سیاستمضامین

اراضیات کے حقِ ملکیت کا فیصلہ صرف عدالت کرسکتی ہے ریوینیوڈپارٹمنٹ کویہ اختیار حاصل نہیں : سپریم کورٹریوینیو ریکارڈ میں کسی کے بھی نام کی غلط ENTRY کے خلاف سیول کورٹ میں کیس دائر کیاجاسکتا ہے۔

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔

٭ سپریم کورٹ کا فیصلہ مورخہ21؍دسمبرانقلابی تبدیلیاں لائے گا۔
٭ تحصیلدار ۔ آر۔ڈی۔او اور کلکٹر کے احکامات سیول کورٹ میںچیلنج کئے جاسکتے ہیں۔
٭ ریوینیو عہدیداروں اور مقامی پیروکاروں کو سازبازکا موقع نہیں ملے گا۔
٭ متاثرہ حضرات عدالت سے رجوع ہوسکتے ہیں۔
٭ لیکن حکومت کو60 دن کی نوٹس دینا ہوگا۔
21؍دسمبر2023ء کی تاریخ کو سپریم کورٹ آف انڈیا نے ایک انقلابی فیصلہ صادر کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی اراضی کے ریوینیو ریکارڈز حقِ ملکیت یعنی TITLE نہیں ہیں۔ گویا کوئی بھی شخص محض اس بنیاد پر کہ اس کا نام اراضی کے ریوینیو ریکارڈ (پہانی ۔ پاس بک۔ دھرنی پورٹل) میں درج ہے ‘ اراضی کی ملکیت کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ گویا ریکارڈ میںادخال اراضی کے حقیقی مالک کو اس کے حق ملکیت سے محروم نہیں کرسکتے۔
ایسے کئی بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں مثالیںموجود ہیں جن میں اراضی کو حقیقی مالکین کو ان کے حقِ ملکیت اور قبضہ سے محروم کردیا گیا اور ان کے نام کی جگہ دوسرے غیر مجاز لوگوں کے نام شامل کرلئے گئے اور ان کے نام پہانی میں داخل کرکے ان کے نام پٹہ جاری کردیاگیا اور ان لوگوں نے اراضی دیگر افراد کو فروخت کردیں اورنئے خریداروںکے نام ریکارڈ میں شامل کردیئے گئے۔
آج کل صورت حال یہ ہے کہ ریکارڈ سے باہر کئے گئے حقیقی مالکینِ اراضی کو ریوینیو قانون کے تحت آر ڈی او اور جوائنٹ کلکٹر کے روبرو اپیل کرنا پڑتا ہے۔
ریوینیو عدالتوں میں من مانی اور دھاندلیاں روز کا معمول ہیں۔ اس ضمن میں قبل ازیں تفصیل سے ایک مضمون لکھا گیا تھا جس میں ایسی دھاندلیوں کو طشت از بام کیا گیا تھا کہ بعض صورتوں میں کس طرح ناانصافیاں بلکہ دھاندلیاں ہوتی ہیں ۔ آج کل اراضیات کی قیمت بعض صورتوں میں کروڑوں روپیہ فی ایکر ہے۔ ہر کوئی چاہے ریوینیو عہدیدار ہو یا مقامی وکیل سب کے سب اس نازک صورت کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بعض صورتوں میں ایسا بھی ہوا ہے جس کی شکایتیں بھی آئی ہیں کہ آرڈی او صاحب یا جوائنٹ کلکٹر نے وکیل صاحب سے کہہ دیا کہ ‘ صاحب آپ فیصلہ لکھ کرلائیے ۔ دستخط اور مہر لگانا ہماراکام ہے ۔ مظلوم و مجبورمالک ِاراضی کے پاس صرف ایک صورت رہ جاتی ہے کہ وہ کلکٹر کے فیصلہ کے خلاف ہائیکورٹ میںWrit درخواست پیش کرے اور ایسی رٹ درخواستیں کم از کم دس پندرہ سال تک زیر التواء رہتی ہیں اور اس وقت تک اراضی کئی بار فروخت ہوتی ہے اور ریوینیو ریکارڈ میں نت نئے ناموں کا شمول ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے مزید الجھنیں بڑھ جاتی ہیں اور حقیقی مالک محروم ہوجاتا ہے۔
