بہن کی عصمت ریزی کرنے والوں کو قتل کرنے والے بھائی کی رہائی کا مطالبہ زور پکڑنے لگا، حیران کن واقعہ
لوگوں کا کہنا ہے کہ عدالتوں نے اس کیس میں انصاف فراہم کرنے میں ناکامی کا مظاہرہ کیا۔ عوام کا غصہ اس بات پر ہے کہ ایسے مجرموں کو عدالتیں ضمانت پر رہا کرتی ہیں، جب کہ متاثرین اور ان کے خاندان انصاف کی امید میں سالوں انتظار کرتے ہیں۔
نئی دہلی: لوپریت، جس نے اپنی بہن کے ساتھ عصمت ریزی کرنے والے مجرموں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، اس وقت وہ زیر حراست ہے اور سوشل میڈیا پر اس کی رہائی کے مطالبات زور پکڑنے لگے ہیں۔ لوپریت کی کہانی نے عوام میں شدید غصہ اور انصاف کے نظام پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ لوپریت نے ایک ایسے نظام میں انصاف فراہم کیا جو اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہا۔
اس واقعہ کی ابتدا اس وقت ہوئی جب لوپریت کی بہن کے ساتھ اجتماعی ریزی کرنے والے ملزمین کو عدالت نے ضمانت پر رہا کر دیا۔ عدالت کے فیصلہ سے مایوس ہو کر لوپریت نے خود ان مجرموں کو سزا دینے کا فیصلہ کیا اور انہیں قتل کر دیا۔ اس واقعہ کے بعد لوپریت کو گرفتار کر لیا گیا، لیکن عوام کی ایک بڑی تعداد اس کی رہائی کا مطالبہ کررہی ہے اور اسے "حقیقی انصاف” کا ہیرو قرار دے رہی ہے۔
لوپریت کے کیس نے انصاف کے نظام پر تنقیدی نگاہیں ڈال دی ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ عدالتوں نے اس کیس میں انصاف فراہم کرنے میں ناکامی کا مظاہرہ کیا۔ عوام کا غصہ اس بات پر ہے کہ ایسے مجرموں کو عدالتیں ضمانت پر رہا کرتی ہیں، جب کہ متاثرین اور ان کے خاندان انصاف کی امید میں سالوں انتظار کرتے ہیں۔
اس کیس کے حوالے سے سوشل میڈیا پر "میا لارڈز” (عدلیہ کا طنزیہ حوالہ) کے خلاف بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں، جن پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ صرف خاص طبقہ یا مراعات یافتہ افراد کو مستقبل فراہم کرتے ہیں، جب کہ عام لوگوں کو انصاف سے محروم رکھا جاتا ہے۔
لوپریت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس نے ایک مظلوم بھائی کے طور پر اپنی بہن کیلئے انصاف حاصل کیا اور اسے ایک روشن مستقبل کا حقدار قرار دیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق، اگر عدالتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام ہوتے ہیں، تو لوگ خود انصاف لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
یہ بحث صرف لوپریت کے معاملہ تک محدود نہیں بلکہ وسیع پیمانے پر نظام انصاف کے حوالے سے اعتماد کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ عوام سوال کر رہے ہیں کہ جب عدلیہ انصاف فراہم نہیں کر پاتے تو متاثرین اور ان کے خاندان کیا کریں؟
یہ کیس اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ معاشرتی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ متاثرین کو بروقت انصاف مل سکے اور مجرموں کو سزا دی جا سکے۔