ڈاکٹر سلیم خان
غالب کے دور میں اگر این ڈی ٹی وی پر گوتم اڈانی کا قبضہ ہوجاتا تو وہ کہتے ’’ اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے ‘‘۔یعنی شمع بجھی تو نہیں ہے لیکن اب وہ روشنی کے بجائے تاریکی پھیلائے گی ۔ یہ محض اندیشہ نہیں ہے ۔ این ڈی ٹی وی میں جس طرح رویش کمار فی الحال پرنوئے رائے کے دست راست ہوا کرتے تھے اسی طرح ایک زمانے میں راجدیپ سر دیسائی ان کے ساتھی تھے۔ راجدیپ نے آگے چل کر ایک بڑے سرمایہ دار راگھو بہل کا ہاتھ تھاما اور این ڈی ٹی وی کو خیرباد کہہ دیا۔ 2005سے ان دونوں کی آئی بی این نامی کمپنی نے سی این این اور وارنر بردرس کے ساتھ مل کر کام شروع کیا اوردیکھتے دیکھتے وہ این ڈی ٹی وی کے برابر آگئی۔ کانگریس کا دورِ اقتدار میں وہ دونوں بی جے پی پر جم کر تنقید کرتے تھے ۔ 2012میں ریلائنس کے مکیش امبانی نے آئی بی این سی این این میں سرمایہ کاری شروع کی 2014 کےانتخاب سے قبل مودی پر تنقید سے منع کیا ۔ الیکشن کے بعد مودی سرکار قائم ہوگئی ۔ اس کے بعد راگھو بہل اور راجدیپ سردیسائی اسی طرح الگ ہوگئے جیسے اب پرنوئے رائے اور رویش کمار ہوئے ہیں ۔
وقت کا دھارا رکتا نہیں ہے۔ راجدیپ نے آج تک میں ملازمت کرلی اور راگھو بہل نے بلوم برگ کے ساتھ مل کر کوئنٹ شروع کی ۔مودی سرکار نے چونکہ انہیں لائسنس ہی نہیں دیا اس لیے وہ سوشیل میڈیا تک محدود ہوکر رہ گئے۔ان ساری تبدیلیوں کے باوجود راجدیپ سر دیسائی آج بھی اپنے ادارے کی گنجائش کے مطابق کبھی کبھار سرکار پر تنقید بھی کردیتے ہیں لیکن ملازمت کی خاطر محتاط رہتے ہیں۔ راگھو بہل سوشیل میڈیا پرمصروف و منتظرہیں کہ سرکار بدلے تو انہیں لائسنس ملے اور ان پر اشتہارات کی برسات ہو۔ آئی بی این چینل اپنی تبدیل شدہ پالیسی کے مطابق سرکار کے تلوے چاٹ رہا ہے۔ بعید نہیں کہ حکمراں بدل جائیں تو اس کے لب و لہجے میں بھی تبدیلی واقع ہوجائے ۔ اس لیے کہ ماضی بعید گاندھی خاندان کے ساتھ امبانی گھرانے کی قربت سے سبھی واقف ہیں ۔ آئی بی این کے حال اور این ڈی ٹی وی کے مستقبل پر غالب یہ شعر صادق آتا ہے؎
داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے
آئی بی این کا آغازچونکہ موجودہ سرمایہ دارانہ دور میں ہوا ، اس لیے اس کی آپ بیتی بہت آسان ہے اور اسے سنانے کا مقصد این ڈی ٹی وی کی پیچیدہ کہانی کو سمجھنے میں مدد لینا ہے۔ این ڈی ٹی وی نے جس وقت آنکھیں کھولیں اس وقت برقی ذرائع ابلاغ (الکٹرونک میڈیا) پوری طرح سرکار کے قبضۂ قدرت میں تھا۔ اخبارات میں بھی معدودے چند ہی آزادانہ صحافت کرتے اور سرکاری عتاب کا شکار رہتے تھے۔ سوشلزم سے متاثر دورِ اقتدار میں میڈیا ہی کیوں ساری بڑی صنعتیں سرکار ی ہوتی تھیں۔ نجی صنعتکاری بھی لال فیتہ شاہی کے تحت ہوتی تھی ۔ عوام و خواص ریڈیو پر آکاش وانی سنتے اور ٹیلی ویژن پر دور درشن دیکھ کر اپنی آنکھوں ٹھنڈا کرتے ۔ خبروں کا بناکر لوگوں کے سامنے پروسنے والے دور درشن کو وقت کے ساتھ احساس ہوا کہ اسے ٹھیکیداروں کی خدمات بھی حاصل کرنی چاہیے۔ اس طرح این ڈی ٹی وی نامی نجی ادارے کو کچھ کام ملنے لگا ۔ ڈی ڈی کے لیے پروگرام بناتے بناتے اس نے کچھ وقت خرید کر اپنے نام سے بھی مال بیچنا شروع کیا ۔ انڈیا ٹوڈے والے نیوز ٹریک کی ویڈیو بنانے کے بعد اپنی خبروں کے ساتھ دور درشن پر آگئے۔
