ ہے کہ وہ پولیو کی وجہ سے ایک پاؤں سے معذور ہے لیکن بیساکھی کے سہارے بہت اچھا چل سکتا ہے ۔ کسی کا محتاج نہیں ہے۔ بہت صحت مند ہے۔ میرے نام پر دو جائیدادیں ہیں ۔ ایک 300 گز پر مشتمل کامپلکس ہے جس میں چار منزلیں ہیں بہت اچھا کرایہ آرہا ہے ‘ ایک رہائشی مکان ہے جس میں میں رہتا ہوں۔
بہو کے والد صاحب نے ایک عجیب مطالبہ رکھا ہے کہ میں اپنی جائیداد میں سے نصف حصہ بیٹے کے نام اور نصف حصہ بہو کے نام پر کردوں کیوں کہ وہ طمانیت چاہتی ہے۔ مجھے یہ مطالبہ غیر واجبی نظر آتا ہے۔ بہو کا بھی برتاؤ مناسب نہیں ہے۔ وہ گھر چھوڑ کر جانے کو کہہ رہی ہے۔ میرا بیٹا بالکل بہو کے کنٹرول میں ہے۔ وہ آج کل حاملہ ہے۔ آپ سے اس مسئل کا حل دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ فقط۔
X-Y-Z حیدرآباد
جواب:- مطالبہ ناجائز ہے۔ جو کچھ بھی آپ کا ہے آپ کے بعد آپ کے بیٹے کا ہوگا ۔پھر لڑکی کیوں ایسا مطالبہ کررہی ہے۔ بیٹے کے رجحان کو دیکھتے ہوئے آپ اس مسئلہ پر خاموشی اختیار کیجئے۔ ورنہ نصف جائیداد ہاتھ سے نکل جائے گی۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w