بلا سے جی تو بہلے

نصرت فاطمہ
بہت سوچنے پر کوئی موضوع ہاتھ نہ آیا تو ہم نے سوچا کہ چلو آج تھوڑا سوشل میڈیا کو ہی لتاڑا جائے۔ ہم یہ بونگی ہرگز نہیں ماریں گے کہ ہم سوشل میڈیا کا استعمال نہیں کرتے۔ ہم تو اس بات پر یقین رکھتے ہوئے اس کا استعمال کرتے ہیں کہ جب تک کسی چیز کا استعمال نہ کیا جائے، اس کے فائدہ اور نقصانات کے بارے میں کہنا مشکل ہوتا ہے۔ ارے نہیں! اب آپ کہیں گے کہ ہم "ہر” شئے کو آزمانے کی بات کررہے ہیں۔ جی نہیں۔ کچھ چیزیں آزمائے بغیر بھی دور سے ہی خطرے کا سگنل دے دیتی ہیں۔ اب ہر جگہ صرف دل کا معاملہ تو ہوتا نہیں کہ شاعر فرمائیں
بدلتی ہے نظر،دل کس طرح بے زار ہوتے ہیں
پتہ چلتا ہے ماجد یہ کسی کو آزمانے پر
ویسے آپ حضرات یہ جانتے ہی ہوں گے کہ آج سے کچھ عرصہ قبل ہمارے بیچ یہ سوشل میڈیا جیسی کوئی "بلا” نہیں تھی.۔ویسے ہم ضرور یہ کہہ سکتے ہیں کہ مختلف طریقوں سے اس "بلا” کے ذریعے کسی کا”بھلا” کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ بشرطیکہ نیت درست ہو۔
اور ہمارا یہ بھی ماننا ہے کہ کسی بھی چیز کے مثبت اور منفی پہلو ہوا کرتے ہیں۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس کا استعمال کیسے کرتے ہیں۔ موبائل فون کے متعلق بات کریں گے تو ایجاد کرنے والے نے تو شاید اس کو سب سے تعلق جوڑے رکھنے کے لئے اورخیریت وغیرہ پوچھنے کے لئے ایجاد کیا ہوگا اور اسکی ابتدائی کمپنی نوکیا فون کا سلوگن بھی آپ کو یاد ہوگا کہ "کنیکٹ ِانگ پیپل” مطلب یہ تھا کہ "لوگ ایک دوسرے سے جْڑے رہیں "
اب نہ وہ ٹیگ لائن رہی نہ وہ بے چارہ نوکیا فون. اس لئے دوسری موبائل-فون کمپنیوں نے اسکو "کنیکٹ ِانگ پیپل” سے "ڈس کنیکٹ ِانگ پیپل” بنا دیا ہے۔ اس کی مثال دیکھنی ہوتو زیادہ دور نہیں اپنے آس پاس ہی دیکھ لیں. بیچارے ہم کہیں کسی کے پاس بیٹھے ہوں تو ہمیں نظر انداز کرنے کے لئے لوگ خود کو فون میں گْم ظاہر کرتے ہیں اور ہم نے اپنی ان گنہگار آنکھوں سے کسی فیملی کو ہوٹل میں کھانا آرڈر کرنے کے بعد بجائے بحث یا باتیں کرنے کے، لاتعلقی سے اپنے اپنے فون میں ہی مصروف دیکھا۔ تو اس بات کا مطلب سمجھ آیا کہ یہ رابطہ بحال کرنے والی چیز تو نہیں لگ رہی۔ یہ تو رابطہ توڑنے والی چیز بن چکی ہے.۔آپ کو یاد ہوگا وہ سنہرا دور کہ اسی بیچارے آلے نے کچھ عرصہ وہ کوشش بھی کرڈالی کہ آپ کو اپنے رشتوں سے جوڑے رکھے، لیکن اس میں بھی کہیں کہیں یہ قباحت پیش آنے لگی تھی کہ بجائے "رائیٹ نمبر” کے "رانگ نمبر” کی کالس پر زیادہ تعلقات بننے لگے تھے۔ وہ بھی اک دور تھا کہ "فری منٹس” کے چکر میں فری نہ ہونے والے بھی فری ہونے لگ گئے تھے اور کم بولنے والے بھی بولنے لگ پڑے تھے۔ خیر سے آج بھی اس موبائل فون نے کتنی ہی فری ایپس دے رکھی ہیں کہ آؤ اور ہمارا استعمال کرو۔ چاہے آپ دنیا کے کسی کونے میں کیوں نہ ہوں، ایک کال کی دیر ہے۔لگ جائیے گھنٹوں کی گپ شپ میں۔ یہ تو سہولت کی بات ہوگئی ہے جس کا استعمال ہم بھی اکثر کیا کرتے ہیں کہ
