طنز و مزاحمضامین

مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے …

حمید عادل

دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک ڈرامائی کردار موجود ہیںجو اپنے مفاد کے لیے فنکاری کرنے سے نہیں چوکتے ہیں اور یہ خاصیت خاص الخاص انسانوں اور بعض جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے مگر اب سائنسدانوں نے زمین پر رینگنے والی ڈراما باز چیونٹی دریافت کی ہے جو مرنے کا ڈھونگ رچاتی ہے لیکن اس کا یہ مرنے کا ڈراما محض اپنے تحفظ اور شکاری کا نوالہ بننے سے بچنے کے لیے ہوتا ہے۔ آسٹریلیا کے مشہور کینگرو جزیرے پر ماہرین نے ’’پولیراکس فیموریٹا‘‘ نامی چیونٹیوں میں یہ خاصیت دریافت کی ہے کہ وہ اپنے دشمن سے بچنے اور شکاری کا نوالہ بننے سے خود کو بچانے کے لیے مرنے کا ڈھونگ رچاتی ہیں۔یہ انکشاف سائنسدانوں کو حادثاتی طور پر ہوا جب انہوں نے درختوں پر رکھے پگمی پوسم اور چمگادڑوں والے تحقیقی ڈبوں میں ان چیونٹیوں کا غول دیکھا… لیکن کھولنے پر دیکھا کہ اس میں ایک دو نہیں بلکہ ساری چیونٹیاں مری ہوئی تھیں۔ماہرین کو اس پر شک ہوا اور وہ دور ہٹے تو دھیرے دھیرے چیونٹیاں اٹھیں اور معمول کا کام کرنے لگیں۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ چیونٹیاں خود کو شکارہونے سے بچانے کے لیے یہ عمل کرتی ہیں۔ اگرچہ یہ خاصیت کئی جانوروں میں دیکھی گئی ہے جن میں دیگر کیڑے مکوڑے بھی شامل ہیں لیکن پہلی مرتبہ کوئی چیونٹی اس کی ماہر نکلی ہے۔
ہم نے ایک ویڈیودیکھاہے کہ بلی کی آہٹ پاکر چوہا ساکت و صامت پیٹھ کے بل ایسے پڑجاتا ہے ،گویا مر چکا ہے …بلی چوہے کو مرا ہوا سمجھ کر اسے اپنے پنجوں سے الٹتی پلٹتی ہے اور پھر جیسے ہی بلی کا دھیان بٹتا ہے ، چوہا درمیان میں آنکھیں کھولتا ہے کہ بلی جا چکی ہے یا موجودہے اور جب وہ دیکھتاہے کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیںہے تو وہ دوبارہ مرنے کا ڈراما کرتا ہے …
ہم نے کتے کی غیر معمولی اداکاری والی ایک ویڈیو بھی دیکھی ہے ، جس میںوہ اپنی دونوں ٹانگوںکو گھسیٹتے ہوئے بڑی تکلیف سے چلتا ہوا نظر آتا ہے،اس کی پچھلی دو بے جان ٹانگوںکو دیکھ کر محسوس ہوتاہے جیسے وہ کسی حادثے میں ناکارہ ہوگئی ہیں…لیکن کچھ ہی دور چلنے کے بعد کتا پہلے اپنی ایک ٹانگ اور پھر دوسری ٹانگ کو درست پوزیشن میں لاتا ہے اور پھر حیرت انگیز طورپردوڑتا ہوا ایک جانب نکل جاتا ہے …
ہماری سیاست بھی کسی ڈرامے سے کم نہیں جب کہ ہمارے سیاست دان اداکاری کے اس اعلیٰ مقام پر براجمان ہیں کہ انہیں اگرآسکر ایوارڈبھی دیا جائے تو کم ہوگا…سیاسی دکانیں چمکانے کے لیے کی جانے والی اداکاری کی بدولت ایماندار اورسچے نیتا بھی رسوا ہو رہے ہیں …
یادرہے کہ وزیراعظم مودی 3 جولائی 2020ء کی صبح اچانک لیہہ پہنچ گئے تھے جہاں انہوں نے فوجی افسران اور جوانوں سے ملاقات کی اور صورتحال کا جائزہ لیا تھا…ان کا یہ دورہ 15-16 جون کی درمیانی شب ہند چین سرحد پر واقع وادی گلوان میں دونوں ممالک کے فوجیوں کے مابین ایک پرتشدد تصادم کے بعد ہوا تھا۔ فوجیوں کے ایک ہسپتال میں ان کی تصاویر کا سوشل میڈیا پر صارفین نے خوب مذاق اڑایا تھا…
