محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔
٭ ہائیکورٹ کی نوٹس کے بعد پولیس انکار کرے گی۔
٭ پھر بھی ہائیکورٹ پولیس کو باز رہنے کا حکم دے گا۔
٭ رئیل اسٹیٹ معاملات میں پولیس عہدیداروں کی شمولیت ہوتی ہے۔
٭ وہ ایسی معاملتوں میں ایک فریق بن رہے ہیں۔
اکثر ایسی شکایتیں آتی رہتی ہیںکہ رئیل اسٹیٹ معاملات میں پولیس مداخلت کرتی ہے اور ایک فریق کو مجبور کرتی ہے ورنہ دھوکہ دہی کے معاملات میں ملوث کرکے گرفتاری کی دھمکیاں بھی دیتی ہے۔ ان میں اکثر معاملات ایسے ہوتے ہیں جن میں دوچار سال قبل کئے گئے معاہداتِ بیع پر عمل آوری کے لیے دھمکایاجاتا ہے۔ ایک کیس میں ایک صاحب نے اپنی زرعی اراضی موقوعہ معین آباد ایک شخص کو فروخت کرنے کا معاہدہ کیا۔ اس معاہدہ کو کئے ہوئے کئی سال گزرگئے۔ خریدار نے سات سال قبل کی قیمت پر معاہدہ کیا تھا اور وعدہ کیا تھا ایک ماہ کی مدت کے اندر مابقی رقم ادا کرکے رجسٹری کروالوں گا۔ اڈوانس کی رقم صرف پچاس ہزار روپیہ تھی۔ معاہدہ میں یہ بات درج تھی کہ اگرایک ماہ کے اندر مابقی رقم ادا نہ کی جائے تو فروخت کنندہ کو اختیار ہوگا کہ اڈوانس میں دی ہوئی رقم ضبط کرلے اور معاہدہ کو منسوخ کردے۔ معاہدہ میں یہ بات خاص طور پر لکھی ہوئی تھی کہ مابقی رقم مدت کے اندر ادا نہ کی گئی تو یہ معاہدہ منسوخ تصور کیا جائے گا۔ فروخت کنندہ نے انتہائی چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اردو۔ انگریزی اور کئی تلگو اخبارات میں اعلانِ خریدی کے اشتہار چھپوائے اور مجوزہ خریداروں کو متذکرہ اراضی کی خریدی سے باز رہنے کی وارننگ دی۔ اختتامِ مدت کے بعد فروخت کنندہ نے جب اپنی سات ایکر اراضی کو فروخت کرنے کا اشتہار دیا تو کوئی بھی خریدار نہیں آیا اور سب ہی نے کہا کہ آپ نے پہلے ہی اس اراضی کو فروخت کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ خریدار ایک طاقتور سیاسی لابی(زعفرانی) سے تعلق رکھتا ہے اوراس کے اثرات پولیس پر اس قدر ہیں کہ اس کی پہنچ اعلیٰ پولیس عہدیداروں تک ہے۔ کچھ دن اور گزرگئے۔ ایک دن اچانک پولیس عہدیدار پولیس گاڑی میں ان کے گھر پہنچے اور کہا کہ انسپکٹر صاحب نے آپ کو طلب کیا ہے۔ یہ صاحب قانون سے بخوبی واقف ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا میں کسی جرم میں ملوث ہوں یا میرے خلاف کوئی ایف آئی آر رجسٹر ہوا ہے۔ پولیس والوں نے کہا کہ وہ سب ہم کو معلوم نہیں۔ آپ کو ہمارے ساتھ چلنا ہے۔ وہ صاحب ایک ایڈوکیٹ کے ساتھ پولیس اسٹیشن پہنچے۔ انسپکٹر نے کہا کہ اچھا ہوا آپ آگئے۔ ایک ایڈوکیٹ کی موجودگی کا اثر یہ تھا کہ انسپکٹر نے شرافت سے بات کی۔ پھر کہا کہ بھائی آپس میں تصفیہ کیوں نہیں کرلیتے۔ شکایت کرنے والے کے پیسے آپ کے پاس ہیں وہ اب بھی معاہدہ کی رقم پر رجسٹری کرنے کو تیار ہے۔ ان کے انکار پر پولیس آفیسر نے کہا کہ ٹھیک ہے مجھے قانونی کارروائی کرنی پڑے گی۔ آپ اب جاسکتے ہیں۔
ایڈوکیٹ کے مشورہ کے مطابق دوسرے ہی دن ہائیکورٹ میں ایک رٹ درخواست پیش کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ ایک منسوخ شدہ معاہدۂ بیع پر عمل آوری کیلئے پولیس عہدیدار ہراساں کررہا ہے۔ درخواست کے ساتھ تمام دستاویزات کی نقولات منسلک کی گئیں۔ عدالت نے نوٹس جاری کرتے ہوئے انسپکٹر آف پولیس کو طلب کیا ۔ انسپکٹر آف پولیس کا رویہ بالکل عجیب تھا۔ اس نے صاف انکار کردیا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ درخواست میں اس پولیس جیپ کی تصویر بھی تھی جو درخواست کے گھر کے سامنے کھڑی تھی۔
عدالت نے پولیس عہدیدار کی سخت سرزنش کی اور کہا کہ تم پر الزامات کی بنیاد نہیں۔ اگر تم نے زیادتی کی ہوتی تو تمہارے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کا حکم جاری کیا جاتا۔
پھر اس کے بعد پولیس اور اس بدمعاش رئیل اسٹیٹ ایجنٹ نے فروخت کنندہ کے گھر کا رخ تک نہیں کیا۔ خرید سے انکار فروخت کنندہ کے لئے نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوئی کیوں کہ اس عرصہ میں اراضیات کی قیمت میں بیس گنا اضافہ ہوگیا ہے اور ابھی تک وہ اراضی فروخت نہ ہوسکی کیوں کہ فروخت کنندہ از خود اس اراضی کو ڈیولپ کرنا چاہتے ہیں۔
