مذہب

خطبہ ٔ جمعہ کی اہمیت اور افادیت

خطبہ جمعہ کی بڑی اہمیت ہے، عموماً اس کی فضیلت اور اجر وثواب کے متعلق تو گفتگو کی جاتی ہے لیکن اہمیت اور افادیت کا پہلو یاتو نظر انداز کردیا جاتا ہے یا اس پر بہت کم گفتگو ہوتی ہے،

محمد عبد الہادی عمری مدنی
( صدر مجلس القضا ء اسلامی ،برمنگھم)

خطبہ جمعہ کی بڑی اہمیت ہے، عموماً اس کی فضیلت اور اجر وثواب کے متعلق تو گفتگو کی جاتی ہے لیکن اہمیت اور افادیت کا پہلو یاتو نظر انداز کردیا جاتا ہے یا اس پر بہت کم گفتگو ہوتی ہے، حالانکہ فضیلت اور اجر وثواب کا تعلق انسان کے اخلاص اور حسن نیت پر ہے،وہ تو اس کو اس کی نیت کے مطابق مل ہی جائے گا، لیکن جو قابل غور پہلو ہے وہ اس کی اہمیت اور افادیت کا ہے، خطبہ جمعہ کی سماعت واجبات میں سے ہے ۔

خطبہ کی اہمیت کے متعلق متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں، خطبہ شروع ہونے سے قبل مسجد میں پہنچ جانا چاہئے،ورنہ جو شخص خطیب کے ممبر پر بیٹھنے کے بعد مسجد میں داخل ہوگا، جمعہ کی فضیلت سے وہ محروم ہوگا،فرشتے اپنے مخصوص دفتر میںا س کا نام درج نہیں کریں گے ۔

عن ابی ھریرہ قال قال النبی ﷺ اذا کان یوم الجمعۃ وقفت الملائکۃ علی باب المسجد یکتبون الأول فالأول ومثل المھجر کمثل الذی یھدی بذنۃ ثم کالذی یھدی بقرۃ ثم کبشا تم دجاجۃ ثم بیضۃ فاذا خرج الامام طووا صحفھم ویستمعون الذکر۔(بخاری حدیث نمبر:929) خطبہ پوری توجہ سے سنا جائے، دوران خطبہ کوئی معمولی سی حرکت یا بات بھی نہ کرے جس سے کسی قسم کا خلل واقع ہو، حتیٰ کہ اگر کوئی فضول یا لغو حرکت کررہا ہوتو اسے زبان سے منع بھی نہ کرے کہ کہیںتکرار اور سوال وجواب کا سلسلہ ہی شروع نہ ہوجائے۔

قال رسول اللہ ﷺ اذا قلت لصاحبک یوم الجمعۃ انصت والامام یخطب فقد لغوت (بخاری حدیث نمبر :934،مسلم نمبر:851)

گویا مسلم کمیونٹی کو قدرتی طور پر ہفتہ میں ایک دن ان کی اصلاح اور رہنمائی کا زرین موقع دیا گیا جو کسی اور مذہب کے ماننے والوں کو میسر نہیں، بلکہ مختلف دینی اجتماعات، جلسے اور جوکانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں ان کی کئی حیثیتوں سے جمعہ کے مقابلہ میں اہمیت کم ہے، حالانکہ ان اجتماعات کے لیے بہت زیادہ محنت اور خرچ کیا جاتا ہے، ان اجتماعات کے برعکس جمعہ میں لوگوں کو جمع کرنے کے لیے خصوصی محنت نہیں کرنی پڑتی بلکہ لوگ خود اپنی ذمہ داری اور رغبت سے تیاری اور اہتمام کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں، نیز خطبہ جمعہ کو پوری توجہ سے سننے کا حکم دیا گیا ہے، جلسوں میں کی جانے والی تقریروں کی طرح نہیں کہ پسند کی تقریر پر کچھ توجہ دیجئے اور باقی گپیں ہانکتے رہیے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی جمعہ کے دن غسل کرکے پاک وصاف ہوکر تیل اورگھر میں میسر خوشبو لگا کر نکلے اورمسجد میں لوگوں کی گردنیں پھلانگے بغیر جہاں جگہ ملے وہیں حسب توفیق نماز پڑھے، پھر جب امام خطبہ شروع کرے تو خاموشی سے سنے تو ایسے شخص کے دوسرے جمعہ تک کے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔ قال رسول اللہ ﷺ من اغتسل یوم الجمعۃ وتطھر بما استطاع من طھر ثم ادھن اومس من طیب ثم راح فلم یفرق بین اثنین فصلی ماکتب لہ ثم اذا خرج الامام انصت غفرلہ مابینہ وبین الجمعۃ الاخری (بخاری حدیث نمبر: 910)