ٹوئٹر صارف آرتی نے لکھا تھا: ’’ملک سے اتنا بڑا فریب؟ وزیر اعظم نریندر مودی کے لیہہ کے دورے کے موقع پر کانفرنس روم کو صرف فوٹو کے لیے ہسپتال میں تبدیل کر دیا گیا۔‘آرتی ایک تصدیق شدہ ٹوئٹر صارف ہیں اور ان کے ٹوئٹر بائیو میں لکھا گیا ہے کہ وہ عام آدمی پارٹی کی قومی سوشل میڈیا ٹیم سے وابستہ ہیں۔وزیر اعظم کی ایک تصویر کو ٹویٹ کرتے ہوئے سیکولر انڈین 72 نامی صارف نے دلچسپ تجزیہ کیا تھا:’ ’نہ دواؤں کی ٹیبل ہے، نہ ڈاکٹر، نہ مرہم، نہ کوئی مریض سو رہا ہے، نہ کسی کو ڈرپ لگی ہے، نہ آکسیجن سیلنڈر ہے، نہ ہی وینٹیلیٹر …ایسا لگتا ہے کہ یہ منا بھائی ایم بی بی ایس کا کوئی سین ہے۔‘‘
جب سوشل میڈیا پر معاملہ بڑھتا چلا گیا تو فوج کو اس حوالے سے ایک وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا تھاکہ’’یہ افسوس ناک ہے کہ ہمارے بہادر فوجیوں کا جس طرح سے خیال رکھا جا رہا ہے، اس پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں… بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ کووڈ 19 پروٹوکول کی وجہ سے ہسپتال کے کچھ وارڈز کو الگ تھلگ وارڈز میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ ہال جو عام طور پر آڈیو ویڈیو ٹریننگ ہال کے طور پر استعمال ہوتا تھا اسے ایک وارڈ میں تبدیل کر دیا گیا…
اسپتال کا منظر سچ تھا یا ڈراما ، یہ جاننے کے لیے چمن بیگ آج بھی بے چین ہیں…
وزیراعظم مودی جہاں پریس سے بچنے کے لیے جانے جاتے ہیں، وہیں وہ تصاویر کھنچوانے کے معاملے میں ہت آگے رہتے ہیں…پچھلی بارجب ہندوستان سمیت دنیا بھر میں بین الاقوامی یوگا ڈے منایا گیاتو جہاں یوگا کی تصاویر سوشل میڈیا پر چھائی رہیں، وہیں مودی کا ایک کلپ بھی وائرل رہا جس میں بظاہر وہ ایک شخص کو خود سے دور جانے کے لیے کہہ رہے ہیں۔بہت سے صارفین نے لکھا کہ انھوں نے ایسا اپنی تصویر کے پرفیکٹ اینگل یعنی بہترین زاویے کے لیے کیا…معروف اداکار اور بی جے پی کے ناقد پرکاش راج نے اس وائرل ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’جب کیمرے کے زاویے کی بات آتی ہے تو کیا کوئی ہمارے سپریم ایکٹر/ڈائریکٹر کو شکست دے سکتا ہے؟‘‘
کانگریس پارٹی کی ترجمان شمع محمد نے لکھا کہ ’ریکارڈ مہنگائی اور بے روزگاری کے زمانے میں اپنے مستقبل کی حفاظت کے لیے ملک بھر میں نوجوان اپنے روزگار کی سکیورٹی کے لیے احتجاج کر رہے ہیں اور مودی کو صرف اس بات کی فکر ہے کہ ان کے لیے بہترین کیمرہ اینگل کیسے مل سکے گا۔‘‘ایکصارف نے لکھا تھاکہ ’’اگر مودی کی زندگی پر حقیقی فلم بنائی جائے تو وہ’’ لائٹ، کیمرہ، ایکشن ‘‘سے شروع ہو گی اور’’ لائٹ ، کیمرہ، ایکشن ‘‘پر ختم ہو گی۔‘‘یعنی صارف مودی کی مووی کی بات کررہا ہے…
19 جون2022ء کو وزیراعظم نے نئی دہلی میں ایک سرنگ کا افتتاح کیا تھا…س موقع پر مودی کوچند کاغذ کے ٹکڑے اور ایک پلاسٹک کی بوتل اٹھاتے دیکھا گیا تھا۔اس غیر معمولی اقدام پر جہاں لوگوں نے صفائی سے متعلق وزیراعظم کی لگن کی بات کی تو وہیں کچھ لوگوں نے انھیں تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے ’’فوٹو کا موقع‘‘ قرار دیا… یہ کیسے لوگ ہیں کہ حقیقت اور ڈرامے میں فرق ہی نہیں محسوس کرتے ہیں …کئی لوگوں کو یہ مروڑ ہونے لگی کہ نئی سرنگ ، جس کا افتتاح وزیراعظم کرنے والے ہوں کیا ایسی کوتاہی ہو سکتی ہے…ان کے کہنے کا مطلب صاف یہی سمجھ میں آرہاتھا کہ وہاں جان بوجھ کر پلاسٹک کی بوتل اور کچھ کاغذات رکھے گئے تاکہ وزیراعظم انہیں اٹھا کر صفائی اور سادگی سے متعلق اپنے کردار کو اجاگر کرسکیں …پریا ریٹرنز نامی ایک صارف نے لکھا تھاکہ ’’حیرت ہے کہ مودی کی پی آر ٹیم کو کتنے دماغ سوز سیشن کرنے پڑے ہوں گے کہ مناسب جگہ پر کچرا رکھا جائے تاکہ وہ (مودی) کیمرے کے سامنے زیادہ سے زیادہ نظر آ سکیں۔‘‘
