مسعود ابدالی
برازیل کے صدر لوئز لولا ڈی سلوا نے غزہ پر اسرائیل کے حملے کو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس منظم فوج کا عورتوں اور بچوں پر دھاوا قرار دیا تھا۔ اب معاملہ مزید آگے بڑھ گیا ہے اور 18 مارچ سے اسرائیلی فوج شمالی غزہ میں شفا اسپتال کے جاں بلب مریضوں اور اُن کی دیکھ بھال کرنے والے فاقہ زدہ طبی عملے سے لڑرہی ہے۔ ہفتے کے روز اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے عسکری ترجمان نے شفا اسپتال آپریشن کو اسرائیلی فوج کی کامیاب ترین کارروائی قرار دیا جس میں سیکڑوں ”دہشت گرد“ مارے گئے اور 600 کے قریب ”جنگجوئوں“ کو گرفتار کیا گیا۔ مارے جانے والے کسی بھی دہشت گرد کی تصویر یا نام شائع ہوا اور نہ ہتھیار ٖڈالنے والے جنگجوئوں کی کوئی تفصیل۔ صحافیوں کو شفا اسپتال کے قریب جانے کی اجازت نہیں۔ اس کا مرکزی دروازہ ٹینکوں کی گولہ باری سے تباہ ہوگیا اور سرجیکل یونٹ کو ڈرون سے آتش گیر مادہ پھینک کر جلادیا گیا۔ حملے کے وقت اسپتال میں 30 ہزار متاثرین نے پناہ لی ہوئی تھی۔ بمباری و گولہ باری سے جان بچاکر باہر بھاگنے والے یہ بدنصیب، اسرائیلی فوج کا نشانہ بنے اور انھیں دہشت گردوں میں شمار کرلیا گیا۔ امریکہ سمیت دنیا کے کسی بھی ملک نے اسپتال پر حملے کو روکنے کی کوشش تو دور کی بات.. اس کی مذمت بھی نہیں کی۔ ابلاغِ عامہ کے مغربی ادارے تل ابیب سے شفا آپریشن کی خبریں اس انداز میں دے رہے ہیں جیسے اسرائیل نے بڑی چھائونی فتح کرلی ہے۔
امریکی صدر رمضان سے پہلے جنگ بندی کے لیے پُرعزم تھے، لیکن نصف رمضان گزر جانے کے بعد بھی امن کا دور دور تک امکان نہیں۔ اور یہ ہو بھی کیسے، کہ جب اسرائیل کو مریضوں سمیت نہتے اہلِ غزہ پر حملے کی نہ صرف مکمل آزادی ہے بلکہ انسانی ذبیحے کے لیے خوفناک ہتھیاروں سے لدے کم از کم تین طیارے روزانہ تل ابیب اتر رہے ہیں۔ قیامِ امن کی تین قراردادوں کو ویٹو کرنے کے بعد چچا سام نے سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کی جس میں اہلِ غزہ کو جنگ کا موردِ الزام ٹھیراتے ہوئے اُن سے قیدیوں کی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ اور اسرائیل سے جنگ بندی کی ”درخواست“ کی گئی تھی۔ روس اور چین نے امریکی قرارداد کو ویٹو کردیا۔ سلامتی کونسل میں روس کے نمائندے ویسلی نیبیزیا (Vasily Nebenzya)نے کہا کہ امریکی تحریک اسرائیل کو نسل کُشی کے الزام سے بچانے کی ایک کوشش تھی۔
کہنے کو امن کے لیے بھرپور کوششیں ہورہی ہیں لیکن بات چیت کا مرکزی نکتہ قیدیوں کی رہائی کے لیے عارضی جنگ بندی ہے جو مستضعفین کو منظور نہیں۔ امریکی وزیرخارجہ نے اپنے حالیہ دورے میں مصر، قطر اور سعودی حکمرانوں پر زور دیا کہ وہ قیدیوں کی رہائی کے عوض عارضی جنگ بندی پر اہلِ غزہ کو مجبور کریں۔ اسرائیلی ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی وزیرخارجہ کے اصرار پر قطری حکومت نے مستضعفین کو دھمکی دی ہے کہ اگر امن تجاویز قبول نہ کی گئیں تو ان کے رہنمائوں کو قطر سے نکال دیا جائے گا۔ ایک طرف اہلِ غزہ پر امریکہ، مصر اور قطر کا دبائو، دوسری جانب اسرائیل کے عبرانی چینل 12 کے مطابق وزیراعظم نیتن یاہو نے قطر میں مذاکرات کرنے والے وفد کے اختیارات محدود کردیے، ساتھ ہی بی بی نے ایک نادر شاہی حکم کے ذریعے اسرائیلی محکمہ اندرون ملک سلامتی شاباک (Shen Beit)کے اہلکاروں کے امریکی ہم منصبوں سے ملنے پر پابندی لگادی۔ ٹائمز آف اسرائیل نے 23 مارچ کو بتایا کہ ”بے اختیاری“ کی بنا پر موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنی المعروف دادی نے وفد سے الگ ہونے کی خواہش ظاہر کی ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ شفا اسپتال ”فتح“ کرنے کا مقصد رفح پر حملے کے لیے متوقع ردعمل کا اندازہ کرنا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم مطمئن ہیں کہ بے اماں مریضوں کا قتلِ عام جب دنیا نے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیا تو رفح کے 35 لاکھ انسانوں کو روند ڈالنے پر بھی معاملہ گہری تشویش کے اظہار سے آگے نہیں بٖڑھے گا۔ سخت بیانات پر وضاحت نما سجدئہ سہو کا آغاز ہوچکا ہے۔ امریکی مشیرِ سلامتی جیک سولیون صدر بائیڈن کے حالیہ بیان کی وضاحت کرتے ہوئے ممیائے کہ امریکی صدر نے رفح پر حملے کی صورت میں اسرائیل کو برے انجام کی دھمکی نہیں دی۔
اسرائیلی سفاکی پر مغربی دنیا میں تشویش بڑھ تو رہی ہے لیکن بیداری کی رفتار بہت سست ہے۔ گزشتہ ہفتے یورپی یونین کے وزیر خارجہ جوزف بوریل نے یورپی وزرائے خارجہ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کررہا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ کھلی چھت کا جیل خانہ اب دنیا کے سب سے بڑے کھلے قبرستان میں تبدیل ہوگیا ہے۔ پیر (18مارچ) کو کینیڈین ایوانِ نمائندگان نے 117 کے مقابلے میں 204 ووٹوں سے ایک قرارداد منظور کرلی جس میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے اسلحے کے بین الاقوامی قانون کے مطابق استعمال کی تحریری ضمانت ملنے تک تل ابیب کو اسلحے کی فروخت روک دی جائے۔ اس کے دوسرے دن وزیرخارجہ محترمہ میلینی جولی نے اعلان کیا کہ کینیڈا سے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی بند کردی جائے گی۔ کچھ عرصہ پہلے ہالینڈ کی عدالتِ عالیہ نے غزہ میں استعمال ہونے والے F-35طیاروں کے پرزوں کی برآمد پر پابندی لگادی تھی۔ امریکہ میں سارا ردعمل سیاسی نوعیت بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے الفاظ میں ووٹ بٹورنے کا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کو خوف ہے کہ اگر ناراض مسلمان ان کی جانب واپس نہ آئے تو نومبر کے انتخابات میں صدر بائیڈن شکست کھا سکتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ڈیموکریٹک پارٹی کے سو سے زیادہ ترقی پسند یہودی مالی معاونین نے صدر بائیڈن کے نام ایک خط میں اسرائیل کی غیر مشروط حمایت ترک کردینے پر زور دیا۔ یہ معاونین پارٹی کو کروڑوں ڈالر چندہ دیتے ہیں۔ خط میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ اگر امریکی مسلمانوں کی ناراضی ختم نہ کی گئی تو انتخابات میں شکست ان کا مقدر ہوگی۔ مسلم قیادت نے صدر بائیڈن، گورنروں اور رئوسائے شہر (Mayors) کی افطار پارٹیوں کا بائیکاٹ کردیا ہے۔ رہنمائوں کا کہنا ہے کہ جب اہلِ غزہ کو افطار کے لیے دوگھونٹ پانی میسر نہیں تو ہم پُرتکلف افطار میں کیسے شرکت کریں؟
غزہ حملے کو اسرائیل 7 اکتوبر کی اُس کارروائی کا ردعمل قرار دیتا ہے جس میں اہلِ غزہ نے سمندر سمیت تینوں جانب سے اسرائیلی فوج کو نشانہ بنایا۔ لیکن اب جو اطلاعات آرہی ہیں ان کے مطابق ہیکل سلیمانیؑ کی تعمیرِنو کے لیے مسجد اقصیٰ اور گنبدِ صخرا کی متوقع بے حرمتی پر مشتعل ہوکر یہ کارروائی کی گئی۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے اہلِ غزہ کے ترجمان نے حملے کے سو دن مکمل ہونے پر کہا تھا کہ ”قربانی کے لیے سرخ گائیں ہماری مقدس سرزمین تک آچکی ہیں۔“
اس کی مزید تفصیل اس ماہ کے آغاز میں امریکی ٹیلی ویژن CBS پر نشر ہوئی۔ اس معاملے کے پس منظر پر چند سطور:
یروشلم کی پہلی عبادت گاہ 957 قبل مسیح، عبادت گاہِ سلیمانؑ (ہیکلِ مقدس یا ہیکل سلیمانیؑ) کے نام سے قائم ہوئی جسے 587 قبل مسیح بابل کے بادشاہ بخت نصر (Nebuchadnezzar II)نے ڈھادیا۔ ہیرووِ اعظم نے 516 قبل مسیح، یہ عبادت گاہ اسی مقام پر دوبارہ تعمیر کروائی جسے دوسری عبادت گاہ یا بیت المقدس ثانی کہا گیا لیکن اس کا مشہور نام عبادت گاہِ ہیرود ہے۔ رومی جرنیل ٹائٹس (Titus)نے 70 عیسوی میں اس عبادت گاہ کو جلادیا۔ جس دن یہ المیہ پیش آیا وہ یہودی کیلنڈر کے آوو(AV)مہینے کی نویں تاریخ تھی۔ اسی بنا پر یہودی اس دن کو Tisha B’Avیا ‘نوکا نوحہ کہتے ہیں۔ اس ماتمی تہوار پر 24 گھنٹے کا روزہ رکھا جاتا اور اجتماعی استغفار کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
توریت یا عہد نامہ قدیم (Old Testament) المعروف عبرانی انجیل کے باب گنتی (Number)کے مطابق ”خداوند نے ایک ایسی سرخ بچھیا (Heifer)قربان کرنے کا حکم دیا تھا جس سے کبھی کوئی مشقت نہیں لی گئی ہو، اور جس میں نہ کوئی نقص یا داغ ہو“۔ اس سے ملتا جلتا قصہ سورۃ البقرہ کی آیت 60 سے 67 میں بھی بیان ہوا ہے۔
حضرت سلیمانؑ نے عبادت گاہ کی تعمیر کے بعد اس کے تقدس، گئوپرستی کی حوصلہ شکنی اور توحید کی علامت کے طور پر سرخ بچھیا قربان کی تھی۔ اُس کے بعد سے سرخ بچھیا کی قربانی نہیں ہوئی اور یہودی ربائیوں کا کہنا ہے کہ سنتِ سلیمانی ترک کردینے کی بنا پر اللہ نے یہودیوں کو مرکزی عبادت گاہ سے بطور سزا محروم کردیا ہے اور قربانی کے بعد ہی یہ عبادت گاہ دوبارہ تعمیر ہوسکے گی۔
