مذہب

ایک پروٹسٹنٹ طالبہ کے قبول اسلام کی داستان

اینا لنڈا ٹراؤ اسٹاڈوٹر نے عیسائی گھرانے میں آنکھ کھولی، بائبل کی طالبہ کی حیثیت سے اسے اپنے کلاس فیلوز، رفقاء اور تمام اعزہ و اقربا میں نہایت زیرک اورہونہار سمجھا جاتا تھا۔ وہ بائبل کو گہری دلچسپی سے پڑھتی رہی مگرجس طرح وہ اپنے پیدائشی عقائد سے مطمئن نہیں تھی اسی طرح اسے بائبل نے بھی مطالعہ کے دوران میں کنفیوژن ہی کا شکار کیا ۔

اینا لنڈا ٹراؤ اسٹاڈوٹر نے عیسائی گھرانے میں آنکھ کھولی، بائبل کی طالبہ کی حیثیت سے اسے اپنے کلاس فیلوز، رفقاء اور تمام اعزہ و اقربا میں نہایت زیرک اورہونہار سمجھا جاتا تھا۔ وہ بائبل کو گہری دلچسپی سے پڑھتی رہی مگرجس طرح وہ اپنے پیدائشی عقائد سے مطمئن نہیں تھی اسی طرح اسے بائبل نے بھی مطالعہ کے دوران میں کنفیوژن ہی کا شکار کیا ۔ اس نے سچائی کی تلاش میں عیسائیت کا دوسرے مذاہب سے موازنہ کرنے کے لیے تمام اہم مذاہب کا مطالعہ کیا جب اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کیا تو اس کا دل پکار اٹھا ’’ جو چاہتی تھی وہ مل گیا‘‘اور اسٹاڈوٹر نے اپنا نام نور رکھ لیا اور معاشرے میں ظلمتوں کو نور میں بدلنے کے کار خیر میں جٹ گئی۔ اس کی کہانی اس کی اپنی زبان میں پیش خدمت ہے:

’’ میں 1966میں آئس لینڈ میں پیدا ہوئی، ڈنیش والدین کے ہاں بطور اینالنڈا ٹراؤ اسٹاڈ وٹر تولد ہوئی ۔ پہلے لوتھیران اور پھر نیویارک سٹی منتقل ہوگئی۔16سال کی عمر میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی۔1988ء میں میک گل یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ تب سے میں پوری دنیا کی سیر، حصول علم اور مشاہدہ و تجسس میں مصروف ہوں۔ 1990ء سے ڈنمارک میں میرا بیس کیمپ رہا ہے۔ 1997ء میں مجھے اس ضرورت کا شدت سے احساس ہوتا تھا کہ میں جان سکوں کہ بائبل اصل میں ہے کیا؟ اس میں کیا کچھ لکھا ہوا ہے ۔ میں سوچتی تھی جب تک بائبل کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ نہ کرلوں مجھے اپنے آپ کو عیسائی کہنے کا حق نہیں ہے۔ میں نے 1988ء میں دمشق یونیورسٹی میں بائبل کا بالا ستیعاب مطالعہ کیا۔ دوران مطالعہ میں نوٹس بھی لیتی رہی۔ جب میں نے ایک بار پوری کتاب پڑھ لی تو مجھے اندازہ ہوگیا کہ اس میں بہت سے تضادات پائے جاتے ہیں ، بہت سی باتوں سے اتفاق کرنا میرے لیے ممکن نہ تھا۔ مثلاً خدا اور عورت کی تصویر کشی اور جب میں نے پاک ہستیوں مثلاً نوحؑ ، لوطؑ اور داؤدؑ وغیرہ کے بارے میں پڑھا تو مجھے لگا کہ میں ان کے لیے دل میں کوئی احترام نہیں رکھتی مجھے صرف موسیٰ علیہ السلام (تورات سے) اور عیسیٰ علیہ السلام (بائبل سے) محبت اور عقیدت ہے۔