یہاں اس بات کا تذکرہ بیجا نہ ہوگاکہ سرنگ میں کچرا اٹھانے سے قبل بھی وزیراعظم کو ساحل سمندر پر کوڑے کرکٹ اور پلاسٹک کی بوتلیں چنتے دیکھا گیا تھا…
ایسامحسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم کی ہرحرکت کو ڈراما قرار دینے کی کچھ لوگوں نے قسم کھا رکھی ہے … گذشتہ سال 18 جون کو اپنی والدہ کی 100ویں سالگرہ کے موقع پر جب وزیر اعظم ان سے ملنے گھر گئے تو وہاں کی ایک ویڈیو وائرل کردی گئی، جس میں یہ دیکھا گیا تھا کہ پہلے ان کی گاڑی سے فوٹو گرافر اترتا ہے اور دوڑ کر گھر میں داخل ہوتا ہے، پھر صدر دروازے سے ایک دوسرا فوٹو گرافر دوڑتا ہوا داخل ہوتا ہے اور اس کے بعد ہی مودی اپنی کار سے اترتے ہیں…مدھو نامی ایک صارف نے مودی کے اپنی ماں سے ملنے کے دورے کی ایک وائرل کلپ کو شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا ’’مودی جی واحد بیٹے ہیں جو جب بھی اپنی ماں سے ملنے جاتے ہیں تو اپنی پوری کیمرہ ٹیم کو ساتھ لے جاتے ہیں۔ مودی کے لیے کیمرہ مین ایسا ہی ہے، جیسے کسی مرنے والے کے لیے آکسیجن سیلنڈر۔‘‘ اس طرح وزیراعظم کی جانب سے ماں کی سالگرہ پر ان کی خدمت میں حاضری کوبھی ڈراما قرار دیدیا گیاتھا…
2015 ء میں جب فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا تو مودی فیس بک کی ایک خاتون اہلکار کے ساتھ بات کر رہے تھے اور ان کی تصویریں لی جا رہی تھیں کہ اسی دوران مارک زکربرگ ان کے سامنے آ گئے تو اچھی تصویر کے لیے مودی نے ان کو بازو سے پکڑ کر ایک کنارے کھینچ دیا۔اس عمل کو جہاں بہت سے لوگوں نے ناشائستہ قرار دیا تھا وہیں بہت سے لوگوں نے تصاویر کے لیے ان کے جنون کا مذاق بھی اڑایاتھا…ایسا ہی ایک موقع 2019 میں اس وقت آیا جب مودی نے مراقبے کے لیے ایک غار میں ایک دن گزارا۔انگریزی کے معروف اخبار ’دی ہندو‘ نے حکام کے حوالے سے لکھا کہ شمالی ریاست اتراکھنڈ کے مذہبی اہمیت کے مقام کیدارناتھ میں پہلی بار کسی غار کو بک کیا گیا ۔ وہاں بھی ان کے غار میں داخل ہوتے ہوئے جب تصویر آئی تو لوگوں نے کہا کہ کوئی غار میں پہلے سے بھی کیمرہ مین رکھتا ہے کیا؟اس کے علاوہ وزیراعظم مودی کو دوسرے ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ ملتے ہوئے تصویر کے لیے مناسب جگہ تلاش کرتے کئی باردیکھا گیا ہے…
ہمیں وہ یادگار ویڈیو بھی یاد آرہی ہے جس میں مودی کو ایک مور کو کھانا کھلاتے دیکھا گیا تھا …اس وقت چمن بیگ نے بڑا ہی دلچسپ تبصرہ کیا تھا،انہوں نے کہا تھا کیا ہی اچھا ہو، اگر وزیراعظم ’’مور‘‘ کی بجائے اہم’’ امور‘‘پر توجہ دیں…
دوستو!سیاست دانوں پر ہی کیا منحصر ہے ، آج ہم سب ڈراما ہی توکررہے ہیں…کوئی جینے کا ڈراما کررہا ہے تو کوئی مرنے کا ڈراما کررہا ہے ،کوئی غریب ہونے کا ڈراما کررہا ہے تو کوئی دولت مند ہونے کا ڈراما کررہا ہے ،کوئی سخی ہونے کا ڈراما کررہا ہے تو کوئی وسیع القلب ہونے کا ڈراما کررہا ہے …کوئی اچھا ہونے کا ڈراما کررہا ہے تو کوئی سچا ہونے کا ڈراما کررہا ہے …بلا شبہ دنیا ایک وسیع اسٹیج ہے اور ہم سب اس اسٹیج کے کردار… .اور وہی کردار اپنا نام روشن کرپاتے ہیں جو با کردار ہوتے ہیں…لیکن اس کو کیا کیجیے کہ ہم اپنی خامیوں کو دور کرنا ہی نہیں چاہتے بلکہ اب توہم خامی کوبھی خوبی سمجھنے لگے ہیں …ہم خود کو بدلنا ہی نہیں چاہتے ،چنانچہ حالات ایسے بن گئے ہیں کہ …
نئے کردار آتے جارہے ہیں
مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے
راحت اندوری
۰۰۰٭٭٭۰۰۰