سوشیل میڈیامذہب

میاں بیوی ایک دوسرے کیساتھ حسن معاشرت اختیار کریں!

میاں بیوی میں کے حقوق میں سے ایک اہم حق یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ حسن معاشرت قائم کرے۔ خوش اسلوبی سے پیش آئے۔ نکاح کے مقاصد میں سے جس طرح جسمانی سکون وراحت حاصل کرناہے، اسی طرح ذہنی اور قلبی سکون کی فراہمی بھی ہے۔ ا

قاضی محمد فیاض عالم قاسمی
دارالقضاء ناگپاڑہ ممبئی۔فون 8080697348

میاں بیوی میں کے حقوق میں سے ایک اہم حق یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ حسن معاشرت قائم کرے۔ خوش اسلوبی سے پیش آئے۔ نکاح کے مقاصد میں سے جس طرح جسمانی سکون وراحت حاصل کرناہے، اسی طرح ذہنی اور قلبی سکون کی فراہمی بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشادہے: ترجمہ:اور اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم ہی میں سے تمہارے جوڑے بنائے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرسکو اور تمہارے درمیان پیارومحبت اور رحمت کو رکھا۔ بے شک اس میں غوروفکر کرنے والوں کے لئےنشانیاں ہیں۔ (سورہ روم:۲۱) دوسری ارشاد ہے: اوربیویوں کے لیے بھی دستور کے موافق حقوق ہیں جس طرح ان پر ان کے شوہروں کے لیے ہیں۔ (بقرہ: ۲۲۸)تیسر جگہ ارشادہے: اوربیویوں کے ساتھ بھلے طریقہ سے زندگی گزارو۔ (نساء: ۱۹)

علامہ ابوبکر جصاص ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کافرمان عاشروھن بالمعروف کاحکم مردوں کو دیاگیاہے۔ معاشرت بالمعروف کامفہوم یہ ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ معروف طریقے پربودباش اختیارکرے، اورمعروف طریقہ یہ ہے کہ اس کاحق مہر، نان ونفقہ اورباری صحیح طورپر ادا کرے، سخت گفتگوکے ذریعہ تکلیف دیناچھوڑدے،اس کی طرف سے بے توجہی اوردوسرے کی طرف مائل ہوکراسے تکلیف نہ دے۔ اور نہ ہی بیوی کے کسی گناہ یا قصورکے بغیراس کے ساتھ ترش روئی اوراظہار ناگواری کے ساتھ پیش آئے۔ (احکام القرآن: ۳/۴۷)علامہ آلوسی ؒ فرماتےہیں: معروف کے سلسلے میں ایک قول یہ ہے کہ بیوی کو نہ مارے اورنہ اس کے ساتھ بد کلامی کرے؛ بلکہ اس کے ساتھ ہنس مکھ رہے۔ (روح المعانی: ۲/۴۵۱)

بیوی کا اپنے خاوند کے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش آنا:

بیوی پربھی لازم ہے کہ وہ اپنے شوہرکے ساتھ حسن معاشرت قائم کرے، اچھے سلوک سے پیش آئے، ان کی عزت وتکریم کرے، ان کو برابھلانہ کہے۔ ڈانٹ ڈپٹ نہ کرے، ترش روئی اختیار نہ کرے،اپنے شوہرکی استطاعت سے زیادہ خرچہ کامطالبہ نہ کرے۔ قناعت اورصبر سے کام لے۔

اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:اورعورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے ان پر مردوں کیلئے ہیں (البقرۃ: ۲۲۸)

امام قرطبی ؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ عورتوں کےلئے مردوں پر جس طرح کے حقوق ہیں اسی طرح مردوں کے لئے بھی عورتوں پر حقوق ہیں۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ہروہ حق جو میرابیوی پرہے وہ بیوی کے لئے میرے اوپربھی ہے۔ (تفسیرقرطبی:۱/۱۲۳)