اگر خطبات جمعہ کی اتنی زیادہ اہمیت ہے تو پھر خطیب مسجد کی ذمہ داری بھی اسی حساب سے بڑھ جاتی ہے، تاکہ اس ہفتہ واری پروگرام سے بھر پور فائدہ اٹھایا جاسکے اور خطبات تبرک یا وقت گزاری کے بجائے اصلاح اور پیغام رسانی کا بہترین ذریعہ بن سکیں، لیکن عموماً دیکھا گیا کہ خطباء کرام کی اکثریت اس سے مطلوبہ فائدہ نہیں اٹھاتی، عوام اور خطباء کرام کی غیر ذمہ داری کے باعث خطبات جمعہ کی افادیت کم ہوتی جارہی ہیں، موضوع اور ضرورت کے لحاظ سے ’’ مادرچہ خیالم وفلک درچہ خیال ‘‘ والا معاملہ ہوتا ہے، خطیب صاحب کو اتنی فرصت یا علمی شعور ہی نہیں کہ معلوم کریں کہ حالات کیا ہیں، ان کا تقاضہ کیا ہے اور نہ ہی ان کی اتنی استعداد ہوتی ہے کہ حالات اور ضرورت کے مطابق خطبہ کو مرتب کریں،بعض اوقات خطیب صاحب ایسے بے سروپا قصوں، کہانیوں اور مبالغہ آمیز حکایات کا سہارا لیتے ہیں کہ تعلیم یافتہ لوگوں کی الجھن میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے، بلکہ ایسی کہانیوں کے باعث خطباء سے تنفر پیدا ہونے لگتا ہے، یا پھر کہیں خطبہ جمعہ کو صرف ایک تبرک کی حیثیت حاصل ہے کہ اذان سے قبل ایک طویل وعریض بیان جاری رہتا ہے جس سے معدودے چند افراد ہی حاضر ہوتے ہیں کیونکہ یہ اصل خطبہ نہیں جس کی سماعت ضروری ہے، اسی لئے عرف عام میں اس کو بیان کہا جاتا ہے اور جب اجتماع بھر پور ہوتا ہے تو خطبہ جمعہ عربی زبان میں صرف تکمیل ضابطہ کے طور پر چند سطروں میں پڑھ دیاجاتا ہے،اس طرح عوام کی غالب اکثریت خطبہ کی افادیت سے محروم ہوجاتی ہے، اس انحطاط فکری وعملی کے مختلف اسباب ہیں جن میں سے ایک کا یہاں ذکر کردینا مناسب ہوگا،وہ یہ کہ مساجد میں عموماً مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ خطباء کی ایک بڑی تعداد دینی اور عصری اعتبار سے بہت ہی محدود تعلیم یافتہ ہے، ان میں سے کچھ دینی اعتبار سے جونیئر لیول تک تو پڑھے ہوئے ہیں لیکن عصری تعلیم سے بالکل نابلد ہیں، وہ خود یہاں کے قوانین سے واقف نہیں تو لوگوں کی راہنمائی کس طرح کرسکیں گے، اور کچھ خطباء انگریزی تو بول لیتے ہیں لیکن ان کی دینی معلومات ٹھوس نہیں، اسلامی مصادر ومراجع کا مطالعہ ان کی دسترس سے باہر ہے، عموماً سطحی اور سرسری معلومات پر ان کی گفتگو مشتمل ہوتی ہے، اگر خطباء کرام اس سلسلہ میں درج ذیل امور پیش نظر رکھیں تو خطبات سے بہتر نتائج کی امید کی جاسکتی ہے ۔

