شمالی بھارت

مسلم طالب علم کو تھپڑ لگانے کا ویڈیو، اسکول ٹیچر کے خلاف معمولی دفعات کے تحت کیس درج

اترپردیش کی ٹیچر نے جسے ایک وائرل ویڈیو میں طلباء سے یہ کہتے ہوئے دیکھا گیا تھا کہ وہ اپنے مسلم ساتھی کو تھپڑ رسید کریں، دعویٰ کیا ہے کہ اس ویڈیو کو توڑ مروڑ کر بنایا گیا ہے۔

نئی دہلی: اترپردیش کی ٹیچر نے جسے ایک وائرل ویڈیو میں طلباء سے یہ کہتے ہوئے دیکھا گیا تھا کہ وہ اپنے مسلم ساتھی کو تھپڑ رسید کریں، دعویٰ کیا ہے کہ اس ویڈیو کو توڑ مروڑ کر بنایا گیا ہے۔

اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہ اس کا اقدام فرقہ وارانہ نوعیت کا تھا، ترپتا تیاگی نے کہا کہ اس نے بعض طلباء کو اس طالب ِ علم کو تھپڑ مارنے کے لیے کہا، کیوں کہ یہ لڑکا اپنا ہوم ورک نہیں کررہا تھا۔

اسکول ٹیچر کی ہٹ دھرمی۔معذور ہونے کا بہانہ

تیاگی نے یہ بھی کہا کہ یہ ایک چھوٹی سی بات ہے، جسے ویڈیو وائرل ہونے کے بعد بڑھا چڑھاکر پیش کیا گیا ہے۔ اس نے بتایا کہ بچے کے والدین کا دباؤ تھا کہ اس کے ساتھ سختی برتی جائے۔ میں چونکہ اپاہج ہوں اسی لیے میں نے بعض طلباء سے کہا کہ وہ اسے تھپڑ ماریں تاکہ وہ اپنا ہوم ورک کرنا شروع کرے۔

انھوں نے بتایا کہ ویڈیو میں ایڈیٹنگ کی گئی ہے، تاکہ اس سارے واقعہ کو فرقہ وارانہ زاویہ دیا جاسکے۔ بچے کا چچا کلاس میں بیٹھا ہوا تھا۔ یہ ویڈیو اسی نے ریکارڈ کیا تھا، جس میں بعد میں الٹ پھیر کی گئی۔

ویڈیو میں انھیں فرقہ وارانہ الفاظ کہتے ہوئے بھی سنا جاسکتا ہے، جس کے بارے میں تیاگی نے کہا کہ میرا یہ ارادہ نہیں تھا۔ یہ سب میرے بچوں کی طرح ہیں اور میں اپنی غلطی قبول کررہی ہوں، لیکن اسے خواہ مخواہ ایک بڑے مسئلہ میں تبدیل کردیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا میں سیاسی قائدین سے یہ کہنا چاہتی ہوں کہ یہ ایک چھوٹا سا معاملہ ہے۔ مختلف قائدین بشمول راہول گاندھی نے ٹوئٹ کیا ہے، لیکن یہ کوئی ایسی بڑی بات نہیں تھی، جس کے بارے میں ٹوئٹ کیا جائے۔ اگر ایسے معاملات کو جو روزمرہ پیش آتے ہیں، وائرل کردیا جائے تو پھر اساتذہ کیسے تعلیم دیں گے؟

مظفر نگر کے ضلع مجسٹریٹ اروند ملپا بنگاری نے کہا ہے کہ ٹیچر کے خلاف ایک کیس درج کرلیا گیا ہے۔ ابتداء میں والدین شکایت درج کرانے پر آمادہ نہیں تھے، لیکن آج صبح انھوں نے مقامی پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی۔

اس کیس میں قانونی کارروائی کی جائے گی۔ علیحدہ اطلاع کے بموجب پولیس نے لڑکے خاندان کی شکایت پر ٹیچر تیاگی کے خلاف تعزیراتِ ہند کی دفعات 323 اور 504 کے تحت مقدمہ درج کرلیا ہے۔ یہ دونوں دفعات ناقابل دست اندازی جرائم سے متعلق ہیں۔

ایسی جرائم قابل ضمانت ہوتے ہیں اور ان کے تحت مقدمہ درج کرنے پر فوری گرفتاری عمل میں نہیں آتی اور گرفتاری کے لیے وارنٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔

کیا نفرت کے کلچر کو پروان چڑھنے کی اجازت دی جائے گی؟ یوپی کے واقعہ پر کپل سبل کا سوال

علیحدہ اطلاع کے بموجب اترپردیش میں اقلیتی برادری کے ایک لڑکے کو تھپڑ مارنے کا دیگر طلباء کو حکم دینے ایک ٹیچر کا ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد رکن راجیہ سبھا کپل سبل نے آج سوال کیا آیا وزیر اعظم نریندر مودی اس کی برسرعام مذمت کریں گے اور نفرت کے کلچر کو فروغ دینے پر ٹیچر کے خلاف کیا قانونی کارروائی کی جائے گی؟

اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک اسکول ٹیچر اپنے طلباء سے کہہ رہی ہے کہ وہ ایک لڑکے کو تھپڑ رسید کریں۔ اس نے کہا کہ یہ لڑکا محمڈن کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس نے مسلمانوں کے خلاف قابل اعتراض تبصرہ بھی کیا، جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا ہے۔

قائدین کی بھی حکومت پر تنقید

کانگریس قائدین راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی وڈرا نے اس واقعہ کی مذمت کی ہے۔ منصور پور پولیس اسٹیشن کے حدود میں واقع موضع کھبا پور کے ایک خانگی اسکول میں ٹیچر کو دوم جماعت کے طلباء کو اس لڑکے کو تھپڑ مارنے کے لیے کہتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

کپل سبل نے سابقہ ٹوئٹر اور موجودہ ایکس پر اپنے پوسٹ میں اسے نفرت کا کلچر قرار دیتے ہوئے تنقید کی اور کہا کہ اترپردیش کے مظفر نگر میں ایک خانگی اسکول کی ٹیچر نے ہندو طلباء سے کہا کہ وہ مسلم طالب ِ علم کو کلاس میں تھپڑ ماریں۔

اگر یہ سچ ہے تو کیا یوگی جی (چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ) لب کشائی کریں گے؟ کیا مودی جی اس کی برسرعام مذمت کریں گے؟ کیا اس ٹیچر کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی؟ یا پھر نفرت کے کلچر کو پروان چڑھنے کی اجازت دی جائے گی؟ بی ایس پی رکن پارلیمنٹ دانش علی نے بھی اس واقعہ کی مذمت کی۔

انھوں نے ایکس پر ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ہفتہ ہندوستان میں تعلیم یافتہ لیڈرس کو ووٹ دینے کی اپنے طلباء کو ہدایت دینے پر ایک ٹیچر اپنی ملازمت سے محروم ہوگئی۔ اب اترپردیش کی ایک ٹیچر کو جس نے اپنی کلاس کے طلباء کو ایک اور طالب ِ علم کو تھپڑ مارنے کی محض اس لیے ہدایت دی کیوں کہ وہ مسلم تھا، کیا صرف معافی مانگنے پر اکتفا کرتے ہوئے چھوڑ دیا جائے؟ یہ نفرت بھڑکانے والا جرم ہے۔

آخر ڈبلیو سی ڈی (بہبودئ خواتین و اطفال) کی وزیر کہاں ہیں؟ یوگی کا بلڈوزر کہاں ہے؟ سرکل آفیسر روی شنکر نے اس واقعہ کا نوٹ لیتے ہوئے جمعہ کے روز نامہ نگاروں کو بتایا کہ ویڈیو کا جائزہ لیا گیا ہے اور بادئ النظر میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسکول کا کام نہ کرنے پر بچے کو مار پیٹ کی گئی۔ ویڈیو میں بعض قابل اعتراض تبصرے بھی سنے جاسکتے ہیں۔ ہم اس معاملہ کا جائزہ لے رہے ہیں اور مزید کارروائی کریں گے۔

بیسک شکشا ادھیکاری شبھم شکلا نے کہا کہ طلباء کے علاوہ اس ویڈیو میں مزید 2 افراد کو بھی دیکھا جاسکتا ہے، جن میں سے ایک ٹیچر ہے۔ دوسرے شخص کی شناخت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ دونوں افراد کے خلاف اور اسکول انتظامیہ کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ متاثرہ بچہ اور اسے مارنے والوں بچوں کی مذہبی شناخت کے بارے میں دریافت کرنے پر شکلا نے کہا کہ فی الحال ہم اس کے بارے میں نہیں بتا سکتے۔ یہ معاملہ زیر تفتیش ہے۔ پولیس نے بھی اس معاملہ کا نوٹ لیا ہے۔

a3w
a3w