سیاستمضامین

بذریعۂ زبانی ہبہ میمورنڈم جائیدادوں کی ورثاء میں تقسیم آج وقت کی ضرورت ہےجائیدادوں کی منصفانہ تقسیم کرنے کا کانگریس نے برسراقتدار آنے کے بعد وعدہ کیا ہے

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد

٭ مودی حکومت اگر برسراقتدار آئے تو وراثت ٹیکس لاگو ہوگا۔
٭ کانگریس کے برسرِاقتدار آنے پر جائیدادوں کی منصافنہ تقسیم ہوگی۔ نیا قانون نافذ ہوگا۔
٭ کیا ہندوستان کمیونزم کی راہ پر گامزن ہوگا؟
٭ مسلمانوں کو وقت کے تیور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
مودی کے سہ بارہ برسرِاقتدار آنے کے بعد جو خطرناک تبدیلیاں آئیں گی ان میں آئین کی تنسیخ یا تبدیلی ۔ ملک میں ہندوراشٹر کا نفاذ۔ مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنادینا اور بہت سی ایسی باتیں ہوں گی جو مسلمانوں کے لیے بہت مشکل حالات پیدا کردیں گے۔ سب سے پہلے جو قانون سازی ہوگی وہ وراثت ٹیکس کا اطلاق ہوگا جس کی حد کل جائیداد کا60فیصد تک ہوسکتی ہے۔
دوسری جانب اگر کانگریس اپنے انڈیا گروپ کے ساتھ برسرِاقتدارآتی ہے تو بھی حالت کچھ ٹھیک نہیں رہے گی۔ کانگریس نے اعلان کیا ہے کہ ملک کی80فیصد دولت یعنی جائیداد وغیرہ صرف5فیصد افراد کے ہاتھوں میں ہے اور مابقی 20فیصد 80فیصد آبادی کے ہاتھوں میں ہے۔ لہٰذا اربن لینڈ سیلنگ کی طرح جائیدادوں پر بھی سیلنگ کا قانون پاس ہوسکتا ہے۔ اربن لینڈ سیلنگ ایکٹ کے مطابق شہری علاقوں میں اراضیات کی حد صرف ایک ہزار مربع گز تھی۔لہٰذا اربن لینڈ سیلنگ ایکٹ کے خطوط پر تعمیر شدہ جائیدادوں اور اراضیات کی سیلنگ کا قانون پاس ہوسکتا ہے۔ ان کے مطابق ملک کی زیادہ تر جائیدادیں چند ہاتھوں میں ہیں۔ گویااگر ایسی صورت پیدا ہو تو ہمارا پیارا ملک ایک کمیونسٹ ملک بن جائے گا۔ دولت کی منصفانہ تقسیم جائیدادوں کی منصفانہ تقسیم ہی ہے کیوں کہ ملک کی ساری دولت جائیدادوں اور اراضیات ہی میں ہے۔
لہٰذا ملک کے مسلمانوں کے لئے یہ خطرہ کی گھنٹی ہے۔ گویا ہندوستانی مسلمان Between Devil and the Deep Sea ہیں۔
لہٰذا ان پریشانیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے سب سے بہتر یہ راہ ہوگی کہ اپنی جائیدادوں کی منصفانہ تقسیم اپنے ہی ورثاء میں کردی جائے تاکہ بڑی بڑی اور قیمتی جائیدادیں کسی ایک شخص کے ہاتھ میں نہ رہیں۔ اس وارننگ کو ہلکے میں نہیں لینا چاہیے۔ اخبارات اور سوشیل میڈیا کی اسٹڈی کیجئے اندازہ ہوجائے گا۔
اولین فرصت میں بذریعۂ ہبہ میمورنڈم اپنی جائیدادوں کو اپنے ہی ورثاء میں تقسیم کردینا وقت کی پکار اور ضرورت بھی۔
فوری طور پر میمورنڈم آف گفٹ تیار کیجئے۔ رجسٹری اور لاکھوں روپیہ کے اخراجات نہیں ہوں گے۔ گھر بیٹھے یہ کام ہوجائے گا۔ لہٰذا وقت کے تیور کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