٭ خطیب کو سنت کے مطابق حالات اور ضرورت کا لحاظ کرتے ہوئے موضوع اختیار کرنا چاہئے،امام ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میںا س پر تفصیل روشنی ڈالی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبات کیسے جامع اور متنوع ہوا کرتے، اور نیز آپؐ کا اسلوب خطابت کس طرح کا ہوتا، موضوع اور حالات کے اعتبار سے کبھی آپؐ کی آواز بلند ہوجایا کرتی جیسے خطرہ کے وقت ایک سپہ سلار اپنی فوج سے خطاب کرتا ہے وغیرہ وغیرہ، عموماً آپؐ موت اور آخرت کی تیاری کے حوالہ سے سورۃ ق کی تلاوت فرمایا کرتے جس کا انداز ایک مشفق ومہربان کے ناصحانہ اسلوب میں ڈھلا ہوا ہوتا، عموماً آپؐ دوران خطبہ حسب ضرورت ہاتھ کے اشاروں کے لیے صرف انگلی کا استعمال فرمایا کرتے، غرض ایک بہترین اور اعلیٰ درجہ کے خطیب میں جو مطلوبہ صفات ہوسکتی ہیں وہ آپؐ میں بدرجہ اتم موجود تھیں، آپؐ الفاظ یا اشاروں کا غلط استعمال نہیں فرمایا کرتے: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا خطب احمرت عیناہ وعلا صوتہ واشتد غضبہ حتی کانہ منذرجیش یقول صبحکم ومساکم (مسلم نمبر: 867) بلکہ دونوں ہی چیزیں نہایت جچی تلی ہوتی تھیں ۔

٭ خطبہ جمعہ کے تین حصہ ہوتے ہیں، مقدمہ، صلب موضوع اور خاتمہ، مقدمہ کی اہمیت یوں ہے کہ اس کے ذریعہ سامعین کی آنے والی گفتگو صلب موضوع کے لیے ذہن سازی کی جاتی ہے، جیسے بیچ بونے سے پہلے زمین ہموار کی جاتی ہے، اس لیے تمہید،مختصر، جامع اور موثر ہونی چاہئے، تاکہ سامعین ذہنی یکسوئی کے ساتھ آپ کی اصل گفتگو سن سکیں، پھر اصل موضوع اور اخیر میں گفتگو کا چند جملوں میں خلاصہ تاکہ جو پیغام اس گفتگو کے ذریعہ آپ دینا چاہتے ہیں وہ پھر سے تازہ ہوجائے ۔

٭ اگر موضوع طویل ہو اور اس کے مختلف گوشوں پرآپ گفتگو کرنا چاہتے ہوں تو بجائے ایک ہی خطبہ میں سب کچھ بیان کرنے کے اس کے دو یا تین حصہ کرلیں تاکہ اطمینان سے مقررہ وقت میں ایک ایک حصہ پر گفتگو ہوسکے، یہ بھی ذہن میں رہے کہ آپ نے جتنی معلومات جمع کی ہیں وہ سب کی سب ایک ہی خطبہ میں پیش نہ کی جائیں بلکہ مقررہ وقت میں جتنی باتیں عمدگی سے کی جاسکتی ہے وہ کریں تاکہ وقت مقررہ پر خطبہ ختم ہو اور نمازکھڑی کی جاسکے، کیونکہ عام تقریر یا لیکچرمیں اگر کسی کو اپنے کام سے جانا ہو، دوران تقریر وہ جاسکتا ہے لیکن جمعہ کا مسئلہ کچھ اور ہے، لہٰذا سامعین کی مجبوری کا غلط فائدہ نہ اٹھائیے، بلکہ خدشہ ہے کہ خطیب کی اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ حرکت ایسے لوگوں کو مسجد میں آنے سے ہی روک سکتی ہے،خصوصاً ان علاقوں میں جہاں لوگ محدود وقت کے لیے چھٹی لے کر حاضر ہوتے ہیں، دوسری طرف نمازیوں کو بھی چاہیے کہ جمعہ کے لیے اہتمام سے حاضر ہوں اور کم از کم اتنا وقت لے کر آئیں کہ کبھی اتفاق سے کچھ منٹ اضافی ہوجائیں تو ان کے لیے باعث حرج نہ ہو، ورنہ یہاں بعض مقامات پر دیکھا گیا کہ لوگ جمعہ میں بھی وہی انداز اپنائے ہوتے ہیں جو فاسٹ فوڈ دوکانوں پر گوتھروکا ہوتا ہے کہ چلتے چلتے جمعہ کا مسئلہ بھی نمٹ جائے ۔