ایک عرصے سے سرخ گائے تلاش کی جارہی تھی لیکن ایسی بے داغ بچھیا کہ جس کی کھال پر کسی دوسرے رنگ کا ایک بال بھی نہ ہو، کہیں نہ ملی۔ اس تلاش کا ذکر کرتے ہوئے یروشلم کے ربائی (یہودی امام) اسحاق مامو (Yizshak Mamo)نے CBSکو بتایا کہ انھوں نے دنیا بھر کے یہودی مزرعے (farm) چھان مارے لیکن انھیں سرخ گائے نہ ملی۔ آخرکار ٹیکساس (Texas)کے ایک مویشی خانے میں انھیں ان کا گوہرِ نایاب نظر آگیا، لیکن اب یہ مسئلہ کھڑا ہوا کہ اسرائیل کے کسٹم ضابطوں کے تحت امریکہ سے مویشی درآمد کرنے کی اجازت نہیں۔ ربائی صاحب ”مذہبی حیلے“ کا سہارا لے کر گائے کی پانچ نومولود بچھیوں کو بطور پالتو جانور (Pet) اسرائیل لے آئے۔ یہ پانچوں گائیں غربِ اردن میں قبضہ کی گئی زمین پر بنائے گئے فارم میں پالی جارہی ہیں۔
معاملہ اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ ربائی اسحاق مامو قربانی کی قدیم سنت کی تجدید چاہتے ہیں۔ فکرمندی کی بات اس عبادت گاہ کی جگہ ہے۔ قدامت پسند عناصر کا اصرار ہے کہ ہیکل کی تعمیرِنو اس جگہ ہوگی جہاں مسجد اقصیٰ و گنبدِ صخرا واقع ہیں۔ عبادت گاہ کی تعمیر کے لیے سرگرم گروہ کی ایک رہنما محترمہ ملیسا جین کرون فیلڈ(Melissa Jane Kronfeld) نے CBSکے نمائندے سے باتیں کرتے ہوئے دوٹوک لہجے میں کہا کہ حضرت سلیمانؑ نے جس جگہ عبادت گاہ بنائی تھی، نئی عبادت گاہ اسی جگہ تعمیر ہوگی۔ ملیسا صاحبہ کا کہنا تھا کہ ”ہم اپنے مسلمان بھائیوں سے کچھ چھیننا چاہتے ہیں نہ اُن کی مسجد مسمار کرنا مطلوب ہے۔ مسجد اپنی جگہ رہے اور ہیکل کا حصہ بن کر سب کی عبادت گاہ بن جائے، تاہم گنبدِ صخرا کو یہاں سے ہٹانا ہوگا، ہمیں سنہری گنبد اور عبادت گاہ کو گرانے کا کوئی شوق نہیں، بس اسے یہاں سے کہیں اور منتقل کردیا جائے“۔ جب صحافی نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اس کے نتیجے میں خونریز جنگ ہوسکتی ہے جس سے مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام پیدا ہوگا، تو موصوفہ نے فرمایا ”مشرق وسطیٰ ایک عرصے سے عدم استحکام کا شکار ہے اور اِس وقت بھی یہاں (غزہ) جنگ ہورہی ہے۔“ (سلسلہ صفحہ ۷)
اخباری اطلاعات کے مطابق جانوروں کے نقص سے پاک ہونے کا جائزہ لیا جارہا ہے، اور اگر گائیں اس امتحان سے کامیاب گزر گئیں تو کسی بھی دن انھیں قربان کرکے ہیکل کی تعمیرنو کا کام شروع ہوسکتا ہے۔ اب تک گنبد صخرا اور مسجد اقصیٰ کے قریب تعمیراتی مشینری آنے کی کوئی اطلاع نہیں، لیکن حکومت کے انتہاپسند وزرا وہ ضوابط تبدیل کرنے پر زور دے رہے ہیں جن کے تحت القدس شریف میں غیر مسلموں کا داخلہ منع ہے۔
ہیوسٹن میں توریت و انجیل کے ایک عالم ڈاکٹر افضل فردوس نے اس حوالے سے میری ایک پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سرخ بچھیا کی قربانی کا ہیکل کی تعمیر سے کوئی تعلق نہیں، حضرت سلیمانؑ نے عبادت گاہ تعمیر ہونے کے بعد بچھیا قربان کی تھی۔ پادری صاحب کا کہنا ہے کہ ہیکل کی تعمیر کے لیے مسجد اقصیٰ اور گنبد صخرا کو مسمار کرنا بھی یہودی احکامات کی خلاف ورزی ہوگی کہ توریت کی پانچویں کتاب Deuteronomyمیں صراحت سے درج ہے کہ ہیکل کے پاس Gentilesیعنی غیر یہودی اقوام کی عبادت گاہ بھی ہونی چاہیے۔