سوال:- حیدرآباد کے ایک مغربی علاقہ میں جنرل پاور آف اٹارنی کے ذریعہ نوٹری سے خریدی ہوئی اراضیات کے پلاٹس پر تعمیر کی گئی کئی عمارتیں ہیں جن میں رہائشی مکانات‘ دوکانیاں یہاں تک کہ اسکول بھی چل رہے ہیں۔ ان مکانات میں کوئی بھی ایسا مکان نہیں ہے جس کی رجسٹری ہوئی ہو۔ البتہ گفٹ رجسٹری بعد کے عرصہ میں ہوئی ہے۔ اب ایسی افواہیں سرگرم ہیں کہ یہ اراضیات اربن لینڈ سیلنگ میں فاضل قرارشدہ ہیں۔ کچھ سال پہلے ایک اسکیم نکلی تھی جس کے بموجب ان مکانوں کی قیمت وصول کرکے حکومت قبضہ جات کو باقاعدہ بنادے گی۔ اس علاقہ میں کسی نے بھی ایسی کوئی درخواست پیش کی ہے ۔ تقریباً پانچ سال پہلے تحصیلدار نے نوٹس جاری کی تھی اور رقومات کا مطالبہ کیا تھا یہ کہہ کر کہ یہ ساری اراضیات سرکاری اراضی کے زمرے میں ہیں کیوں کہ یہ سیلنگ میں فاضل قرارشدہ ہیں۔ اس ضمن میں آپ سے رائے مطلوب ہے۔
X-Y-Zاور کئی دستخطیں
جواب:- اربن لینڈ سیلنگ اب ایک بھولاہوا خواب ہوچکا ہے۔ 23مارچ 2008ء کے بعد حکومت کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے کہ کیوں کہ متذکرہ تاریخ پرجس کا بھی قبضہ ہو وہی مالک قرارپائے گا۔ حکومت کو چالیس سال بعد اب یہ حق حاصل نہیں کہ ان اراضیات پر اپنا مالکانہ حق بنائے۔ اس ضمن میں اگر کوئی بھی نوٹس آئے تو پریشان نہ ہوں۔ نوٹس کا معقول جواب دے کر تحصیلدار یا کلکٹر ضلع کو ہوش میں لایا جاسکتا ہے۔ آپ حضرات بے فکر رہیں۔
GHMC کا تعمیری اجازت سے انکار۔ NOC پیش کرنے کا مطالبہ
میں نے1982ء میں بنجارہ ہلز میں ایک600 مربع گز موازی پلاٹ خریدا تھا۔ سابقہ مالک نے بذریعہ رجسٹری یہ اراضی میرے نام پر منتقلی کی تھی۔ کُل خرید کی قیمت 36ہزار روپیہ تھی۔ میں نے اراضی کی حصار بندی کی تھی ۔ بعد میں اس علاقہ میں ایک لے آؤٹ منظور ہوا جس میں میری اراضی کا ذکر یا نشان نہیں تھا۔ تاہم اب تک میرا قبضہ برقرار ہے۔ میری اراضی پر گورنمنٹ نے کوئی بورڈ بھی آویزاں نہیں کیا۔ میں نے تحصیلدار سے میری اراضی کے سروے نمبر کی مدد سے مکمل موقف دریافت کیا ‘ جواب ملا کہ یہ پرائیوٹ اراضی ہے اور موجودہ مالک کون ہے ہم نہیں جانتے۔
لہٰذا میں نے وطن واپسی کے بعد اپنی اراضی پر ایک پلان تیار کیا اور فیس ادا کرکے اجازت طلب کی۔ کچھ دنوں بعد جواب ملا کہ ہمارے ریکارڈ کے مطابق یہ گورنمنٹ اراضی ہے۔ اگر آپ کلکٹر حیدرآباد سے NOC لے کر پیش کریں گے تو آگے کی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اب ایسی اسکیم بند ہوچکی ہے اور دوبارہ ایسی اسکیم شروع ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔ اس صورت میں آپ سے جواب طلب کیا جارہا ہے۔ براہِ کرم اپنے جواب کی اشاعت فرمائیں تاکہ حسبِ ہدایت عمل کیا جاسکے۔فقط
