سیاستمضامین

یوکرائن تنازع سے خوراک اور توانائی کا نیا بحرانیورپ میں ’’ نیٹو کو چھوڑ دو‘‘ نعرے کی گونج

محمد شاہد اقبال

مہنگائی‘ افراط زر یا Inflation جدید معاشیات کی ایک اہم ترین اصطلاح ہے ۔ ماہرین معاشیات روز مرہ اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی شرح کو افراطِ زر کہتے ہیں جبکہ عام افراد قیمتوں کے بڑھتے رجحان کو سادہ ترین الفاظ میں مہنگائی قراردیتے ہیں۔ یاد رہے کہ کسی بھی ملک ‘ خطے یا علاقے میں افراطِ زر میں مسلسل اضافہ کا رجحان شدید مہنگائی کی صورت میں سامنے آتا ہ اور جب مہنگائی ‘ افراطِ زر ‘ انفلیشن کی لہر پوری دنیا کو بیک وقت اپنی لپیٹ میں لے لے تو اسے عالمی کساد بازاری کے عنوان سے پکارا جاتا ہے‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض افراد یہ سمجھتے ہیں کہ مہنگائی ہم سب کو ایک ہی طرح سے متاثر کرتی ہے۔ حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ زیادہ آمدنی رکھنے والے افراد کے مقابلہ میں کم آمدنی والے افراد مہنگائی سے کہیں زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس وقت کورونا وائرس اور یوکرین جنگ کے باعث تمام دنیا کو مہنگائی کا سامنا ہے اور رواں برس عالمی معیشت کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ معاشی سکڑاؤ کا شکار ہوا ہے شاید یہی وجہ کہ کرۂ ارض پر موجود ہر انسان اپنی اپنی جگہ مہنگائی کا رونا روہا ہے مگر سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ حالیہ چند برس میں ہم نے جس مہنگائی کا سامنا کیا ہے ‘ وہ تو بس ایک ٹریلر تھا ‘ یعنی مہنگائی کی اصل بلاک بسٹر فلم آئندہ برس سے ریلیز ہونے والی ہے ‘ جی ہاں! بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے خبردار کیا ہے کہ ’’ مہنگائی کے بدترین حالات تو ابھی آنے ہیں اور دنیا کے اکثر ممالک کیلئے2023ء کساد بازاری یعنی سخت مہنگائی کا سال ثابت ہوگا خاص طور پر دنیا کی 3بڑی معیشتیں ‘ امریکہ ‘ یوروپی یونین اور چین کی معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں برقرار رہیں گی اور مذکورہ ممالک کی معیشت سکڑنے کا براہِ راست اثر ساری دنیا پر خطرناک مہنگائی کی صورت میں پڑے گا‘‘۔
1970ء کے بعد سے دنیا کو صرف تین مرتبہ ہی جزوی کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ پہلی بار جب 1973ء میں تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک نے مغربی ممالک کو تیل کی ترسیل مکمل طور پر بند کردی تھی تو تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث دنیا کے اکثر ممالک کو افراطِ زر کا سامنا کرنا پڑا تھا‘ دوسری بار 1981ء میں اچانک مہنگائی نے وقتی طور پر سہی بہر حال بے شمار ممالک کی معاشی ترقی پر روک لگادی تھی جبکہ تیسری بار 2008ء کے معاشی بحران نے بھی عالمی معیشت کے قدم لڑکھڑا دیئے تھے لیکن جس طرح کی مہنگائی کا سامنا اس وقت دنیا بھر کو درپیش ہے اس کی ماضی میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی دراصل ماضی میں عالمی معیشت ‘ کساد بازاری کی زد پر صرف کچھ ممالک میں چند ماہ یا زیادہ سے زیادہ ایک برس کیلئے ہی رہی تھی مگر اس وقت جس عالمی کساد بازاری نے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اس کے اختتام کے بارے میں معاشی ماہرین بھی کوئی پیش گوئی کرنے سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں۔ حالیہ کساد بازاری کس قدر خطرناک اور شدید ہے اس کا اندازہ اس صرف اس بات سے لگالیں کہ توانائی کے بڑھتے بحران‘ معیار زندگی میں انحطاط اور ہوشربا ‘ مہنگائی کی نئی لہرنے سارے یوروپ کو شدید انداز میں متاثر کیا ہے۔ یورپی عوام اس بات پر ناراض ہیں کہ ان کی حکومتیں یوکرائن بحران میں روس پر پابندی لگانے میں امریکہ کی پیروی کررہی ہیں لیکن اصل میں وہ اپنے ہی عوام کے خلاف معاشی جنگ چھیڑ رہی ہیں گزشتہ چند ہفتوں میں کئی یوروپی ممالک میں عوام کی بڑی تعداد نے احتجاجی مظاہرے کئے اور اپنی اپنی حکومتوں سے نیٹو کی رکنیت سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف ہونے والے فرانس کے شہر پیرس میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شریک اکثر مظاہرین ’’ نیٹو کو چھوڑدو‘‘ سب سے پہلے ہمارا ملک‘‘ کے نعرے بھی لگاتے ہوئے دکھائی دیئے ‘ نیز مظاہرین نے احتجاجی بینرز بھی اٹھا رکھے تھے جن پر ’’مزاحمت‘‘ اور ’’ فریگزٹ‘‘ کے الفاظ لکھے ہوئے تھے۔
’’فریگزیٹ‘‘ برطانوی بریگزٹ کی طرز پر لگایا جانے والا نعرہ ہے جس کا مطلب ہے فرانس یوروپی ممالک کے اتحاد (یوروپی یونین) سے نکل جائے ۔ بعض سروے رپورٹس کے مطابق مظاہرین کے مطابق نیٹو یوروپی یونین کو جنگ میں دھکیل کر معاشی خلل پیدا کررہا ہے جبکہ جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی کے شریک رہنماء نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ روس کے خلاف پابندیاں عائد کرکے اپنے ہی عوام کے خلاف جنگ چھیڑرہی ہے دراصل یوروپی ممالک آنے والے مہینوں میں سخت سردی کا سامنا کرنے کی تیاری کررہے ہیں کیوں کہ روس اور یوکرائن کے درمیان تنازع بگڑرہا ہے جبکہ نورڈ اسٹریم پائپ لائنز کو سبوتاژ کئے جانے کے واقعے کے بعد سے توانائی کا بحران بھی بڑھ چکا ہے جبکہ عالمی کساد بازاری کے برے حالات میں امریکہ بھی یوروپی یونین کی امداد پر آمادہ دکھائی نہیں دیتا بعص اطلاعات کے مطابق امریکہ اپنے آپ کو بڑے معاشی بحران سے بچانے کے لئے ایندھن کی قیمتیں بڑھا رہے جس کی وجہ سے یورپ کی معیشت ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید کمزور ہورہی ہے اور مینوفیکچرنگ کی صنعتیں یوروپ میں اپنا کاروبار بند کرکے دیگر ممالک میں منتقل ہورہی ہیں۔ جرمنی میں ہوشربا مہنگائی کے باعث بڑھتی ہوئی عربت سے متوسط طبقے کی زندگی مشکل ہوگئی ہے۔ فوڈ بینکوں کے آگے مجبور ہونے والے شہریوں کی تعداد بھی حد سے تجاوز کرگئی ہے۔ ملک بھر میں فوڈ بینکوں کے صارفین کی تعداد گزشتہ کے مقابلے میں دگنی ہوچکی ہے اور بہت سے ضرورت مندوں تک غذائی امداد نہیں پہنچ پارہی ہے ۔ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے جرمن شہریوں کے پاس اپنی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لئے متبادل ذرائع بہت کم رہ گئے ہیں۔ فوڈ بینکوں سے رجوع کرنے والے ضرورت مندوں کو وہاں سے خالی ہاتھ لوٹنا پڑرہا ہے۔ فوڈ بینکوں کے منتظمین کا کہنا ہے کہ ’ بج تک پہلے والے اپنی رکنیت منسوخ نہیں کریں گے وہ نئے افراد کو رجسٹر کرکے غذا فراہم نہیں کرسکتے‘‘۔
جرمنی میں ایک کروڑ 38لاکھ افراد خط غربت کے قریب یا اس سے نیچے پہنچ چکے ہیں جبکہ بعص معاشی ماہرین اس تعداد میں بہت زیادہ اضافے کی پیش گوئی بھی کررہے ہیں۔ جرمن شہریوں کے پاس آسمان سے باتیں کرت اخراجات کے لئے ایک وجہ یوکرائن پر روس کا حملہ بھی قراردیا جارہا ہےاس کے علاوہ کورونا وائرس کے باعث معیشت پر پڑنے والے اثرات بھی نظر انداز نہیں کئے جاسکتے۔ دنیا بھر کی طرح یورپی ملک جرمنی بھی مہنگائی سے شدید متاثر ہوا ہے۔ جرمنی میں مہنگائی40سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ کی ہے ۔