اورحضرت ابن زید رحمہ اللہ کہتے ہيں :تم اپنی بیویوں کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرتے رہواوربیویوں پر بھی ہے کہ اپنے شوہروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈریں۔ (تفسیر قرطبی: ۱/۱۲۴)۔ حضرت قتادہؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت کعبؓ کا یہ قول سنا ہے کہ قیامت کے دن عورت سے پہلے اس کی نماز کے متعلق سوال ہوگا پھر خاوند کے حقوق کے متعلق سوال ہوگا۔ اس لئے مردوعورت دونوں کو چاہئے کہ ایک دوسرے کے حقوق کوبحسن وخوبی اداکیاکریں۔

ایک دوسرے پر ظلم وستم کرنا: حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب سے نقل کرتے ہوئے ارشادفرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر اور اپنے بندوں پر ظلم کو حرام قرار دیاہے، پس بندوں کو چاہئے کہ ایک دوسرے پر ظلم وستم نہ کرے۔ (صحیح مسلم نمبر:۲۵۷۷)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ بے شک ایک ظلم قیامت کے دن بہت سارے ظلم کے برابر ہوجائیں گے۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر:۲۵۷۹)

پس میاں بیوی میں ہر ایک کادوسرے کے ساتھ کسی بھی طرح کاظلم وستم کرناجائز نہیں ہے۔ ظلم وستم کرنے کی بہت ساری شکلیں ہیں، مثلا جھگڑاکرنا،گالم گلوچ کرنا، مارپیٹ کرنا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر لعن طعن کرنا،شک کرنا،بیوی کا خرچہ نہ دینا،یاپوراخرچہ نہیں دینا، یاجہیز کامطالبہ کرنا، کسی بھی طرح کا بے بنیاد الزام لگانا ، اس کو اپنےمیکہ میں یاقریبی رشتہ داروں کے یہاں نہ جانے دینا،اس کو دینی احکام بجالانےسے روکنا، فیشن پرستی کاحکم دینا، یہ سب ظلم میں داخل ہے۔

بیوی کےساتھ لعن طعن اورگالم گلوج کرنا: کسی مسلمان خاص طور پر بیوی کے ساتھ گالم گلوچ کرنا اور اسے ذہنی اذیت دیناحرام ہے۔ جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:کسی مسلمان کو گالی دیناگناہ ہے اوراس سے جنگ کرنا کفر ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۱۶۱)آپؐ نے ارشاد فرمایا: تم میں وہ آدمی سب سے اچھاہے جو اپنی بیوی کے لئے اچھاہو۔ گویا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھاہونے کامعیار بیوی کے ساتھ حسن سلو ک کو قرار دیا۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر:۳۸۹۵)

حضرت حکیم بن معاویہ قشرہی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے پوچھااے اللہ کے رسول! بیوی کاکیاحق ہے؟ تو آپؐ نے جواب دیاکہ جب تم کھاؤ اسے بھی کھلاؤ،جب تم پہنو تو اسے بھی پہناؤ،اس کے چہرہ پر نہ مارو،اس کوبرانہ جانو، اور اسےصرف گھر ہی میں چھوڑو۔ (سنن ابوداؤد، حدیث: ۲۱۴۲)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت اختیارکرنے کی مردوں کووصیت کی ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم مجھ سےعورت سے متعلق وصیت حاصل کرو، کیوں کہ عورت پسلی سے پیداکی گئی ہے، اورپسلیوں میں اوپروالی پسلی ٹیڑھی ہوتی ہے،اگر تم کو اس سے فائدہ اٹھاناہے تو اٹھالو،اور اگر تم اس کو سیدھاکرناچاہوگے تو توڑدوگے،اوراگر اس کے حال پر چھوڑ دوگے تو ٹیڑھی ہی رہے گی، اس لئے تم عورتوں سے متعلق میری اس نصیحت کوقبول کرو۔ (صحیح بخاری:۳۳۳۱، مسندحمیدی: ۱۲۰۲)