میں پہلے سے ہی تورات پڑھ چکی تھی، اب میں نے یہودی تلمود کو مکمل طور پر پڑھنے کی کوشش کی۔میں نے ہمیشہ سے یہ سنا تھا کہ یہودی ان لوگوں کے ساتھ جان پہچان نہیں رکھتے جو یہودیت اختیار نہیں کرتے اور یہ بھی کہ اکثر یہودی صیہونی ہیں (جو اسرائیل کے حامی ہیں انہیں صہیونی کہا جاتا ہے) میں صہیونیت اور اسرائیل کی مخالف تھی اور ’’ غلطی سے‘‘ سابقہ فلسطینی تھی۔ میں نے بدھ مت کا بھی جائزہ لیا لیکن فیصلہ کیا کہ یہ میرا مطلوبہ مذہب نہیں ہے ۔بدھ لوگ ایک خدا پر ایمان نہیں رکھتے جب کہ میں ہمیشہ سے ہی ایک خدا پر پختہ عقیدہ رکھتی تھی۔ ہندومت اب بھی ایک متبادل مذہب کے طور پر دلچسپ مذہب معلوم ہوتا تھا۔ میری والدہ اور میں ہندو مت پر بھی خاصی گفتگو کیا کرتے تھے۔ مجھے اس میں دلچسپی تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس میں بہت سے خداؤں پر ایمان کی باتیں تھیں لہٰذا ہندو مت قبول کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

جب 2001ء میں میرے ہاں پہلا بیٹا اینڈرس تولد ہوا تو مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا اس کا بپتسمہ کرانا ہے ؟ میں نے اس سے انکار کردیا تھا۔ میں سوچتی تھی کہ معصوم بچے کو جنت میں یقینی طورپر خوش آمدید کہا جائے گا۔ چاہے ان کابپتسمہ ہو یا نہ ہو۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی تھی کہ میں اس کو عیسائیت سے کیسے متعارف کروا سکتی تھی جب کہ خود میرا عیسائیت پر ایمان نہیں تھا اگرچہ میری پیدائش اور پرورش بطور پروٹسٹنٹ ہوئی تھی تاہم میں تثلیث ،مریم کے خدا ہونے ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خدا کا بیٹا ہونے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہمارے گناہوں کی بخشش کے لیے قربانی دینے پر یقین نہیں رکھتی تھی۔میں سوچتی تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر یہ پکارنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ ’’میرے خدا! میرے خدا! تم کیوں بھول گئے ہو؟‘‘ جب کہ عیسیٰ علیہ السلام جانتے تھے کہ انہیں خدا نے ایک خاص مشن کے ساتھ اپنا پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ میری پرورش ایسی ہوئی تھی کہ بڑی ہوکر میں اسلام اور مسلمان مخالف بن گئی تھی۔ یہ سچ ہے میں فی الواقع ایسی ہی تھی۔

قاہرہ میں عربی سیکھنے جانے سے پہلے میں اسلام اورمسلمانوں کی مخالف ہوچکی تھی۔ میں نے امریکہ میں پرورش پائی ۔ اس ملک میں ایسی دستاویزی فلمیں دیکھ دیکھ کر بڑی ہوئی جن میں عربوں کو ہمیشہ بنیاد پرست ، عورتوں کو محکوم بنا کر رکھنے والے مذہبی انتہا پسند اور دہشت گرد بنا کر پیش کیا۔انہیں کبھی نارمل لوگوں کے طورپر ظاہر نہیں کیا جاتاتھا۔ بہت سے عرب مخالف کبھی عرب ملکوں میں گئے ہی نہیں حالانکہ اگر وہاں جاتے تو حقیقت انہیں بالکل برعکس نظر آتی۔

