مسلمان، 1947ء سے موجود کسی مسجد کو دینے تیار نہیں: مشتاق ملک
اتحادِ ملت ریاستی کانفرنس میں مختلف دینی و ملّی جماعتوں، سماجی جہدکاروں نے ”مسلم متحدہ محاذ تلنگانہ“ کے قیام کا ایک قرارداد کے ذریعہ اعلان کیا، جس کی صدارت جناب محمد مشتاق ملک صدر تحریک ِ مسلم شبان و شرعی فیصلہ بورڈ نے کی۔
حیدرآباد: اتحادِ ملت ریاستی کانفرنس میں مختلف دینی و ملّی جماعتوں، سماجی جہدکاروں نے ”مسلم متحدہ محاذ تلنگانہ“ کے قیام کا ایک قرارداد کے ذریعہ اعلان کیا، جس کی صدارت جناب محمد مشتاق ملک صدر تحریک ِ مسلم شبان و شرعی فیصلہ بورڈ نے کی۔
آج مہدی پٹنم ایم پی گارڈن میں منعقدہ اجلاس مساجد کے تحفظ، شریعت کی حفاظت، مدارسِ دینیہ کا تحفظ اور زعفرانی نظامِ تعلیم، اتحادِ ملت پر قراردادیں منظور ہوئیں۔ تحریک ِ مسلم شبان، جمعیۃ ِ اہلحدیث، مسلم لیگ، انجمن قادریہ،
آل انڈیا سیرت اکیڈیمی، وحدت اسلامی، علماء کونسل، ایم پی جے (جماعت اسلامی)، ویلفیئر پارٹی، سومیشو ریفام، مجلس عمل، شرعی فیصلہ بورڈ، سنگا ریڈی، کریم نگر، میدک، محبوب نگر، نلگنڈہ، رنگا ریڈی، جگتیال، عادل آباد، ورنگل، ظہیر آباد و دیگر اضلاع کے وفود نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ مفتیان کرام،
علماء، ائمہ مساجد و خطباء نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔ حافظ و قاری خالد علی خاں کی قرأتِ کلام پاک سے کانفرنس کا آغاز ہوا۔ جناب محمد مشتاق ملک نے اختتامی اور افتتاحی خطاب میں کہا کہ مساجد کو ملک میں نشانہ بنایا جارہا ہے، شریعت کو ختم کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ دستور اور قانون نے اقلیتوں کو مذہبی،
تعلیمی، سماجی حقوق دیے ہیں، مگر حکمراں اور عدلیہ کے رویہ نے ملک کی سب سے بڑی ”مسلم اقلیت“ کو مایوس کیا ہے۔ ان حالات میں مسلمانوں کو منصوبہ بندی اور کلمہ کی بنیاد پر اٹوٹ اتحاد کی ضرورت ہے۔
مساجد کی شہادت اور آثارِ قدیمہ کے غلط رویوں کی روشنی میں مساجد کو نشانہ بنانا دستور اور قانون سے مذاق کے مترادف ہے۔ اجلاس اوّل کی قرارداد مساجد کے تحفظ میں کہا گیا کہ مسلم حکمرانوں کے قصے کہانیوں اور اے ایس آئی رپورٹ کی بنیاد پر مساجد کو مندر قرار نہیں دیا جاسکتا،
بلکہ عدلیہ 1991 کے پلیسس آف ورشپ ایکٹ اور دستور کے تحت فیصلے سنائے۔ اتحادِ ملت کانفرنس میں پیش کردہ اس قرارداد میں واضح کیا گیا کہ مسلمان اب کسی بھی مسجد کو جو 1947ء سے موجود ہے دینے کے لیے تیار نہیں اور کسی بھی فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گے۔ بابری مسجد کی تاریخ کو دہرایا نہیں جاسکتا اور نہ مسلمان اس کے لیے تیار ہیں۔
گیان واپی مسجد کے حوض کو بند کرنے اور تہہ خانہ میں پوجا کے عمل کی اور دہلی کی مہرولی مسجد اور مدرسہ کی شہادت کی شدید مذمت کی گئی۔ دوسرا سیشن شریعت کے تحفظ کے لیے رکھا گیا تھا۔ جناب ڈاکٹر توفیق احمد نے قرارداد پیش کی، جس میں یکساں سیول کوڈ کی مخالفت کی گئی اور اترکھنڈ میں شادی، طلاق، عدت، وراثت کے لیے نئے قوانین کو شریعت سے متصادم قرار دیا گیا۔
اس کے علاوہ بغیر شادی کے تعلقات اور زندگی گزارنے کے قانون کو ملک میں تہذیبی و معاشرتی انحطاط قرار دیا۔ مدارس و تعلیم کے نظام پر قرارداد میں کہا گیا کہ تعلیم کو مذہب سے جوڑا جارہا ہے۔ سوریہ نمسکار، بھگوت گیتا کی لازمی تعلیم، وندے ماترم کی شدید مذمت کی گئی۔ مولانا تجمل حسین قاسمی شیخ الحدیث، مولانا غلام احمد صمدانی علی قادری، علامہ تقی رضا عابدی، مولانا حامد حسین شطاری،
ڈاکٹر علیم خان فلکی، ایم اے حکیم، مجاہد ہاشمی، مسکین احمد، الیاس مؤمن، جناب محمد شکیل اڈوکیٹ، جناب رحمن ایڈوکیٹ، مفتی منظور احمد، جناب عبدالحق قمر، جناب عبدالصمد نواب کریم نگر، جناب اصغر حسینی، مفتی مغنی نے مباحث میں حصہ لیا۔ مولانا تجمل حسین قاسمی کی قراردادوں کی اور مسلم متحدہ محاذ تلنگانہ کے قیام کی بھرپور حمایت کی۔
مولانا سید تقی رضا عابدی نے موجودہ حالات کو امت کے لیے امتحان کا وقت قرار دیا۔ اضلاع اور شہر کی سطح پر مسلم متحدہ محاذ کی حمایت کا اعلان کیا۔ جناب سید علی قادری انجمن قادریہ نے کہا کہ مساجد کے تحفظ اور شریعت کی حفاظت کے ساتھ ریاست گیر متحدہ محاذ تلنگانہ کا قیام اہم اقدام ہے۔
اتحادِ ملت کانفرنس کے مندوبین نے مباحث میں حصہ لیا اور نعرہئ تکبیر کی گونج میں قراردادوں کو منظوری دی۔ مجاہد مشتاق، سید عبدالمنان، اطہر کمالی، ڈاکٹر توفیق نے کارروائی چلائی اور قراردادیں پیش کیں۔ جناب عبدالمنان نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