دوسری اور سب سے بڑی مشکل اس وقت ہوتی ہے جب پٹہ دار کا انتقال ہوجاتا ہے جس کے کئی بیٹے بیٹیاں ہوتی ہیں۔ آپسی تال میل اور سازش کی وجہ سے پٹہ بیوہ کے نام جاری کیا جاتا ہے اور پھر بیوہ اپنی اراضی کو فروخت کردیتی ہے ۔ دیگر ورثاء محروم ہوجاتے ہیں ۔کبھی کبھی صرف ایک یا دو بیٹیوں کے نام پرپٹہ جاری کردیاجاتا ہے اور بیٹیاں محروم کردی جاتی ہیں۔ اب جبکہ تحصیلدار اور رجسٹرار کے فرائض صرف تحصیلدار کررہا ہے تو کرپشن اور بدعنوانی اپنے بامِ عروج پر پہنچ گئی ہے۔ متذکرہ فیصلہ کا لب لباب یہ ہے کہ محضMutation اور پاس بک کی اجرائی حقِ ملکیت کے لئے کافی نہیں کیوں کہ میوٹیشن کی وجہ سے حقیقی مالک کے حقِ مالکانہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور محروم وارث کو حق حاصل ہوگا کہ وہ اس ناانصافی کے حلاف مقامی سیول کورٹ سے بذریعہ Original Suit رجوع ہو۔ اور گورنمنٹ ‘ کلکٹر ‘ آر ڈی او اور غیر مجاز افراد کو Defendants بنائے ‘ عدالت سمن جاری کرے گی اور تمام ریوینیو ریکارڈ طلب کرے گی۔ لیکن حکومت کے خلاف دعویٰ کرنے سے قبل 60دنوں کی قانونی نوٹس کا اجراء ضروری ہے جو تمام Defentants کے نام جاری کرنا ضروری ہے۔
اس مرحلے کے بعد فیصلہ آئے گا جو آج کل ایک دیڑھ سالہ عرصہ میں آرہا ہے۔ فیصلہ کے بعد ڈسٹرکٹ کورٹ میں اپیل سوٹ دائر کرنا پڑے گا جو شائد ایک سال سے کم عرصہ میں ختم ہوجائے گا۔ سیکنڈ اپیل کا امکان بالکل نہیں رہے گا اور اگر اپیل دائر کی بھی جائے تو ابتدائی مرحلہ سماعت پر ہی مسترد کردی جائے گی کیوں کہ فیصلوں میں ایک زبردست قانونی نقص کو ثابت کرنا پڑے گا۔ اس نئے فیصلہ کے بعد صورت حال بالکل بدلی ہوئی ہوگی۔
اگر آپ کا کیس مندرجہ ذیل تمثیلات سے میل کھاتا ہو تو آپ فوری طور پر کمر بستہ ہوسکتے ہیں تاکہ آپ کو انصاف حاصل ہوسکے۔
-1 آپ کوپتہ ہے کہ آپ کی آبائی زمین ایک گاؤں میں ہے ۔ جب آپ متعلقہ تحصیل جاتے ہیں تو پٹواری آپ سے کہتا ہے کہ آپ کے سروے نمبر میں کسی دوسرے شخص کا نام ہے ۔ اب آپ اس اراضی کے مالک نہیں۔
-2 آپ کے والد صاحب کی زمین ہے ۔ ان کا انتقال ہوئے کئی سال ہوگئے۔ آپ والد صاحب کے وارث ہیں۔ جب آپ جاکر ریکارڈ دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آپ کے بھائی صاحب نے یا بہن بہنوئی نے اس زمین کو اپنے نام پر کروالیا ہے۔