1999ء میں ، میں سفارت خانے میں ملازمت کے لیے دوبارہ دمشق چلی گئی۔2000میں وہاں میری ملاقات محمد نامی ایک انجینئر سے ہوئی۔ میں نے اس سے شادی کرلی ۔ حالانکہ وہ مسلمان تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے محسوس ہوا کہ میں اس سے پیار کرتی تھی۔ وہ مسلمان تھا، ایک اچھا مسلمان ۔میں ڈنمارک اور پھر مشرق وسطیٰ میں مختلف مواقع پر مسلمانوں سے ملی۔ مجھے کئی اچھے عیسائیوں، یہودیوں، ہندوؤں اور بدھوں سے بھی ملنے کا اتفاق ہوا۔ میں نے سوچا یہ مسلمان جیسے بھی تھے اسلام کی بہرحال نمائندگی کرتے تھے۔ جب میں نے مسلمانوں سے ان کے مذہب اسلام کے بارے میں کوئی سوال پوچھا تو اگرکبھی وہ کماحقہ معلومات نہیں بھی رکھتے تھے پھر بھی دعویٰ یہی کیا کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں۔ اپنے آپ کو اسلام کا ماہر ہی کہا ۔ مجھے بعض مسلمانوں نے پورے اعتماد کے ساتھ بعض ایسی معلومات بھی بہم پہنچائیں جو بعد میں غلط ثابت ہوئیں۔یہ زیادہ مناسب تھا کہ وہ غلط معلومات دینے کے بجائے صاف صاف کہہ دیتے کہ ’’ میں نہیں جانتا‘‘ یا یہ کہ ’’ میں پورے یقین کے ساتھ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘‘ تاہم اس کے باوجود میں نے عیسائیت یا کسی اور مذہب کو اس کے پیرو کاروں کے حوالے سے نہیں جانچا۔

حیرت کی بات ہے کہ میں نے اسلام کو ہر ملنے والے عربی شخص سے جانچا، حالانکہ تمام عرب مسلمان نہیں۔ ان میں کچھ پروٹسٹنٹ ، کچھ کیتھولک اور بعض یہودی بھی ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت عرب نہیں ہے کیونکہ مسلمان انڈونیشیا ، انڈیا، چین ، مقدونیہ ، ملیشیا ، روس ، تھائی لینڈ ، افریقہ ، بوسنیا ، امریکہ او ر سویڈن سے بھی تعلق رکھتے ہیں ۔

میری پرورش اور تربیت کے دوران میں مجھے متعصب نہ بننے کی تلقین کی گئی لیکن سچی بات ہے کہ میں متعصب تھی اور اس کا ادراک ہونے میں مجھے خاصا عرصہ لگا۔ اپنے شوہر کے ساتھ کئی کئی گھنٹوں پر مشتمل گفتگو کرنے اور بہت سے دلائل پیش کرنے کے بعد ہی میں نے کھلے دل سے تسلیم کیا کہ میں نے ابھی اسلام کی صحیح تصویر نہیں دیکھی۔ میں نے نومبر 2002ء کے رمضان المبارک کے دوران محمد سے کہا کہ وہ مجھے عربی میں قرآن پڑھنے میں مدد کرے۔ ان کے پاس وقت بہت کم ہوتا تھا لیکن میں نے پختہ عہد کیا ہوا تھا کہ صحیح ترجمے کی مدد سے عربی زبان میں قرآن مجید پڑھوں گی۔ چنانچہ جب میں نے قرآن پڑھا تو دیکھا کہ یہ تو انتہائی خوب صورت، سائنٹفک،ہمدرد اور حقوق نسواں کا علمبردار ہے۔