دیکھ بھی لیجئے بات بھی کیجئے ٭ بات بھی کیجئے دیکھ بھی لیجئے
لیکن اسکے علاوہ بھی رشتے داری نبھائی جاتی ہے،واٹس ایپ کے ذریعے۔ کمالات تو دیکھیں کہ بیچارے مارک زکر برگ نے گروپس بنانے کی بھی آزادی دے رکھی ہے کہ آج کئی بھولے بھٹکے رشتہ دار بھی اس پر(ریڈی میڈ اسٹیکرز کے ذریعے ہی سہی)سلام اور نہ صرف خیر خیریت دریافت کرتے نظر آتے ہیں بلکہ شادی بیاہ، بیماری، دعاؤں میں یاد دہانی اور انتقال کی خبریں اس پر دیا کرتے ہیں۔ اور اسی واٹس ایپ کے کمالات کہ اس پر بعض اوقات بحث مباحثہ یہاں تک جا پہنچتا ہے کہ پتہ چلا کسی ناراض رشتہ دار نے گروپ ایگزٹ کردیا… اب یہ تو آپ بہتر جانتے ہوں گے کہ انہیں منا کر واپس کیسے لایا جاتا ہے۔ مزید واٹس ایپ نے اسٹوری رکھنے کا فیچر بھی رکھا ہے اور ہم اس طرح اپنے موبائل فون کے کنٹیکٹ لسٹ میں موجود کبھی اپنے واچ مین کی تو کبھی اپنے پلمبر کی ہو یا کارپینٹر کی دلسوز (ٹک ٹاک) وڈیوز دیکھ لیتے ہیں اور حد تو یہ کہ اپنے اْن رشتہ داروں کی اسٹوریز بھی دیکھ لیتے ہیں جن سے ہماری عید کے عید بھی دعا سلام نہیں ہوتی۔ خیر ہے اس طرح ہمیں پتہ تو چل ہی جاتا ہے کہ کس کے بچے کی کونسی سالگِرہ ہے۔ کون کدھر کی سیر پہ نکلا ہوا ہے.. ارے انکے ہاں شادی ہے شاید، مہندی والے ہاتھ کی اسٹوری دیکھ کر اندازہ لگایا جاتا ہے اور دل ہی دل میں ناراض بھی ہوجاتے ہیں کہ بلانا بھی ضروری نہیں سمجھے۔ انتہا تو یہ کہ اسٹوری رکھنے والے کے فرشتوں کو بھی پتا نہیں ہوتا کہ لوگ کیا کیا مفروضے قائم کرتے ہیں۔ یہ تو ہم بس سوشل میڈیا کی ان آئے دن کی سرگرمیوں کی بات کررہے ہیں، جس سے آپ کا اور ہمارا واسطہ پڑتا ہی رہتا ہے۔
خیر، تو ہم یہ کوشش کررہے ہیں ثابت کرنے کی کہ سوشل میڈیا کچھ اتنی بھی بری بلا نہیں۔ ہم تو کہتے ہیں کہ یہ گوگل نہ ہوتا تو ہمارا بھلا کیا ہوتاکہ مختلف ریسرچ کے علاوہ ہم اپنا پسندیدہ کام یعنی مطالعہ بھی اس پر سرچ کرکے کتاب ڈاؤنلوڈ کرکے کیا کرتے ہیں۔ اپنا روزنامہ منصف اس پر پڑھا کرتے ہیں۔ (پردیس میں جو ہوئے) اورایک بڑی سہولت تو اس نے یو ٹیوب کے ذریعے دے رکھی ہے کہ آپ کتنے ہی کسی کام میں پیدل ہوں، چاہے وہ چاول ابالنے جیسا مشکل کام ہی کیوں نہ ہو، وہ آپ کو نت نئے طریقے سے اس کام کو انجام دینا سِکھا ہی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ کے ذریعے آپ دنیا سے باخبر رہ سکتے ہیں۔ہم بس اتنا کہیں گے کہ اگر آپ بھی سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں تو اسکو اپنی سہولت کے لئے استعمال کیجئے. اور شاعر کی اس بات کو ہرگز دل پر نہ لیجیے کہ
"اثر ہووے نہ ہووے پر بلا سے جی تو بہلے گا……”