1984 سے 1998 کے درمیان این ڈی ٹی وی کی پرورش سرکاری نگہداشت میں ہوئی ۔ سوویت یونین کی سانحۂ ارتحال نے وزیر اعظم نرسمھا راو کو سرخ فیتہ ڈھیلا کرنے کی ترغیب دی ۔ اس وقت خبروں کی دنیا کے عالمی پہلوان روپرٹ مرڈوک نے ہندوستان کے دنگل کودنے کا فیصلہ کیا ۔ این ڈی ٹی وی کی شکل میں مرڈوک کے اسٹار چینل کو ایک چاند میسر آگیا۔ پانچ سال تک وہ دونوں ساتھ رہے۔ اس دوران اقتدار تبدیل ہوگیا اور اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوگئی۔ اسی زمانے میں نریندر مودی کو گجرات کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا اور پھر پورے صوبے میں بھیانک فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا۔ وہ فساد جس کی یاد دلاکر بیس سال بعد بھی بی جے پی انتخاب جیتنے کی کوشش کررہی ہے۔ جی ہاں وہی فساد جس کے متعلق بی جے پی کے سابق وزیر شنکر سنگھ واگھیلا کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ وہ ایک سازش تھی۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ گودھرا کے اندر سابرمتی ایکسپریس کا جو ڈبہ جلا اس میں کارسیوک جارہے تھے۔ اس کا علم مسلمانوں کونہیں ہوسکتا تھا۔ یہ آگ اندر لگی نہیں بلکہ لگائی گئی تاکہ اس کے بعد پورے گجرات میں مسلمانوں کے خلاف فساد بھڑکا کر انتخاب جیتا جائے۔ واگھیلا کی منطق کو سن کر پلوامہ یاد آجاتا ہے کہ جہاں اسی کہانی کو قومی سطح پر دوہرا دیا گیا۔
گجرات کے فساد میں این ڈی ٹی وی نے غیر معمولی جرأتمندانہ کردار ادا کرتے ہوئے حقائق کو پیش کیا۔ اس وقت وہ مظلوموں کی آواز اور ظالموں کی آنکھوں کا کانٹا بن گیا تھا ۔ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے محسوس کرلیا تھا اور آگے چل اعتراف بھی کیا کہ ان کی شکست بنیادی طور پرگجرات فساد کے سبب ہوئی ۔ اس زمانے میں این ڈی ٹی وی کو قابو میں رکھنے کی خاطر سرکار نے اسٹار کے مالک مرڈوک پر دباو ڈالا لیکن پرنوئے رائے نہیں مانے ۔ یہی وجہ ہے کہ اگلے انتخاب سے قبل 2003میں مرڈوک نے این ڈی ٹی وی سے رشتہ توڑ کر آنند بازار پتریکا کا دامن تھام لیا اور اے بی پی چینل عالمِ وجود میں آگیا ۔ اسی چینل سے 2018میں پونیا پرسون واجپائی کو چار ماہ کے اندر ماسٹر اسٹروک سے نکال باہر کیا گیا۔ واجپائی نے اپنے کیریر کی ابتداء تو آج تک سے کی تھی لیکن این ڈی ٹی وی میں بھی ایک سال کام کیا۔ مرڈوک کے اے بی پی نے پتانجلی کے دباو میں ان کی چھٹی کی۔ وہ فی الحال سوشیل میڈیا پر وہی سب کررہے ہیں جو کل رویش کمار کرنے والے ہیں۔ غور سے دیکھا جائے تو راجدیپ ، پونیا پرسون و رویش کمار میں سے ہر ایک کی کہانی میں کوئی نہ کوئی امبانی ، اڈانی یا مرڈوک کارفرما نظر آتا ہے۔ ایسے میں صفا لکھنوی کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
چرخ کو کب یہ سلیقہ ہے ستم گاری میں
کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں
این ڈی ٹی وی کا یہ حشر دیکھ کر ہر کسی کا رویش کمار کے لیے آنسو بہانا ان کی بے پناہ مقبولیت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے لیکن یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ اداروں کی اہمیت افراد سے زیادہ ہوتی ہے۔ این ڈی ٹی وی سے ونود دووا الگ ہوگئے اس کے بعد راجدیپ سر دیسائی آگئے اور وہ نکل گئے تو رویش کمار کا ستارہ عروج پر پہنچ گیا ۔ اداروں کی حیثیت اس آسمان کی سی ہے جس پر ستارے جگمگاتے ہیں اس لیے رویش کمار کے ساتھ اس سوال پر بھی غور ہونا چاہیے کہ آخر این ڈی ٹی وی کی یہ حالت کیوں ہوئی؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس نے مرڈوک سے یہ سبق نہیں سیکھا کہ سرمایہ دار کا اصلی مقصد صحافت نہیں تجارت ہوتا ہے۔ وہ صرف نفع بخش صحافت کوہی پروان چڑھاتا ہے لیکن اگر نقصان ہونے لگے تو اس تجارت میں صداقت کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے ا۔ ایسے میں مزاحمت کرنے والوں کو ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے۔ 2003میں مرڈوک ایسا نہیں کرسکے اس لیے خودکنارے ہوگئے لیکن 2022 میں اڈانی نے ررویش کمار سمیت پرنوئے رائے کو کنارے ہونے پر مجبورکردیا ۔
اسٹار سے الگ ہونے کے بعد لوگ یہ توقع کررہے تھے کہ این ڈی ٹی وی کا خاتمہ ہوجائے گا لیکن اس نے آزادانہ طور پر ہندی اور انگریزی چینل شروع کیا۔ اس میں اسے زبردست کامیابی ملی اور ایک نہایت قلیل عرصے میں اس کا انگریزی چینل پہلے نمبر آگیا۔ ہندی میں آج تک کے بعد دوسرے نمبر پر پہنچ گیا اور اسٹار چوتھے نمبر پر کھسک گیا۔ دسمبر 2004 میں یہ ہندوستان کی سب سے بڑی میڈیا کمپنی بن گئی۔ این ڈی ٹی وی کے پاس اس وقت 1433 کروڈ روپئے تھےجس کی موجودہ قیمت تقریباً چار گنا زیادہ ہوگی۔ اس کے بعد این ڈی ٹی وی نے مختلف میدانوں میں بے دریغ وسعت کا منصوبہ بنایا اور دنیا بھر کے بڑے بڑے بنکوں اور کمپنیوں نے اس میں سرمایہ کاری شروع کردی۔ 2008 کی عالمی مندی اس ترقی میں رکاوٹ بن گئی اور بامبے اسٹاک ایکسچینج میں اس کے حصص کی قیمت 400 سے گھٹ کر 100 روپئے پر آگئی۔ اس بیچ کچھ نئے چینلس کو فروخت بھی کیا گیا مگر اس کے باوجود توسیع کا کام جاری رہا اس لیے بات نہیں بنی ۔بالآخر 2009 میں اس نے امبانی کی ایک کمپنی سے قرض لینا شروع کیا۔ اس شروعات کا اثر اب دیکھنے کو مل رہا ہے۔
امسال اگست میں این ڈی ٹی وی کے اندرامبانی کی کمپنی وشوپردھان کمرشیل کا 113.74 کروڈ سرمایہ موجود تھا جو کل اساس کا 29.18 فیصد بنتا تھا۔ اس کمپنی کو اڈانی میڈیا نے خرید لیا ۔ اب پرنوئے رائے اور ان کی بیوی کے پاس صرف 32.27 فیصد حصص رہ گئے۔ اس کے بعد مختلف حیلوں بہانوں سے اڈانی کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ وی پی سی ایل کے حصص کے بلا اجازت فروخت پر اعتراض اور سیبی کے اجازت نامہ کی شرط لگائی گئی لیکن یہ ساری کوششیں ناکام ہوگئیں۔ وی پی سی ایل حصص بیچنے کے لیے آزاد تھی اور سیبی کی کیا مجال ہے کہ وہ اڈانی کی راہ کا روڈا بنتی ۔ اس طرح اڈانی کو این ڈی ٹی وی پر اختیار مل گیا اور لا محالہ پرنوئے رائے کو اپنی اہلیہ سمیت استعفیٰ دینا پڑا۔ این ڈی ٹی وی جیسا برگد جب زمین بوس ہوا تو اس کی شاخوں پر کھلنے والے سب سے خوشنما پھول رویش کمار کیا کرتا ۔ ایسے میں اس نڈر اور بیباک صحافی نے اپنے ضمیر کی آواز پر این ڈی ٹی وی سے ناطہ توڑ تے ہوئے اپنے آخری پیغام میں چڑیا اور گھونسلے کی مثال دی ۔ اس موقع پر انہیں علامہ اقبال کا یہ شعر پیش نظر رکھنا چاہیے؎
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
۰۰۰٭٭٭۰۰۰