میں نے اب تک غیر مسلموں کی اسلام کے موضوع پر لکھی گئی جتنی بھی کتابیں پڑھی تھیں ان سب میں اسلام کی منفی تصویر پیش کی گئی تھی جن لوگوں نے اسلام کے خلاف کتابیں لکھی تھیں انہوں نے بعض جگہوں پر قرآن کی منتخب اور اپنی پسند کی آیات لے لی تھیں اور باقی حصہ چھوڑ دیا تھا یا آیات کا ترجمہ دانستہ یا نا دانستہ غلط کیا تھا۔ میں اتنی عربی جانتی تھی کہ اب مجھے معلوم ہورہا تھا کہ جو کچھ میں پڑھ رہی ہوں ،یہ اس سے مختلف تھا جو میں اب تک پڑھتی رہی تھی۔ اس میں وہ معلومات تھیں جو سائنس نے حال ہی میں دریافت کی تھیں۔ میرا مطلب ہے کہ قرآن میں بلیک ہولز (Black Holes) خلائی سفر ، ڈی این اے ، جینیاتی سائنس ، ارتقاء ، جیا لوجی، سمندروں کا علم ، رحم مادر میں بچے کی نشوونما کا عمل ، ہر چیز کی ابتداء کے متعلق بتایا گیا تھاکہ وہ پانی سے ہوتی ہے ۔ میں نے ہمیشہ یہی سنا تھا کہ قرآن ، بائبل ہی سے ماخوذ ہے لیکن مذکورہ بالا باتوں میں سے کوئی بھی بات بائبل میں موجود نہیں تھی۔

میں حیران تھی کہ 1400سال پہلے کے دور کا ایک شخص کیسے یہ سب باتیں جانتا تھا یا اس طرح کی باتیں لکھ سکتا تھا، ان میں بعض نظریات تو بالکل حال ہی میں دریافت ہوئے ہیں ۔ پھر میں نے سوچا کہ عرب سائنس دان، نجومی ، ریاضی دان ، نقشہ جات کے ماہر اس وقت بڑے ایڈوانس تھے اور شاید ان میں سے کچھ نے مل کر ایک کتاب مکمل کی جس میں تورات اور انجیل سے کچھ چیزیں اخذ کرکے شامل کی ہوں لیکن پھر میں نے مزید مطالعہ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ عرب کے سائنسی ارتقاء نے خود اسلام کی پیروی کی تھی۔

میں نے پڑھا کہ مسلمان ا س بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عرب یہودی بھی خدا کو اللہ کہتے ہیں۔مسلمان تمام پیغمبروں مثلاً ابرہیم ؑ، سلیمانؑ، نوحؑ اور بائبل میں موجود ہر پیغمبر کی عزت اور احترام کرتے ہیں۔ اس میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ کچھ اور پیغمبر بھی تھے جو دوسری اقوام کے لیے بھیجے گئے تھے تاکہ انہیں ہدایت کا راستہ دکھا سکیں۔

یہ بھی کہاجاتا تھاکہ گوتم بدھ بھی ایک پیغمبر تھے لیکن انہوں نے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کبھی لوگوں کو یہ تعلیم نہیں دی کہ وہ خدا سے برتر ہیں بلکہ وہ تو صرف اور صرف خدا کے پیغمبر ہیں۔ وہ اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ محمد آخری پیغمبر ہیں اور یہ مسیح علیہ السلام واپس اس دنیا میں آجائیں گے۔ قرآن میں یہ کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری آنکھوں پر پردہ ڈال کر اور ہمارے دلوں پر پتھر رکھ کر ہمیں قرآن کا پیغام سننے یا دیکھنے سے محروم رکھ سکتا ہے۔

میں نے 2002ء میں ایک ناقابل یقین خواب دیکھا جس کی وجہ سے میں مذہب کے حوالے سے زیادہ گہرائی سے سوچنے اور غور و فکر کرنے لگ گئی ۔ آئس لینڈ میں خوابوں کو بہت اہمیت دی جاتی ہے ۔ خوابوں کی تعبیر بیان کرنا بھی ایک سائنس ہے۔ میں نے کبھی مذہب کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ مجھے مذہب سے لگاؤ تو محسوس ہوتا تھا لیکن میں سمجھتی تھی کہ بس خدا پر ایمان رکھنا ہی کافی ہے۔ میں نے ہر مذہب سے کچھ چیزیں منتخب کرکے اپنا ایک اینازمکس (ANNA’S MIX)بنا لیا تھا۔