دوسری جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والوں کو بہترین آدمی قراردیا، آپ نے کہاکہ تم سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے لئے اچھاہو،کیوں کہ ان کی ذہنی اورجسمانی کمزوری اورنزاکت کے باعث ان کے ساتھ نہایت ہی شفقت والامعاملہ کرناچاہئے۔ (سنن ترمذي: ۱۱۶۲، تحفۃ الاحوذی: ۴/۲۷۳)

بیوی کے ساتھ مارپیٹ کرنا: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشادفرمایاکہ اگرتمہاری بیویاں نافرمانی کریں تو پہلے تو ان کو سمجھاؤبجھاؤ، نہ مانیں تو بستر میں ان سے لاتعلقی برتو، پھربھی نہ سمجھیں تو انھیں ہلکی سی مار مار سکتے ہیں۔ (سورۃ النساء:۳۴)

اس آیت کریمہ میں چوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بیویوں کومارنے کی اجازت دی ہے،اس لیے لوگ اس پرخوب عمل کرتے ہیں، مگر جس مارکی اجازت دی گئی ہے، اس کی وضاحت حدیث میں ضرب غیرمبرح سے کی گئی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر فرمایا: اے لوگو! عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو،اس لیے کہ تم نے ان کو اللہ کے امان میں حاصل کیاہےاور اللہ کے ایک کلمہ(ایجاب وقبول) کے ساتھ ان کی شرمگاہیں تمہارے لئے حلال کی گئی ہیں، تمہارے لیے ان پر یہ حق ہے کہ تمہارے بستروں پروہ کسی کو آنے نہ دیں، پس اگر وہ اس طرح نازیبا حرکت کریں تو انھیں اس طرح ہلکی مار ماروکہ نہ سخت ہو اور نہ نشان پڑے، اور ان کا نان ونفقہ اور بودو رہائش کابہتر طریقہ پر انتظام کر نا تم پر لازم ہے۔ (صحیح مسلم:حدیث نمبر۱۲۱۸)۔

اس حدیث کے تحت علامہ نووی ؒ فرماتے ہیں کہ یعنی ایسی مار مارناجائز ہے جو سخت نہ ہو اور تکلیف دہ بھی نہ ہو۔ (شرح نووی علی صحیح مسلم: ۸/۱۸۴، بیروت)

دوسری روایت اس طرح ہے: حضرت عبداللہ بن زمعہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کوسختی سے منع فرمایاکہ تم میں سے کوئی اپنی بیوی کوغلام کی طرح کوڑے نہ مارے پھر اس کے ساتھ رات میں صحبت کرے۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۵۲۰۴)یعنی اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو غیرت دلائی کہ اگر تمہار ی بیوی سے تھوڑی بہت کوتاہی ہوجاتی ہے تو تم اسے مارنے لگتے ہو، اور پھرعجیب بات ہے کہ تم اس کے ساتھ جنسی خواہش پوری کرکے سکون حاصل کرتے ہو! لہٰذا تم کوشرم آنی چاہئے اور اس حرکت سے باز آجانا چاہیے۔ ان احادیث سے معلوم ہواکہ بیوی کے ساتھ سخت مارپیٹ کرناجائز نہیں ہے ۔

