کیا مسلمانوں کو ہندو ٹرسٹوں میں شامل کیا جائے گا؟سپریم کورٹ کا سوال
سپریم کورٹ نے چہارشنبہ کے دن وقف ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے دوران تشدد پر تشویش ظاہر کی۔ اس نے کہا کہ یہ بات بڑی تکلیف دہ ہے کہ تشدد برپا ہے۔

نئی دہلی (آئی اے این ایس/ پی ٹی آئی) سپریم کورٹ نے چہارشنبہ کے دن وقف ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے دوران تشدد پر تشویش ظاہر کی۔ اس نے کہا کہ یہ بات بڑی تکلیف دہ ہے کہ تشدد برپا ہے۔
عدالت میں جب معاملہ آجاتا ہے تو تشدد نہیں ہونا چاہئے۔ چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) سنجیو کھنہ نے یہ ریمارکس کرتے ہوئے وقف ترمیمی قانون کے دستوری جواز کو چیلنج کرتی درخواستوں کی مزید سماعت جمعرات کو 2 بجے دن مقرر کی۔
دوران ِ سماعت عدالت نے اشارہ دیا کہ وہ عبوری حکم جاری کرسکتی ہے کہ عدالت کے حکم سے یا کسی اور ذریعہ سے پہلے سے وقف قراردی جاچکی املاک کو حالیہ ترمیم کے تحت ڈی نوٹیفائی نہ کیا جائے۔ بنچ نے جس میں جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن بھی شامل ہیں‘ کہا کہ وہ عبوری حکم جاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے کہ وقف بورڈس اور سنٹرل وقف کونسل کے تمام ارکان (غیرسرکاری ارکان کو چھوڑکر) مسلمان ہوں۔
سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے عبوری حکم جاری کرنے کی مخالفت کی اور بنچ سے گزارش کی کہ کوئی بھی حکم جاری کرنے سے قبل مرکزی حکومت کا موقف ضرور سنا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کو نوٹس جاری ہو تو اندرون 2 ہفتے اس کا جواب دیا جائے گا اور معاملہ کی روزانہ سماعت ہوسکتی ہے۔
وقف ترمیمی قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں کئی درخواستیں داخل ہوئی ہیں۔ بی جے پی زیراقتدار ریاستوں بشمول ہریانہ‘ مہاراشٹرا‘ مدھیہ پردیش‘ راجستھان‘ چھتیس گڑھ‘ آسام اور اتراکھنڈ نے وقف ترمیمی قانون کی مدافعت کی ہے۔ پی ٹی آئی کے بموجب سپریم کورٹ نے مرکز سے پوچھا کہ آیا مسلمانوں کو ہندو مذہبی ٹرسٹوں کا حصہ بننے دیا جائے گا۔
بنچ نے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا سے جو مرکز کی طرف سے پیش ہوئے پوچھا کہ ’وقف بائی یوزر‘ کی اجازت کیسے نہیں دی جاسکتی۔ آپ ایسی جائیداد کا رجسٹریشن کیسے کریں گے؟ کونسے کاغذات درکار ہوں گے۔ ہاں کچھ بے جا استعمال ہوا ہوگا لیکن درست استعمال کے معاملے بھی ہیں۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ میں نے پریوی کونسل کے فیصلے بھی دیکھے ہیں۔
وقف بائی یوزر کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اگر آپ نے اس کی نفی کردی تو مسئلہ پیدا ہوگا۔ مہتا نے کہا کہ مسلمانوں کا بڑا حصہ وقف ایکٹ کے تحت گورننگ نہیں چاہتا۔ بنچ نے اس پر مہتا سے پوچھا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں اب سے آپ مسلمانوں کو ہندو انڈومنٹ بورڈس کا حصہ بننے دیں گے۔ کھل کر بولئے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ 100 یا 200 سال قبل جب ایک پبلک ٹرسٹ کو وقف ڈکلیر کیا جاتا ہے تو اسے اچانک وقف بورڈ اپنے کنٹرول میں نہیں لے سکتا
بنچ نے کہا کہ آپ ماضی کو دوبارہ نہیں لکھ سکتے۔ مہتا نے بنچ کو بتایا کہ وقف جے پی سی نے 38 بیٹھکیں کیں اور پارلیمنٹ میں ترمیمی قانون کی منظوری سے قبل 98.2 لاکھ یادداشتوں کا جائزہ لیا۔ چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ نے کہا کہ ایک ہائی کورٹ سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ وقف قانون کے خلاف درخواستوں سے نمٹے۔ سینئر وکیل کپل سبل نے اس دفعہ کو چیلنج کیا کہ صرف مسلمان ہی وقف کرسکتے ہیں۔
انہوں نے پوچھا کہ ریاست یہ کیسے طئے کرسکتی ہے کہ میں مسلمان ہوں یا نہیں ہوں؟ وقف کرنے کا اہل ہوں یا نہیں ہوں۔ حکومت یہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ گزشتہ 5 سال سے اسلام پر عمل کرنے والے ہی وقف کرسکتے ہیں۔ سینئر وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے بعض درخواست گزاروں کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ وقف قانون کے ملک گیر مضمرات ہوں گے اور درخواستوں کو ہائی کورٹ سے رجوع نہ کیا جائے۔
سینئر وکیل حذیفہ احمدی نے وقف قانون کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ وقف بائی یوزر اسلام میں رائج ہے اور اسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ وقف قانون کے جواز کو چیلنج کرتی تقریباً 72 درخواستیں سپریم کورٹ میں داخل ہوئی ہیں۔ مرکز نے 8 اپریل کو کیوٹ داخل کرتے ہوئے گزارش کی تھی کہ اس معاملہ میں کوئی بھی حکم جاری کرنے سے قبل اس کے موقف کی سماعت ضرور کی جائے۔