جنوری2003ء میں ، میں نے انٹر نیٹ پر اسلام، قرآن یا مسلم وغیرہ جیسی چیزیں تلاش کرنا شروع کیں۔ مارچ میں مجھے آئس لینڈ ہی کی ایک بہترین سہیلی سے بات چیت کا موقع ملا جو مسلمان تھی ۔ اس نے مجھے قرآن کریم کے ایک بہت ہی اچھے ترجمے (جو عبداللہ یوسف نے کیا تھا) کے متعلق بتایا کہ اصل عربی متن کے ساتھ ساتھ اس ترجمے کا مطالعہ کروں۔ میں نے اپریل میں یہ ترجمہ حاصل کرلیا اور اس کے مطالعے میں مصروف ہوگئی۔ مئی 2003ء میں میری وہی سہیلی ہمارے گھر دو ہفتے تک قیام کے لیے آئی۔ اس دوران ہم نے قرآن پر گفتگو شروع کردی۔ میں نے اسے بتایا کہ میں قرآن پاک کا ترجمہ آئس لینڈ کی زبان میں کرنا چاہتی ہوں ۔ اس نے بتایاکہ وہ خودبھی اس کی خواہش رکھتی ہے ۔ ہم نے اس بات پر اتفاق کرلیا کہ ہم دونوں مل کر ترجمہ کریں گی۔ہم تقریباً روز سارا سارا دن عیسائیت ، یہودیت اور اسلام پر گفتگو کرتے۔ وہ ان دنوں اپنے لوتھران عقیدے کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہوچکی تھی اور یہودیت کے بارے میں سوچنے لگی تھی۔

اس نے اسرائیل کا دو مرتبہ دورہ کیا اور دوسرے دورے پر ہی عرب اسرائیل تنازعہ کے دوسرے رخ پر غور کرنا شروع کیا۔ اسے اسلام سے دلچسپی ہوگئی۔ وہ بہت پہلے سے اسی راستے پر چل رہی تھی جس پر میں اب چلنے لگی تھی۔ ہم دونوں ایک جیسے نتائج پر پہنچی تھیں۔ اس نے جب 1995ء میں مجھے بتایا کہ وہ مسلمان ہوگئی ہے تو میں اس سے بہت ناگوار طریقے سے پیش آئی ۔ میں اس کی مذمت کررہی تھی۔( آج میں اس بات سے بے حد ندامت محسوس کررہی ہوں کہ میں اسے اس موقع پر سپورٹ نہ کرسکی) پھر مجھے اپنا آپ مسلمان لگنے لگا۔ میں نے اپنے شوہر کو اپنی اندرونی تبدیلیوں کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے مجھ سے خاصی دیر تک سوال کیے ۔ انہوں نے مجھے کہا کہ مسلمان ہونے سے میری زندگی بے حد مشکل ہوجائے گی، جو لوگ اسلام کے بارے میں صحیح نہیں جانتے وہ میرا مذاق اڑائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میرے مسلمان ہو جانے کے بعد شاید مجھے اپنی سہیلیوں اور گھر والوں سے قطع تعلق کرنا پڑے۔ انہیں اس بات کا خدشہ تھا کہ جو لوگ مجھے بہت اچھی طرح نہیں جانتے یا جنہیں زیادہ عرصے تک دیکھنے یا ملنے کا اتفاق نہیں ہواوہ سمجھیں گے کہ میرا شوہر مجھ پر مسلمان ہونے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے ۔

میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو اب تک ہماری شادی نہ ہوئی ہوتی کیونکہ جس وقت ہماری شادی ہوئی تھی اس وقت میں عیسائی تھی اور ابھی تک عیسائی ہی رہی تھی۔ میں نے یہ دلیل بھی دی کہ جو لوگ مجھے جانتے ہیں، انہیں پتہ ہے کہ میں بے حد مضبوط ذہنیت رکھنے والی، حقوق نسواں کی سچی علمبردار، خود پسند ہوں لیکن تنگ نظر نہیں ہوں اور یہ کہ کوئی مجھ پر اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتا۔ میں نے اسی وقت اور اسی جگہ فیصلہ کرلیا کہ اگر میرے مسلمان ہوجانے کے بعدمیرے دوست احباب اور گھر والے میرے ساتھ تعلق نہیں رکھنا چاہتے تو نہ رکھیں ۔ میرا مذہب میرا معاملہ ہے اور مجھے عیسائیت ، یہودیت، ہندو مت، بدھ مت اور اسلام پر کی جانے والی اپنی تحقیق پر فخر ہے۔ اس فیصلے پر پہنچنے میں مجھے کئی سال لگے ۔

