سوشیل میڈیامشرق وسطیٰ
ٹرینڈنگ

سعودی عرب کی تاریخ میں ایک ایسا قصاص جس نے پوری دنیا کو رُلادیا (ویڈیو)

پورا سعودی عرب بول پڑا کہ معاف کیا جانا چاہئے،شریعت نے دیت اور معافی کا آپشن بھی تو رکھا ہے، لیکن مقتول کے ورثاء نے نہ تو معاف کیا اور نہ دیت پر راضی ہوئے۔

جدہ: نوجوان محمد بن مرسل سعودی عرب کے شہر نجران کے رہنے والے تھے معمولی سی تلخی کے باعث ان کے ہاتھ سے ان کے ایک خاندانی بھائی کا قتل ہوگیا ،ان کو جیل ہوگئی ،جیل میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد عدالت نے قصاص میں انکی گردن اڑانے کا حکم سنا دیا۔

متعلقہ خبریں
ادبی فورم ریاض کا مشاعرہ بہ یاد تابش مہدی مرحوم
ڈاکٹر سید انور خورشید کو پریواسی بھارتیہ سمان 2025 ایوارڈ ملنےپر تہنیتی جلسہ
انجینئرنگ کالج میڑچل میں طالبات کی خفیہ فلمبندی کیس میں دو گرفتار
سعودی میں منشیات اسمگلنگ 6 کو سزائے موت
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی، ادبی فورم ،ریاض کے زیرِ اہتمام ماہانہ ادبی نشست

البتہ شرعی طور پر مقتول کے ورثاء کے پاس دیت لینے یا فی سبیل اللہ معاف کرنے کا اختیار بھی ہوتا ہے۔محمد مرسل کے قبیلے آل رزق کے بچوں ،بزرگوں اور نوجوانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ مقتول کے قبیلہ آل صنیج کے سامنے معافی کی درخواست رکھی جائے۔

 وہ چاہیں تو دیت لیں وہ چاہیں تو معاف کریں یہ درخواست رکھنے کا جو انداز تھا یہ اتنا منفرد تھا،یہ اتنی عاجزی اور فریاد لئے تھا کہ پورے عرب میڈیا کا یہ موضوع بن گیا،محمد بن مرسل کے قبیلے کے چھوٹے بڑے بزرگ بچے سب مقتول کے دروازے پر پہنچ گیے۔

مقتول کے ورثاء کو بلایا گیا،ان کے سامنے قبیلے کے سرداروں اور شیخوں نے جوانوں اور بچوں نے اپنی عقالیں،چادریں، جبے اتار کر مقتول کے ورثاء کے قدموں میں رکھے،عزت اور فخر سمجھی جانے والی چیزیں اور اشیاء اتار کر مقتول کی چوکھٹ میں رکھ  دیئے۔

اپنی چادروں سے گھٹنوں کو باندھ کر زمین پر لیٹ گئے،اپنے سروں پر مٹی ڈالے،شاعروں نے معافی پر قصیدے پڑھے، مقتول کے ننھے بچے نے یوں معافی کی استدعا کی کہ جگر کٹ جائے، جو اور جتنی چاہیے دیت کی پیش کش کی گئی۔

پورا سعودی عرب بول پڑا کہ معاف کیا جانا چاہئے،شریعت نے دیت اور معافی کا آپشن بھی تو رکھا ہے، لیکن مقتول کے ورثاء نے نہ تو معاف کیا اور نہ دیت پر راضی ہوئے۔

 چنانچہ تین دن پہلے بیس ستمبر کو نوجوان محمد بن مرسل کی گردن قصاص میں اڑا دی گئی، یہ پہلا قاتل تھا جس کیلئے پورے ملک میں مغفرت کی دعائیں ہو رہی ہیں، لوگ ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں، لیکن دوسری طرف قانون اپنی جگہ کتنا مضبوط ہے کہ سب کچھ کے باوجود نافذ ہوا –