ایشیاء

پاکستان کے نئے فوجی سربراہ کے نام کا 2 دن میں اعلان

نئے فوجی سربراہ کے تقرر پر حکومت ِ پاکستان میں اختلافات شدت اختیار کرگئے ہیں۔ برسراقتدار اتحاد کے اعلیٰ قائدین اس اہم مسئلہ پر متضاد بیانات دے رہے ہیں۔

اسلام آباد: نئے فوجی سربراہ کے تقرر پر حکومت ِ پاکستان میں اختلافات شدت اختیار کرگئے ہیں۔ برسراقتدار اتحاد کے اعلیٰ قائدین اس اہم مسئلہ پر متضاد بیانات دے رہے ہیں۔

61 سالہ فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے جانشین کا تقرر انتظامی معاملہ ہے۔ وہ 29 نومبر کو سبکدوش ہوجائیں گے۔ قانون کی رو سے موجودہ وزیراعظم کو اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ 3 ٹاپ تھری اسٹار جنرلوں میں کسی ایک کا انتخاب کرے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے جمعہ کے دن اپنی حکومت کی حلیف جماعتوں سے مشاورت شروع کردی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ نئے فوجی سربراہ کے نام کا اعلان منگل یا چہارشنبہ کو کردیا جائے گا۔ ڈان نیوز نے ہفتہ کے دن یہ اطلاع دی۔ غور طلب ہے کہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کہہ چکے ہیں کہ مشاورت مکمل ہوچکی ہے اور نئے سربراہ کے نام کا اعلان ایک یا دو دن میں ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملہ میں تاخیر مناسب نہیں ہوگی۔ ایک اور اہم پیشرفت میں پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی) قائد آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی‘ فوج کے لئے پروموشن سسٹم میں یقین رکھتی ہے۔ فوجی سربراہ کے تقرر کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہئے ورنہ اس سے ادارہ کو نقصان پہنچے گا۔ سابق صدر نے کہا کہ تمام تھری اسٹار جنرلس مساوی اور باصلاحیت ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم آئین کی رو سے فوجی سربراہ کا تقررکریں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی‘ وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت میں مسلم لیگ نواز کی سب سے بڑی حلیف ہے۔ ڈان نے ذرائع کے حوالہ سے اطلاع دی کہ وزیراعظم شہباز شریف جو کووِڈ 19 کی وجہ سے فی الحال کورنٹائن میں ہیں‘ فوجی سربراہ کے تقرر پر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے فون پر بات چیت کرچکے ہیں۔

دونوں قائدین کی بالمشافہ ملاقات ایک دو دن میں متوقع ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے جمعہ کے دن کہا کہ نئے فوجی سربراہ کے تقرر کا پیپر ورک (کاغذی کارروائی) پیر کے دن شروع ہوگا اور منگل یا چہارشنبہ کو تقرر ہوجائے گا۔ طریقہ یہ ہے کہ فوج چند نام تجویز کرتی ہے اور وزیراعظم کو وزارت ِ دفاع کے توسط سے سمری بھیجی جاتی ہے۔

وزیراعظم نواز شریف حال میں لندن کا نجی دورہ کرچکے ہیں جہاں انہوں نے اپنے بڑے بھائی اور پارٹی سربراہ نواز شریف سے نئے فوجی سربراہ کے تقرر پر تبادلہ خیال کیا۔ اس سوال پر کہ آیا فوج اور حکومت ایک ہی پیج پر ہیں اور اگلا فوجی سربراہ کون ہوگا‘ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بتایا کہ حکومت سسٹم میں فوج کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کرسکتی۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی 75 سالہ تاریخ میں کئی فوجی مداخلتیں ہوچکی ہیں۔ اسی دوران سابق وزیراعظم عمران خان نے الزام عائد کیا کہ نواز شریف اگلے فوجی سربراہ کے تقرر کے معاملہ میں اثرانداز ہونا چاہتے ہیں۔

عمران خان جب اقتدار میں تھے تو اپوزیشن ان پر الزام عائد کرتی تھی کہ وہ اپنی پسند کا فوجی سربراہ لانے کی کوشش میں ہیں جو اپوزیشن قائدین کو نشانہ بنانے کے ان کے مبینہ ایجنڈہ کی تائید کرسکے۔ عمران خان جاریہ سال اپریل میں اقتدار سے محروم ہوگئے۔ اب ان کا الزام ہے کہ مخلوط حکومت اپنی پسند کا فوجی سربراہ لانا چاہتی ہے تاکہ لوٹی گئی دولت کی حفاظت ہو اورالیکشن جیتا جائے۔

a3w
a3w