دوسرے کئی بہت سارے معاملات ہیں۔ مثلاً قرض کی وصولی۔ بعض معاملات میں پولیس قرض وصولی ایجنٹ کا رول ادا کررہی ہے۔ جس کے خلاف شکایت کی جائے اس کو طلب کیا جاتا ہے اور گھنٹوں بٹھائے رکھا جاتا ہے۔ وارننگ دی جاتی ہے کہ ایک مقررہ مدت کے اندر اگر پیسے واپس نہ ہوئے تو زبردست کارروائی کی جائے گی۔ دور افتادہ پلاٹس پر کچھ غیر سماجی عناصر پولیس کی اعانت سے قبضہ کرلیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں نے یہ اراضی نوٹری پر خریدی تھی۔ جب قابض کے خلاف شکایت کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ آپ اپنے ڈاکیومنٹس لے کر آئیے۔ ناجائز قابض کو بھی طلب کیا جاتا ہے۔ دونوں کے دستاویزات دیکھے جاتے ہیں۔ اتفاقاً دونوں دستاویزات کی اساس نوٹری معاہدۂ بیع ہوتا ہے۔ حقیقی مالک سے کہا جاتا ہے کہ دیکھئے اس شخص کی نوٹری آپ کی نوٹری سے قدیم ہے۔ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ آپ لوگ آپس میں تصفیہ کرلیجئے۔ اچھا خاصا قانونی مالک اپنی زمین سے ہی بے دخل ہوجاتا ہے۔
پرانے دستاویزات(بانڈ پیپر) بہ آسانی دستیاب ہیں جبکہ ان کی قیمت بھاری ہوتی ہے۔ وقت کے ساتھ کاغذ کی رنگت بھی بدل جاتی ہے۔
ان جعلسازوںکو کاغذات کا رنگ بدلنے میں مہارت حاصل ہے ۔ سادہ ہلکی چائے میں ڈبوکر کاغذ کا رنگ بدل دیتے ہیں۔ اُدھر دستاویز فروش کچھ ایسی کارستانی کرتا ہے کہ گویا کچھ سال پہلے یہ بانڈ پیپر اسی کی دوکان سے فروخت ہواتھا۔
یہ بات دیکھی گئی ہے کہ بڑے بڑے معاملات میں خصوصاً جبکہ قبضہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اعلیٰ پولیس عہدیدار اورریوینیو عہدیدار ایک فریق رہتے ہیں۔ فرضی انجنکشن آرڈر اور انجنکشن آرڈر کی اساس پر قبضہ ۔ کوئی بھی حکومت اور پولیس سے لڑ نہیں سکتا۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس کی ہمت اس قدر پست ہوجاتی ہے کہ وہ سیدھے راستے یعنی ہائیکورٹ سے رجوع نہیں ہوتا کیوں کہ اس کے دل میں خوف سمایا ہوارہتا ہے کہ کہیں یہ لوگ میرے بیٹوں سے کوئی انتقام نہ لیں۔
ایک ایسا عجیب واقعہ سامنے آیا تھا کہ ایک پلاٹ کے قبضہ کے تنازعہ پر متعلقہ پولیس عہدیدار نے دستاویزت طلب کئے اورانہیں اپنی تحویل میں لے لیا اور واپس کرنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ اس کے خلاف ہائیکورٹ میں رٹ درخواست پیش کی گئی۔ شام کے وقت گورنمنٹ ایڈوکیٹ کے فون کے بعد اس نے گھر آکر دستاویزات واپس کردیئے۔
سادے کپڑوں میں آیا تھا۔ دستاویزات واپس کرتے وقت اس نے ویڈیو گرافی بھی کروائی تھی۔ جب رٹ درخواست سماعت کے لئے پیش ہوئی تو درخواست گزار کے ایڈوکیٹ نے کہا کہ کل شام دستاویزات واپس کردیئے گئے لہٰذا رٹ درخواست کو مسترد کردیاجائے۔
جب تک عدالت کا دبدبہ ہے‘ پولیس بے بس ہے۔ پولیس اگر قانون و ضوابط کے مطابق کام کرے تو کوئی بات ہی نہیں۔ لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی شخص کا گمراہ لڑکا کسی جرم میں ملوث ہوکر فرار ہوجاتا ہے۔ یہ معصوم شخص بلا وجہ معقول پولیس ظلم کا شکار ہوتا ہے۔ پولیس دندناتے ہوئے اس کے گھر آتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ چوبیس گھنٹے کے اندر اپنے بیٹے کو پولیس اسٹیشن لے کر آؤ ورنہ تمہارے دوسرے بیٹوں کو ہم پولیس اسٹیشن میں اس وقت تک رکھیں گے جب تک کہ تم اصلی مجرم کو ہمارے سامنے پیش نہ کرو۔
مجرم کو تلاش کرنا پولیس کاکام ہے۔ بیٹے کے جرم کی سزا باپ اور اس کے بھائیوں کو نہیں دی جاسکتی۔ ایسے ہی واقعات کی صورت میں بذریعہ رٹ درخواست پولیس کو ہراسانی سے باز رکھا جاسکتا ہے۔ پولیس اگر لاقانونیت پر اتر آئے تو اسے صرف قانون اور عدالت کے احکامات ہی ڈراسکتے ہیں۔
اگر کسی بھی طرح سے آپ پر پولیس کوئی دباؤ ڈال رہی ہے توعدالت سے رجوع ہونے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے ورنہ بہت بڑے نقصان کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