کئی کئی گھنٹے مطالعے اور تحقیق میں غرق رہتی تھی۔ خدا پر میرا عقیدہ ایسی چیز ہے جسے ہمیشہ میں نے سنجیدگی سے لیا تھا او رمجھے اس عقیدے کے کھلم کھلا اعلان پر کبھی شرمندگی محسوس نہیں ہوئی۔ حالانکہ لوگوں نے میرا مذاق اڑایا کہ میں ایک ایسی چیز پر ایمان لے آئی ہوں جسے لوگ دیکھ نہیں سکتے۔ میں نے انہیں دلیل دی کہ اپنے اردگرد کی چیزوں کو دیکھو، کس نے پیدا کی ہیں۔ ہم میںسے کچھ لوگ اسلام کو محض ایک رسم سمجھتے ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ عظیم ترین مذہب ہے ۔ اس سیارے پر موجود ہرچار میں سے ایک فرد مسلمان ہے اور سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام ہی ہے۔ آخر کار 4جون 2003ء کو میں نے باقاعدہ مسلمان ہونے کا فیصلہ کرلیا تاکہ حج کے لیے مکہ جاسکوں۔

میں طویل عرصے تک مختلف سوالات کے جواب تلاش کرتی رہی۔ میں نے 1990ء کے وسط میں مختلف عقائد پر لکھی گئی کتابیں خریدنا شروع کی تھیں۔ میرا خیال تھا کہ مجھے اپنے سوالات کے جوابات ضرور مل جائیں گے۔ مجھے وہ لمحہ بھی یاد ہے کہ جب پہلی بار میں نے اذان سنی تھی۔ یہ فروری1997ء کی ایک روشن اتوار کی بات ہے ۔ میں قاہرہ میں تھی، اس وقت چرچ کی گھنٹیاں بج رہی تھیں لیکن میں نے اذان کی آواز سنی تو مجھے احساس تک نہ ہوا کہ میری آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہہ رہا تھا۔ میں مسلمان نہیں تھی لیکن اس آواز نے مجھے بے حد متاثر کیا تھا۔ میری ایک بہت مخلص سہیلی تھی جو کیتھولک تھی۔ بہت پہلے بیروت چلی گئی تھی۔ہوٹل میں مقیم تھی ، لبنان میں پہلی رات ہی کو صبح ساڑھے چار بجے وہ اذان کی آواز سن کر اٹھ گئی تھی۔ اسے بھی اذان کی آواز نے اتنا متاثر کیا کہ اس کی آنکھوں نے آنسو کی جھڑیاں لگا دی تھیں۔

میں نے آج تک جتنی بھی کتابیں پڑھی تھیں، ان میں سب سے جامع اور مکمل قرآن کریم ہی تھا۔ اس میں زندگی کے ہر رخ کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مجھے آج تک قرآن کے علاوہ کسی دوسری کتاب نے نہیں رلایا۔ آپ قرآن کریم کو جتنا زیادہ پڑھیں اسے اتناہی زیادہ سمجھتے ہیں، قرآن مزید مطالعے پرابھارتا ہے ۔ آپ جب بھی اسے پڑھیں گے سمجھ بوجھ کے نئے نئے ابواب کھلیں گے۔ میں کوئی ماہر نہیںہوں اور نہ ہی کبھی ہوسکتی ہوں ۔ اگر باقی ماندہ زندگی میں روزانہ تلاوت کلام پاک کرتی رہوں۔ہر بار اس میں نت نئی چیزیں ملیں گی۔ میں نے انٹر نیٹ پر بعض نئی مسلمان سہیلیاںبھی بنا لی ہیں۔ ٭

a3w
a3w