٭ خطیب کو جذباتی اور رد عمل کی نفسیات سے بالاتر ہوکر اپنی بات کرنی چاہئے،کیونکہ ضروری نہیں کہ آپ کی ذاتی رائے سے اوروں کا بھی اتفاق ہو، ہوسکتا ہے آیات اور احادیث سے جو نتیجہ آپ نکال رہے ہوں وہ درست نہ ہو، بیشک آیات تو برحق اور احادیث صحیح ہیں ان پر کلام نہیں لیکن ان سے جو نتیجہ نکالا جارہا ہے وہ آپ کی اپنی سمجھ ہے، اس لیے اس کو ایسے نہ پیش کریں کہ یہی حرف آخر ہے یا آپ کی رائے، بجائے خود قرآن وسنت ہے اس کے علاوہ اور رائے نہیں ہوسکتی ۔

٭ موضوع کے لحاظ سے قرآنی آیات، صحیح احادیث کا انتخاب اور صحابہ کرام کی عملی زندگیوں کی مثالیں اہمیت رکھتی ہیں، پھر موضوع کی عصر حاضر کے ساتھ مطابقت ضروری ہے، تاکہ گفتگو میں تازگی اور حالات کے مطابق لوگوں کی رہنمائی ہوسکے۔

اگر چہ کہ یہ کام خاصا مشکل ہے کہ موضوع کو حالات کے ساتھ مربوط کیا جائے، اس کے لیے حالات پر گہری نظر اور درست معلومات کی ضرورت ہوگی تاکہ آپ درست نتیجہ تک پہنچ سکیں، یوں خطیب کی حیثیت ایک نباض حکیم کی ہوگی، جو علاج سے پہلے مرض کی صحیح تشخیص کرکے مریض کا علاج تجویزکرتا ہے اور اس کی گفتگو جذبات یا بے جا تنقید یا بے مقصد تبصروں کے بجائے ایک ناصح حکیم کے روپ میں ڈھلی ہوئی ہوگی، مشہور صحابی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ’’ اگر تمہاری گفتگو لوگوں کی عقل وفہم سے باہر ہوتو ہوسکتا ہے کہ بعض اس قسم کی باتوں سے فتنہ میں مبتلا ہوجائیں ۔لہٰذا سامعین کی ذہنی سطح کی رعایت ضروری ہے، نیز خطبہ جمعہ میں بلا ضرورت عالمی تبصروں کے بجائے خطیب کی توجہ سامعین پر ہوکہ میں ان حضرات کے لیے کونسا عملی پروگرام پیش کررہا ہوں، ورنہ صرف عالمی تبصروں کے بعد سامعین جب مسجد سے نکلیں گے تو انہیں کیا حاصل ہوگا، البتہ موضوع کی مناسبت سے بقدر ضرورت کسی چیز کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے ۔

٭ بعض خطباء یہاں کی روایات اور ثقافت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں، لیکن اس سے پہلے انہیں جہاں کے سماج کا مطالعہ کرنا ضروری ہوگا، کیونکہ بعض چیزوں کا تعلق عقائد سے ہے، بعض مقامی تہذیب اور روایات سے تعلق رکھتی ہیں اور بعض قانونی دائرہ میںآتی ہیں، خصوصاً نئے قوانین کے تناظر میں اس کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے، خطباء کو ان نئی تبدیلیوں کا ادراک ہونا ضروری ہے۔

٭ خطبہ جمعہ کی تیاری کے لیے خطیب کو وسیع مطالعہ کا اہتمام کرنا چاہئے، مستند کتب تفسیر، کتب احادیث اور اس موضوع پر اہل علم کے مقالات تاکہ اس کی معلومات صحیح ہوں، اور حالات حاضرہ پر سنی سنائی باتوں کے بجائے گہری نظر ہو، اس طرح وہ صحیح سمت میں لوگوں کی رہنمائی کرسکے گا،بسا اوقات ترجمہ پر انحصار سخت ندامت کا باعث بن سکتا ہے، بہت سے لوگ ترجمہ یا کسی کتاب کا حوالہ تحقیق کے بغیر دیتے ہیں، ممکن ہے وہ حوالہ نقل درنقل آپ تک پہنچا ہو اور کچھ سے کچھ ہوگیا ہو، اس لیے خود بھی تحقیق کرلیا کریں ۔

