سوشیل میڈیامذہبنکاح

طلاق کا جھوٹا اقرار

میرے ایک عزیز کے ساتھ حادثہ پیش آیا ، وہ اپنی بیوی کو طلاق دینا نہیں چاہتے تھے اور خود اس کی بیوی بھی طلاق نہیں چاہتی تھی

سوال:- میرے ایک عزیز کے ساتھ حادثہ پیش آیا ، وہ اپنی بیوی کو طلاق دینا نہیں چاہتے تھے اور خود اس کی بیوی بھی طلاق نہیں چاہتی تھی؛ لیکن کچھ غنڈے ظلم و زیادتی کرتے ہوئے اس کو قاضی کے پاس لے کر گئے اور اس سے اقرار کرایا کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے ، علماء کے سامنے یہ مسئلہ رکھا گیا تو انہوں نے کہا کہ طلاق واقع ہوچکی، اس مسئلہ کا کیا حل ہے ؟ اور اگرکبھی آدمی ایسی صورت حال سے دو چار ہوجائے تو اسے کیا کرنا چاہئے؟ (عبدالسبحان، وجے نگر کالونی)

جواب:- اگر کسی شخص نے دباؤ کی وجہ سے یا بغیر دباؤ کے طلاق کا جھوٹا اقرار کرلیا تو اس کی بیوی پر دیانۃً طلاق واقع نہیں ہوئی ؛ اگر وہ اس معاملہ کو قاضیِ شریعت کے پاس نہ لے جائے تو اس کے لئے بیوی کو ساتھ رکھنے کی گنجائش ہے :

إذا قال لہا : قد طلقتک ، أو قال لہا : أنت طالق ، وأراد الخبر بما مضی کذبا ، وسعہ فیما بینہ وبین اللہ تعالیٰ أن یمسکہا (فتاوی تاتارخانیہ : ۳؍۱۶۲، الفصل الرابع فیما یرفع إلی صریح الطلاق )

اور اگر پہلے سے کسی کو گواہ بنادیا ہو کہ میں اس طرح جھوٹا اقرار کرنا چاہ رہا ہوں تو نہ قضاء طلاق واقع ہوگی اور نہ دیانۃ:

وإن أشہد قبل ذلک لا یقع قضاء أیضا (رد المحتار : ۳؍۷۳۲ ، کتاب الطلاق )

حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن عثمانیؒ نے بھی اسی کے مطابق فتویٰ دیا ، (دیکھئے : فتاویٰ دار العلوم دیوبند : ۲؍۰۰۵) اس لئے اگر کوئی شخص اس طرح کی صورت حال سے دوچار ہو یا اس کا خطرہ ہو تو پہلے سے دو آدمیوں کو گواہ بنالے ، ایسی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی۔