مہنگائی کی حالیہ لہر نے یوروپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی کو شدید متاثر کیا ہے۔ جرمنی کے ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح 7.4فیصد ہے ۔ یہ شرح جرمنی کے دوبارہ متحد ہونے کے بعد سے لے کر اب تک سب سے زیادہ ریکارڈ کئے جانے وال اعداد و شمار ہیں۔ دوسری جانب اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کے سبب برطانیہ میں بھی مہنگائی 40 برس کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ۔ بینک آف انگلینڈ نے خبردار کیا ہے کہ رواں برس مہنگائی 13فیصد تک پہنچ سکتی ہے جو 1980ء کے بعد ملک میں مہنگائی میں بلند ترین سطح ہوگی۔ برطانیہ میں کساد بازاری کا آغاز ہوچکا ہے جو2023ء کے آخر تک جاری رہ سکتی ہے ۔ اس وقت برطانوی عوام قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے سخت پریشان ہیں اور برطانوی شہریوں کو زندگی کی روز مرہ ضروریات پوری کرنے میں سخت مشکلات پیش آرہی ہیں کیوں کہ مہنگائی کی وجہ سے کثیر تعداد میں ملازمتیں ختم ہورہی ہیں جبکہ جو ملازمتیں باقی ہیں ان کی ا جرتوں میں بھی ریکارڈ کمی ہورہی ہے۔ یاد رہے کہ ملکی معیشت کی اسی خراب ہوتی صورتحال کے بعد ہی برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اپنے عہدے سے فارغ ہوئے تھے نیز ان کی پیشرو وزیراعظم لزٹرس بھی صرف46 روز بعد ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث مستعفیٰ ہونے پر مجبور ہوگئیں جبکہ نئے برطانوی وزیراعظم رشی سانک کب تک اپنے عہدہ پر براجمان رہتے ہیں کوئی نہیں جانتا کیوں کہ جو مہنگائی پچھلے دو وزرائے اعظم کی قربانی لے چکی ہے اسی مہنگائی کا رشی سانک بھی شکار ہوسکتے ہیں۔
عالمی سپر پاور ملک امریکہ بھی عالمی کساد بازاری کی زد پر ہے اور امریکہ میں بھی مہنگائی کی شرح چار دہائیوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ جو 1982ء کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ یو ایس لیبر کی ایک رپورٹ کے مطابق گھروں کے کرایوں میں ایک برس کے دوران سب سے زیادہ اضافہ ہوا اور وہ ایک تہائی بڑھ چکے ہیں۔ ٹرانسپورٹیشن سروسز کی قیمتوں میں ایک ماہ کے دوران 1.9 فیصد اضافہ ہوا جبکہ طبقی خدمات کی قیمتوں میں بھی ایک فیصد اضافہ ہواہے۔ ملک بھر میں مہنگائی کی شرح 40 سال میں سب سے زیادہ ہونے کے بعد امریکی فیڈرل ریزروبینک نے بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پانے کیلئے شرح سود میں ایک مرتبہ پھر بڑا اضافہ کردیاہے۔ عالمی کساد بازاری 1929ء کے معاشی بحران سے ملتی جلتی ہے جس کو تاریخ میں عظیم کساد بازاری Great Depression کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس بحران نے امیر اور غریب سبھی کو یکساں طور پر متاثر کیا تھا تب بھی صنعتیں بند ہوگئی تھیں۔ سرمایہ کاروں کا سرمایہ ڈوب گیا تھا پوری دنیا میں بے روزگاری کی شرح 33 فیصد سے تجاوز کرگئی تھی اور برطانیہ میں30لاکھ ‘ جرمنی میں 60لاکھ اور امریکہ میں ایک کروڑ 40لاکھ افراد بے روزگار ہوگئے تھے۔ مذکورہ معاشی ابتری کی وجہ سے عالمی تجارت کا مجموعی حجم 50 فیصد سے زیادہ کم ہوگیا تھا۔ اشیائے خوردونوش کی گرانی حالات کی بے یقینی اور لگاتار پریشانیوں نے تمام ممالک کے عوام کو مشکلات میں مبتلا کردیا تھا ۔ اس بحران کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ 1932ء تک امریکہ میں موجود ہر قابل ذکر بینک بند ہوچکا تھا فی الحال ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری اس بحران سے نمٹنے اور اس کے اثرات سے نکلنے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھے سب سے پہلے تو روس یوکرائن جنگ فوری طور پر بند کرائی جائے بعد ازاں دنیا کی بڑی اقتصادی طاقتوں کو مل کر سوچنا چاہیے کہ جاری عالمی کساد بازاری سے نکلنے کیلئے کونسا راستہ اختیار کرنا کارگر ثابت ہوسکتا ہے کیوں کہ بڑی معاشی طاقتوں کو عالمی کساد بازاری سے خود کو ہی نہیں بچانا بلکہ اقتصادی لحاظ سے چھوٹے ممالک کو بچانا بھی ان طاقتوں کی اولین ذمہ داری ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