٭ دوران خطبہ عموماً خطیب حضرات دعائیں کرتے ہیں، ان میں کچھ سمجھے بغیر رٹی ہوئی عبارتیں ہوتی ہیں جن کا مفہوم انتہائی غلط اور قرآن وسنت کی تعلیمات کے خلاف ہوتا ہے اور بعض دعائیں مخصوص پس منظر سے تعلق رکھتی ہیں، خطیب کو چاہئے کہ اپنے مقام ومنصب کا خیال کرتے ہوئے کم سے کم مفہوم تو سمجھنے کی کوشش کرے، یہ تو اللہ ہی کا کرم ہے کہ وہ ایسی دعائیں قبول نہیں فرماتا ورنہ امام کی بے احتیاطی کا خمیازہ بستیوں اور آبادیوں کی ہلاکت کی صورت میں دیکھنا ہوتا، جیسے یہاں بعض خطیب خطبہ ثانیہ میں عموماً بہت سے بدعائیہ جملے کہتے ہیں کہ یا اللہ ان کی بستیوں کو تباہ وتاراج کردے، خطیب کو سوچنا چاہئے کہ یہاں مسلمان اور غیر مسلموں کے علاقے اور محلے الگ الگ تو نہیں بلکہ مشترکہ آبادیاں ہیں، اگر خطیب کی یہ دعا قبول ہوجائے تو اس کا مطلب یہاں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف ہے اور یہ خلاف سنت اس لیے نبی ؐرحمۃ للعالمین بناکر بھیجے گئی، یہ کیسی رحمت ہوئی کہ سب کے لئے ہر جمعہ بد دعائیں کی جائیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح عمومی الفاظ میں کسی مذہب یا قوم کے لیے بدعائیں نہیں فرمائیں، سوائے چند مخصوص قبائل کے جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف سنگین جرائم کئے تھے، یا کسی مخصوص علت کے باعث جیسے اللہ ان یہودیوں اور عیسائیوں پر لعنت فرمائے جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا ۔

ورنہ عمومی طور پر آپ ان کی ہدایت کے لیے دعائیں فرمایا کرتے، یہ اور اس طرح کے بہت سے کلمات ہیں جو خطیب حضرات سوچے سمجھے بغیر دہرایا کرتے ہیں، دعا کوئی رسم ورواج کے طورپر نہیں کی جانی چاہئے اور نہ ہی ردیف قافیہ کے طور پر صرف وزن جوڑنے کے لیے بلکہ صمیم قلب سے پورے شعور کے ساتھ انجام دی جانے والی عبادت ہے، ایسی ہی دعائیں عبادت کا نچوڑ کہلاتی ہیں ۔

آج کل بہت سی چیزوں میں نقالی کا رواج عام ہوتا جارہا ہے،اسی میں دعاؤں کا نقل بھی ہے، اور یہ سلسلہ رمضان میں وتر کی نماز میں کئی مقامات پر دیکھا جاسکتا ہے کہ ائمہ حرمین شریفین کی زیادہ تر کاپی اس طرح کی جاتی ہے کہ وہ جہاں توقف کریں یہاںکے امام صاحب بھی وہیں رکتے ہیں، جہاں ان کی آواز بھراتی ہے ان کی بھی وہیں لڑکھڑا نے لگتی ہے، حالانکہ اس کا تعلق نقل سے نہیں دلی کیفیت اور حالات کے ساتھ ہوتا ہے اس کے لیے نقل نہیں شعور اور فہم کی ضرورت ہے ۔

٭ خطیب کو سامعین کی اکثریت کی زبان، تہذیب اور پس منظر کا خیال بھی رکھنا چاہئے،تاکہ اس کی بات کے دماغوں میںآسانی سے اتر سکے، انبیاء کرام کی بعثت کے حوالہ سے یہ نکتہ بڑی اہمیت سے بیان کیا گیا کہ ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں بھیجا گیا ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا دین وضاحت سے بیان کرسکے ۔(سورہ ابراہیم :4) لیکن افسوس کہ یہاں رہنے والے اکثر خطباء اس میں تغافل برتتے ہیں ۔

یہ وہ چند عملی تجاویز ہیں جن کو پیش نظر رکھ کر علماء اور خطباء اپنے خطبات جمعہ کو مسلمانوں کے لیے مفید وموثر بناسکتے ہیں ۔

٭٭٭