ڈاکٹر شجاعت علی صوفی
لکڑیاں ایک ایک جلاؤ تو دھواں دیتی ہیں اکھٹی جلاؤ تو مقصدی آگ لگتی ہے۔ آج ہمارے ملک میں ہم جو بھی احتجاج کرتے ہیں وہ اکھٹے نہیں کرتے جس کے سبب اس کا جو اثر ہونا چاہئے وہ دکھائی نہیں دیتا۔ آج وطن عزیز میں یونیفارم سیول کوڈ کی بحث جڑ پکڑ رہی ہے حالانکہ لا کمیشن نے واضح طورپر یہ کہا تھا کہ ملک کو فی الوقت یونیفارم سیول کوڈ کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ ملک مختلف پھولوں کا ایک گلدستہ ہے یہاں کسی ایک پھول کو اہمیت نہیں دی جاسکتی اگر ایسا کیا جاتا ہے تو ہمارے حسین و جمیل اتحاد اور ثقافت کو بھاری نقصان پہنچے گا۔ ساری دنیا یہ مانتی ہے کہ کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں ہر سو سو کلو میٹر کے بعد تہذیب تمدن اور کلچر بدلتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کونسے کلچر کو ‘ کونسی تہذیب کو ‘ کونسے کھان پان کو یکساں موقف دیں گے۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ یونیفارم سیول کوڈ کا مقصد یہ ہے کہ تمام طور طریقوں کو ہٹا کر سماجی تانے بانے کو بننے کے لئے‘ شادی بیاہ میں یکسانیت لانے کے لئے کوشش کرنا ہے۔ یہ کوشش اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب بہت بڑے پیمانے پر عوام اور خاص طورپر مذہبی گروپوں کے ساتھ تفصیلی رابطہ پیدا کیا جائے۔ انہیں ہر طرح سے مطمئن کیا جائے تب ہی کسی معاملہ میں اتفاق پیدا کیا جاسکتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو یقینا ملک میں نراج کی کیفیت پیدا ہوگی۔ جس کے لئے ہم قطعی متحمل نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے 75 برسوں میں اس کے بارے میں بہت ساری باتیں تو کی گئیں لیکن عملی طورپر کچھ بھی اس لئے نہیں کیا جاسکا کیونکہ ہمارے قانون دان اس کی باریکیوں اور نزاکتوں سے واقف تھے۔ یونیفارم سیول کوڈ کو متعارف نہ کئے جانے کا سبب یہ بھی رہا کہ دستور میں اس پر عمل آوری پر زور نہیں دیا گیا بلکہ صرف یہ کہا گیا کہ یونیفارم سیول کوڈ لانے کی کوشش کی جائے۔
بے شمار مسلم تنظیمیں اس بات پر متفق ہیں کہ یونیفارم سیول کوڈ دستور کی صحیح اسپرٹ کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان تنظیموں نے مرکز کو اس طرح کی کوششوں سے باز رہنے کا مشورہ دیا ہے کیونکہ ان کا یہ احساس ہے کہ اس سے فرقہ وارانہ اور سماجی افرا تفری پیدا ہوگی۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے علاوہ جمعیت العلماء ہند اور جماعت اسلامی نے بھی مرکز کو یکساں سیول لانے سے گریز کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ جماعت اسلامی نے اس تاثر کا اظہار کیا کہ یونیفارم سیول کوڈ سے متعلق سوالنامہ کسی بھی طبقہ کی بنیادی آزادی پر ایک وار ہے۔ لہٰذا یہ ناقابل قبول ہے اور ملک کی سا لمیت کے لئے خطرناک بھی ہے۔ جماعت کا یہ احساس تھا کہ دستور کے آرٹیکل نمبر 25 اور 26 میں جو بنیادی حقوق دیئے گئے ہیں یونیفارم سیول کوڈ اس کی مخالفت کرتا ہے۔ جماعت نے یہ بھی کہا ہمارا ملک سیکولر ہے اور ہماری قوم کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ ایک متنوع ہندوستان میں جہاں مختلف مذاہب اور اعتقاد پنپتے ہیں وہاں یونیفارم سیول کوڈ کا تصور ہی غلط ہے۔ یونیفارم سیول کوڈ مسلمانوں ہی کے لئے نہیں بلکہ تمام سکھوں، ہندوؤں او ر قبائیلیوں کے جذبات کے خلاف بھی ہے۔ اسے صرف مخالف مسلم سمجھنا بے وقوفی ہے۔ ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں نے بھی یونیفارم سیول کوڈ کو متعارف کروانے کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی ایک مذموم سیاسی چال قرار دیا ہے جس کے ذریعہ وہ 2024 کے عام انتخابات میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔ یونیفارم سیول کوڈ کی عدم موجودگی میں ہمارے ملک میں کوئی بے چینی نہیں ہے ۔ اس معاملہ میں ملک کا ہر فرقہ ہر طبقہ یونیفارم سیول کوڈ کے بغیر ہی بے انتہا خوش ہے اور کوئی تنازعہ نہیں ہے تو پھر ملک کو نئی الجھنوں کی آگ میں ڈھکیل دینا کونسی دانشمندی ہے؟
ہماری شادی بیاہ کے اصولوں ، گود لینے کے مسئلوں اور جائیداد میں مساوی مواقعے دینے کے معاملات میں کوئی مسائل نہیں ہیں اور اگر کہیں ہیں بھی تو یہ ہمارے موجودہ قوانین کے تحت حل کرلئے جاتے ہیں۔ ہندوؤں کے ایک فرقہ میں سگی بھانجی کی شادی سگے ماموں سے کی جاتی ہے تو جائز ہے لیکن وہیں ہندوؤں کے دوسرے فرقہ میں اس طرح کی شادی کو گناہ قرار دیا جاتا ہے۔ سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مخصوص معاملہ میں کونسے طریقہ کو قبول کیا جائے گا۔ بعض قبیلوں میں ایک سے زیادہ شادیاں جائز ہیں تو کیا ان پر پابندی لگائی جاسکتی ہے؟ کیا وہ ان پابندیوں کو قبول بھی کریں گے؟ اسلام میں چار شادیوں کا حکم نہیں دیا گیا ہے بلکہ چار شادیاں مخصوص حالات میں کرسکنے کی اجازت دی گئی ہے۔ چار شادیوں کا حکم نہیں دیا گیا۔ ایسی بہت ساری باتیں ہیں جن کے سبب یونیفارم سیول کوڈ متعارف کروانے کی کوششوں کو ختم کرنا ہی بہتر ہے تاکہ ملک میں امن و آشتی محفوظ رہ سکے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے سیاسی مفادات کے لئے ملک میں فرقہ پرستی کا زہر پھیلا کر سیاسی فائدہ تو حاصل کیا لیکن ملک کی صحیح خدمت نہیں کی ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ ملک فرقہ واریت کے زہر سے دوچار ہے تو کیا نئی نئی مہمات ملک کو مزید نقصان نہیں پہنچائیں گی ؟
یہاں ہم اس بات کا تذکرہ پھر ایک بار کرنا چاہیں گے کہ پچھلے سال مسلم دانشوروں کا ایک وفد جس کی قیادت جماعت اسلامی نے کی تھی لا کمیشن سے ملا تھا جس میں کمیشن کے ذمہ داروں نے واضح طورپر یہ کہا تھا کہ کم سے کم اگلے دس سالوں تک یونیفارم سیول کوڈ کی بات نہ کی جائے تو بہتر ہے۔ کمیشن کا یہ بھی تاثر تھا کہ یونیفارم سیول کوڈ کی فی الوقت کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان نے بھی اس تاثر کا اظہار کیا تھا کہ یونیفارم سیول کوڈ عملی طورپر لے آنا ناممکن ہے۔ دستور میں آرٹیکل 371(A) ، 371(G) کے تحت قبائیلیوں کے رسومات ان کے سماجی رہن سہن کو برقرار رکھنے کی ضمانت دی گئی ہے تو پھر کیسے ان کو چھوا جائے گا۔ مسلم پرسنل لا بورڈ اس بات پر متفق ہے کہ مسلمانوں کا پرسنل لا قرآن اور شریعت سے حاصل کیا گیا ہے اس میں اگر مسلمان بھی مداخلت کرتے ہیں تو وہ اسلام کے دائرہ سے خارج ہوجاتے ہیں۔ ہم سب کو یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ دستور کے آرٹیکل 44میں بھی یونیفارم سیول کوڈ کا متعارف کروانا نہ تو لازمی ہے اور نہ ہی منصفانہ ۔ بہرحال ہم دعوی کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک سیاسی شعبدہ بازی ہے اور اس نام نہاد مہم میں بھی بی جے پی کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ اس کے باوجود اس وقت کے جابر حکمرانوں سے یہی اپیل کریں گے کہ
دلوں کا درد ٹٹولو یہی ہے راہ نجات
لرزے کانپتے ہونٹوں کا احترام کرو
۰۰۰٭٭٭۰۰۰
٭٭٭