X-Y-Xحیدرآباد
جواب:-اس قسم کی دھاندلیاں روز کا معمول ہیں۔ آپ کے پاس صرف ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے۔ آپ اولین فرصت میں ہائیکورٹ میں رٹ درخواست پیش کریں۔ نوٹس جاری کی جائے گی۔ کلکٹر تحصیلدار اور حکومتِ تلنگانہ کو فریق بنانا پڑے گا۔ امید ہے کہ آپ کو ہائیکورٹ راحت بہم پہنچائے گا۔ جب گورنمنٹ ریکارڈ میں اس اراضی کا (Classification) پرائیوٹ پٹہ اراضی ہے تو اس قسم کی دھاندلی ناقابلِ قبول ہے۔ جلد از جلد کارروائی کا آغاز کیجئے۔
سوال:- ایک مرحوم صاحبِ جائیداد انتقال کرگئے۔ ورثاء میں دو بیوائیں۔ ایک بیوہ کا لڑکا اور دوسری بیوہ کو چھ بچے اور دو لڑکیاں ہیں۔ جب ترکہ کا سوال اٹھا تو خاندان کے بزرگوں نے جائیداد کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک بیوہ اور اس کے واحد فرزند کو نصف حصہ دیدیا اور دوسری بیوہ اور اس کے چھ لڑکوں اور دو لڑکیوں کو نصف جائیداد عطا کی۔ دوسری بیوہ اس تقسیم سے ناراض ہے۔ ابھی تقسیم نہیں ہوئی ہے۔ متروکہ جائیدادوں میں کئی پلاٹس‘ چار مکانات‘ چھ دوکانیں اور ایک چلتا ہوا کاروبار ہے ۔ براہِ کرم اس متروکہ کی تقسیم فرمائیے اور بتائیے کہ تمام حصہ جات کتنے ہیں اور کس وارث کو کتنا حق ملے گا۔ فقط
X-Y-Z حیدرآباد
جواب:- بزرگان خاندان کی یہ بندر بانٹ شرع شریف کی خلاف ورزی میں ہے۔ شرعی طور پر تمام ورثاء اپنے مختص حق کے حقدار ہیں۔ تقسیم اس طرح ہو تو شرعی تقاضوں کی تکمیل ہوگی۔ کل اثاثہ بشمول پلاٹس ‘ مکانات‘ دوکانات اور مالِ تجارت میں سب ورثاء کا حق اس طرح ہوگا۔
-1 دونوں بیواؤں کا کل حصہ آٹھواں ہوگا۔ ہر بیوہ 1/16کی حقدار ہوگی۔
-2 جملہ7بیٹوں اور 2 بیٹیوں کا حصہ مابقی حصوں میں 2اور ایک کے تناسب میں ہوگا۔ ایک بیٹے کا حصہ بیٹی کے بہ نسبت دوگنا ہوگا۔ اصول یہ ہے کہ بیوہ ایک ہو یا چار ‘ تمام کا حصہ 1/8 ہوگا۔ مابقی جو بھی ہو بیٹیوں اور بیٹوں میں دو اور ایک کی نسبت میں تقسیم ہوگی۔
عموماً ایسی تقسیم کو احکاماتِ شریعت سے بے نیاز لوگ تسلیم نہیں کرتے اور تاویلات لاتے ہیں‘ جو سراسر ناقابلِ قبول ہے۔ اگر مرحوم نے اپنی حیات ہی میں اپنی جائیداد کی تقسیم بذریعہ ہبہ میمورنڈم کردی ہوتی تو یہ صورت پیدا نہ ہوتی۔ ہم اس دور سے گزررہے ہیں جب ہر شخص حقدار کے حق کو مارنے پر آمادہ نظر آتا ہے۔ ایسی صورتیں بعد مرگ پیدا ہوتی ہیں۔
تقسیم ترکہ ۔ ہبہ میمورنڈم