پٹائی کی حداوراس کاطریقہ: پٹائی کی کیفیت اورحدبیان کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے ارشادفرمایا: جب بیوی اپنے گھرکسی اجنبی کو بلائے تب ہی ان کو مارو۔ (صحیح مسلم:۱۲۱۸) غیرمبرح کی تشریح کے بارےامام احمدسے پوچھاگیاکہ غیرمبرح کیاہے؟ آپ نے جواب دیا کہ سخت نہ ہو،اورچہرہ پرنہ مارے، کیوں کہ مقصود تادیب ہے،نہ کہ ہلاک کرنا۔ (المغنی: ۷/۳۱۹) علامہ نووی ؒ فرماتے ہیں کہ ضرب مبرح سخت تکلیف دہ مارپیٹ کوکہتے ہیں۔ (شرح مسلم للنووی:۸/۱۸۴)امام فخرالدین رازی ؒاس آیت کی تفسیرمیں کہتے ہیں کہ بعض لوگوں کاکہناہے کہ رومال لپیٹ کر مارے، یا ہاتھ سے مارے، ڈنڈے یاکوڑے سے نہ مارے۔ بعض لوگوں نے کہاہے کہ مسواک سے مارے۔ آپ مزید فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اخف سے اشق کاحکم دیاہے، لہٰذا اگر اخف کے ذریعہ مقصودحاصل ہوجائےتواشق پرعمل کرنا جائز نہیں۔ (تفسیر رازی:۱۰/۷۲)

حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرمؐ نےفرمایاکہ جب تم میں سے کوئی لڑائی کرے تو چہرے پرمارنے سے بچے،دوسری روایت میں ہے کہ چہرے پر طمانچہ نہ مارے۔ (مسلم:۲۶۱۲) حضرت امام نووی ؒ اس حدیث کی شرح میں تحریر کرتے ہیں کہ اس ممانعت میں بیوی، خادم ، اور اولاد وغیرہ شامل ہیں۔ (نووی شرح مسلم: ۱۶/۱۶۵) عورت تو اشرف المخلوقات ہے، لہٰذا کسی بھی مرد کے لئے کسی بھی صورت میں عورت کے چہرہ پر مارنا جائز نہیں ہے؛ بلکہ گناہ کبیرہ ہے۔

خلاصہ یہ ہےکہ اگربیوی کسی اجنبی کوگھرمیں بلائے، یا اجنبی سےبات چیت کرےیابہت زیادہ نافرمانی کرے تو اولاً اسے سمجھایا جائے، نہ مانے تو بستر میں لاتعلقی برتی جائے، یا بستر ہی الگ کرلیاجائے پھر بھی نہ مانےتوسرزنش کے طورپر ہلکی مار مارنے کی گنجائش ہے۔ یادرہے کہ بیوی کو مارنانہ فرض ہے، نہ واجب اورنہ مستحب ہے، بلکہ نہ مارناافضل ہے۔ چنانچہ حضرت امام نووی ؒ نے اس حدیث کی شرح میں تحریر کیا ہے کہ بیوی یا خادم کو (فحش غلطی کرنے پر ) مارنے کی گنجائش ضرور ہے لیکن نہ مارنا ہی افضل وبہتر ہے۔ (شرح النووی علی مسلم: ۱۵/۸۴، ش) ملا علی قاری ؒ نے تحریر کیا ہے کہ بیوی اور خادم کو مارنے کی گنجائش ہے، مگرنہ مارنابہتر ہے ،اوران کے ساتھ عفوو درگزر کا معاملہ کرناہی بہتر ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح: ۹/۳۷۱۶)

رسول اللہؐ کااپنی بیویوں اورخادموں کے ساتھ معاملہ: نبی کریمؐ نے اپنی کسی بھی بیوی یا خادم کو ان کی کسی بھی غلطی پرنہ کبھی لعن طعن کیانہ ڈانٹا، اورنہ ماراہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کسی بیوی یا خادم کو ہاتھ سے بھی نہیں مارا،۔ (صحیح مسلم: ۲۳۲۸) اس لیے صبرکرنااولیٰ اورمستحسن ہے۔ صبر اور برداشت کرنے پر بھی ثواب حاصل ہوتاہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نےمسلمانوں کو صبر اورنماز کے ذریعہ مدد حاصل کرنے کاحکم دیاہے، اورصبرکرنے والے کی مدد اورمعیت کاوعدہ کیا ہے۔ (سورۃ البقرۃ: ۱۵۳)
٭٭٭

a3w
a3w