-3 اس نام کی تبدیلی کی کارروائی میں آپ کو کوئی نوٹس نہیں دی گئی۔ ساری کارروائی خاموشی سے کی گئی ۔ آپ کے مزید استفسار پر پتہ چلا کہ جب آپ کے بھائی صاحب نے یا کسی اور شخص نے اراضی کے مالکانہ حقوق اور قبضہ کی تبدیلی کی درخواست دی تو نوٹس کو آفس کے نوٹس بورڈ پر چسپاں کردیا گیا اور گاؤں میں ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ فلاں شخص نے پٹہ کی تبدیلی کی درخواست دی ہے۔ کسی کو بھی اعتراض ہو تو پندرہ دن بعد آفس سے رجوع ہو۔
ڈھنڈورا پیٹنا یا Beat of Tomtom کا رواج آج بھی جاری ہے۔
کمپیوٹر کے دور میں یہ فرسودہ طریقہ آج بھی جاری ہے جو محض ایک چھلاوہ ہے جس سے ضابطہ کی تکمیل ہوتی ہے جبکہ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے ۔ روزِ مقررہ کو ہی پٹوں کی تبدیلی ہوجاتی ہے اور حقیقی مالک محروم رہ جاتا ہے۔ جیسے ہی پٹہ پاس بک جاری ہوتی ہے اسے فروخت کردیاجاتا ہے اور خریدار کوئی نیا مالک ہوتا ہے جو کہ دولت اور سیاسی رسوخ کا حامل ہوتا ہے۔ یہ دھاندلیاں روز کا معمول ہیں۔
ساری بحث کا حاصل یہ کہ محض Mutation کی بناء پر حقیقی مالک مالکین میں سے کسی ایک کو حقِ ملکیت سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ صرف ایک موثر چارۂ کار یہ رہ جاتا ہے کہ ریوینیو ریکارڈ کی اساس پر حکومت کو زیر دفعہ80 ضابطۂ دیوانی نوٹس جاری کی جائے اور بعد اختتامِ مدت مقدمہ دائر کیا جائے۔
ایک دوسری بات جو انتہائی ضروری ہے اس کا اظہار اس طرح کیاجاسکتا ہے کہ سیول مقدمہ دائر کرتے وقت بھاری کورٹ فیس ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ آپ اپنے نقصانات کا تخمینہ خود کرسکتے ہیں اور صرف ایک لاکھ روپے کے تخمینہ پرمعمولی کورٹ فیس ادا کرکے مقدمہ کا آغاز کرسکتے ہیں۔ کورٹ فیس بہت ہی معمولی ہوگی۔ تخمینہ کے لئے سرکاری قیمت یا بازاری قیمت ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں۔ ورنہ کوٹ فیس لاکھوں روپیہ ہوسکتی ہے جس کو ادا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
جب سیول کورٹ میں مقدمہ دائر ہو اور مقدمہ حق بجانب ہو تو فریقِ ثانی پر عدالتی سمن بجلی بن کر ٹوٹے گا اور اسے اپنی حقیقت کا پتہ چل جائے گا۔ اس پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ وہ مقدمہ ہارجائے گا کیوں کہ اس کا کیس بہت ہی کمزور بنیاد پر ہوگا اور اس طرح مصالحت کے لئے تیار ہوجائے گا۔ ایسی صورت پیدا کرنے کے لئے محروم افرادکو ہمت سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اگر مقدمہ حقیقی بنیاد پر ہو تو کسی سے خوف کھانے کی ضرورت نہ ہوگی۔
