سوشیل میڈیامذہب

مکھی سے متعلق حدیث کی تحقیق

کیا یہ بات صحیح حدیث میں آئی ہے کہ اگر مکھی کھانے میں گرجائے تو اسے ڈبوکر پھینک دے اور یہ کہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور ایک میں شفا

سوال:-کیا یہ بات صحیح حدیث میں آئی ہے کہ اگر مکھی کھانے میں گرجائے تو اسے ڈبوکر پھینک دے اور یہ کہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور ایک میں شفا، بظاہر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک ہی چیز مضرت رساں بھی ہو اور فائدہ مند بھی، اور یہ بات نفاست و تہذیب کے خلاف بھی معلوم ہوتی ہے؟(محمد سرور، راجندرنگر)

متعلقہ خبریں
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

جواب:- یہ مضمون صحیح اور معتبر حدیث میں آیا ہے، خود امام بخاریؒ نے ’’کتاب بدء الخلق، حدیث نمبر: ۳۱۴۲ ‘‘، اور’’ کتاب الطب، حدیث نمبر:۵۴۴۵ ‘‘ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے، جب کوئی بات صحیح حدیث سے ثابت ہو تو اسے بے چون و چرا تسلیم کرلینا چاہئے ؛ کیوںکہ دوسری صلاحیتوں کی طرح انسان کی عقل بھی محدود ہے ؛ اس لئے ہماری عقل دھوکہ کھاسکتی ہے،

اللہ اور اس کے رسول کی بات غلط نہیں ہوسکتی، رہ گیا ایک چیز میں دو متضاد صلاحیتوں کا جمع ہونا، تو یہ کوئی خلاف عقل بات نہیں، انڈے میں زردی بھی ہوتی ہے اورسفیدی بھی، دونوں کی خصوصیات الگ الگ ہیں، گیہوں کا چھلکا ہضم میں معاون ہوتا ہے اور چھلکے کے بغیر اس کا گودا، جس کا سفوف ’میدہ ‘کہلاتا ہے، ثقیل ہوتا ہے، دوسرے بعض اوقات ایک چیز کا مضر اثر خود اسی کے ذریعہ دور ہوتا ہے،

اگر سانپ کاٹ لے تو سانپ ہی کے زہر سے اس کا علاج کیا جاتا ہے ؛ اس لئے یہ باعث تعجب نہیں کہ مکھی کے ایک پر یا ایک حصہ میں جو جراثیم ہوتے ہیں، دوسرے پریا دوسرے حصہ سے ان کا تدارک ہوجائے، مجھے یقین ہے کہ سائنس داں جب تحقیق کے سفر میں اور آگے بڑھیں گے تو وہ اس حدیث کی تصدیق پر مجبور ہوںگے۔

جہاں تک بات نفاست و تہذیب کی ہے تو اس سلسلہ میں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مکھی نکال کر اس کو کھانے کی ترغیب نہیں دی ہے، یا اسے واجب نہیں قرار دیا ہے ؛ بلکہ فرمایا ہے کہ اگر اس کو ڈبوکر پھینک دیا جائے اور استعمال کرلیا جائے تو ایسا کرنا جائز ہے، اب اگر کسی کی طبیعت کو اس طرح کا کھانا مرغوب نہ ہو اور وہ اس سے بچنا چاہے تو کوئی حرج نہیں،

پھر یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ شریعت کا حکم چائے کی پیالی اور گلاس ہی کے لئے نہیں ہے ؛ بلکہ بڑے سے بڑے برتن کے لئے بھی ہے، مثال کے طور پر کسی کے یہاں دودھ کی بڑی دیگ چڑھی ہو، اس میں دو مکھیاں بھی آگریں، اب سوچئے کہ کیا وہ اتنا سارا دودھ پھینک دے؟ ایک غریب آدمی کے لئے یا ایک ایسے شخص کے لئے جس کے یہاں مہمان کی آمد آمد ہو، یہ کس قدر دشوار ہوگا، غرض کہ شریعت کے احکام تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر دئیے گئے ہیں۔