سوال:- ایک بزرگ کے تین صاحبزادوں میں ایک لڑکے کا انتقال ہوگیا۔ بزرگ وسیع جائیداد کے مالک ہیں۔ ان کے تینوں صاحبزادے صاحبِ اولاد ہیں۔ مرحوم بیٹے کا ایک لڑکا ہے جس کی عمر بارہ سال ہے۔ اس کے علاوہ ایک بیوہ ہے۔ اسلامی قانون کے مطابق اگر صاحب جائیداد بزرگ انتقال کرجائیں تو ان کے مرحوم کا معصوم بیٹا لاوارث ہوگا علاوہ ازیں اس کی ماں کو بھی کچھ نہ ملے گا۔ حضرت چاہتے ہیں کہ اپنی زندگی ہی میں اپنے مرحوم بیٹے کے فرزند کو وہ تمام حصہ دیدیں جو اس کے والد کو ملتا۔ لیکن دوسرے لڑکے اس کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ بزرگ پر دباؤ ڈالا جارہا ہے ۔ بدتمیزی بھی کی جارہی ہے اور گالی گلوج بھی کی جارہی ہے۔ بزرگ نے تمام جائیدادوں کے دستاویزات اپنے ایک عزیز دوست کے پاس رکھوادیئے ہیں۔ اب کوشش کی جارہی ہے کہ کسی طرح سے جائیداد کے کاغذات حاصل کئے جائیں۔ بزرگ ان دونوں نالائق لڑکوں سے عاجز آگئے ہیں اور انہیں عاق تک کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ بزرگ کے لئے کیا قانونی اور شرعی حکم ہے تاکہ ان کے یتیم پوتے کا حق محفوظ ہوجائے۔
مسجد۔ کمیٹی ۔ حیدرآباد
جواب:- بزرگ کے دونوں نالائق لڑکے اس قابل ہیں کہ انہیں جائیداد سے محروم کردیاجائے۔ بزرگ کو چاہیے کہ تمام جائیداد اپنے یتیم پوتے کے نام منتقل کردیں۔ رجسٹری باضابطہ ہونی چاہیے۔ اگر وہ یہ نہیں کرسکتے تو انہیں وصیت کرنی چاہیے کہ ان کے بعد ان کا پوتا ایک تہائی جائیداد کا مالک ہوگا۔ اگر یہ بھی نہیں ہوسکتا تو تمام جائیداد کو فروخت کرکے ایک تہائی رقم مرحوم بیٹے کے بیٹے کے نام فکسڈ کروادی جائے۔ اگر اس ارادہ کا اظہار کیا جائے تو نالائق بیٹوں کا دماغ ٹھکانے آجائے گا۔ اسلام میں عاق کرنے کی گنجائش نہیں۔ اگر بزرگ داعیٔ اجل کو لبیک کہہ دیں تو معصوم پوتا محروم ہوجائے گا۔ لہٰذا سب سے بہتر یہ بات ہوگی کہ مرحوم بذریعۂ زبانی ہبہ میمورنڈم ایک تہائی جائیداد یتیم پوتے کے نام منتقل کردیں اور اس کی ماں کی ولایت میں اس کے حوالے کردیں۔ اس عمل میں رجسٹریشن کے اخراجات بھی نہیں ہوں گے۔ اولاد کا یہ طرز عمل انتہائی لائق مذمت ہے۔
حالت نشہ میں دی ہوئی طلاق
سوال:- حالت نشہ میں دی ہوئی طلاق کیا جائز ہے۔ ؟ اس کے کیااثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
عبدالسلام۔ حیدرآباد
جواب:- حالتِ نشہ میں کیا ہوا ہر کام ناجائز ہے۔ لیکن اس کلیہ کا طلاق کے عمل پر کوئی اثر نہ ہوگا۔ طلاق کے کلمات کو ازراہِ مذاق بھی نہیں کہاجاسکتا۔ حالتِ نشہ میں دی ہوئی طلاق سے رشتہ ازدواج ٹوٹ جاتا ہے۔ غیض و غضب کی حالت میں بھی اگر طلاق دی جائے تو طلاق واقع ہوجائے گی۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو غصہ‘ غیض وغضب ‘ نشہ اور بھونڈے مذاق سے محفوظ رکھے۔ لیکن آج کل ایسا عمل جرم کی تعریف میں آتا ہے جس میں سزائے قید ہوسکتی ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w