سوال:- حیدرآباد سے 45کلومیٹر دور لبِ سڑک ہماری زرعی اراضی موازی30ایکر ہے جس پر کچھ غیر مجاز افراد نے قبضہ کررکھا ہے ‘ جب ہم جاکر دیکھتے تو کوئی نظر نہیں آتا۔ ہم لوگوں نے اراضی کی حصار بندی تاروں سے کی ۔ کچھ دن بعد گئے تو حصار کو توڑ دیا گیا ۔ ہم نے پولیس سے شکایت کی تو معائنہ کیاگیا‘ کچھ انجان لوگوں کے خلافFIR جاری ہوا۔ اراضی بہت اچھی ہے ۔ قابل کاشت ہے۔ ایک باؤلی بھی ہے لیکن زراعت نہیں ہوتی۔ آخر کار ہم لوگوں نے اراضی کو فروخت کرنا چاہا تو کوئی بھی خریدار نہیں آیا۔ ہمیں پتہ چلا کہ مقامی بہت بڑا بی جے پی کا لیڈر اس زمین کو حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور جو کچھ بھی ہورہا ہے اسی کی وجہ سے ہے ۔ اس کا اثر و رسوخ بہت بڑا ہے ۔ پولیس بھی اس کے اثر و رسوخ سے خوفزدہ ہے۔
کچھ دنوں بعدایک لیڈر قسم کا آدمی ہمارے گھر آیا اور کہنے لگا کہ ہم آپ کی زمین کو ڈیولپ کرکے پلاٹس بناکر فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم آپ سے 50:50 کی اساس پر معاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ ڈیولپمنٹ ۔ اندرونی سڑکوں کی تعمیر۔ اجازت کی لاکھوں روپیہ فیس ہم ادا کریں گے ۔ آپ کو ہمارے ساتھ دفتر چلنا ہے اور دستخط کرنا ہے۔ ہم آپ سے معاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم کوئی اڈوانس رقم ادا نہیں کریں گے البتہ تمام اخراجات ہم کریں گے۔ آپ کی بے کار پڑی ہوئی اراضی فی مربع گز کے حساب سے فروخت ہوگی۔ اگر آپ کو یہ شرط منظور ہے تو ہم سے ملئے ورنہ آپ کی زمین کبھی نہیں فروخت ہوسکتی۔ بھی اخراجات ہوں گے اس میں آپ کا نصف اور میرا نصف ہوگا اور یہ رقم آپ پلاٹس فروخت کرکے دیں گے۔
ہم ایک عجیب قسم کی فکر میں پڑگئے ہیں۔ کریں تو کیا کریں اور نہ کریںتو کیا نہ کریںتو کیا۔ وہ شخص معاہدہ کی رجسٹری بھی نہیں کرنا چاہتا۔
ہم نے ایک ایڈوکیٹ صاحب سے رائے طلب کی۔یہ مقامی ایڈوکیٹ ہیں اور جونیر سیول جج کورٹ میں اچھی پریکٹس کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہت ہی خطرناک شخص ہے۔
اس طریقہ سے اس نے کئی زمینات کو ہڑپ لیا ہے۔ اس کے پولیس اور اعلیٰ عہدیداروں سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ اس سے ٹکرلینا آسان نہیں۔ زمین کے اطراف کوئی آبادی نہیں۔ وہاں رہنا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔ ہمارے پاس پٹہ پاس بک اور دھرنی سرٹیفکیٹ ہے لیکن یہ سب کسی کام کے نہیں۔ آپ سے اس ضمن میں رائے طلب کی جارہی ہے۔
جواب:- آپ کو ڈرنے اور فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ حیدرآباد سے شائع ہونے والے انگریزی اور تلگو اخبارات میں اراضی برائے فروخت کااشتہار شائع کیجئے۔ آپ کو کئی ایسے طاقتور خریدار مل جائیں گے جو اس نام نہاد لیڈر سے کئی گنا طاقتور ثابت ہوں گے۔ آپ بے خوف ہوکر اپنی آبائی اراضی کو فروخت کردیجئے۔ آپ کو معقول قیمت مل جائے گی۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