طنز و مزاحمضامین

بہو۔بلی

زکریا سلطان

محترم مظہر قادی نے اپنے مضمون میں لطیفہ لکھ کر اصحابِ مرسیڈیس کے لیے ایک مصیبت کھڑی کردی ہے، اب ہر مرسیڈیس والا شرما کر گاڑی نکال رہا ہے کہ کہیں لوگ اس کی مرسیڈیس کو سسرے کا تحفہ نہ سمجھیں۔
بہو کو بیٹی اسی وقت سمجھا جاسکتا ہے جب وہ اپنے سلوک اور رویہ سے سسرال والوں کو خوش کرکے ان کا دل جیتے، جب سسرال والوں کے دل میں بہو کی محبت ہی نہ ہوگی تو وہ کس طرح اسے بیٹی سمجھ سکتے ہیں۔ جس طرح امتحان میں کامیابی کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے، اسی طرح سسرال والوں کے دل میں جگہ بنانے کے لیے بھی بہو کو سخت محنت کرنی پڑتی ہے ۔کوئی بہوبلا ہوتی ہے تو کہیں داماد بہو بلی ہوتا ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ کچھ لوگ بہو کی بلی چڑھادیتے ہیں اور کچھ بہوئیں ایسی ہوتی ہیں جو سسرال والوں کی بلی چڑھادیتی ہیں۔بات اپنے اپنے نصیب کی ہے، جس گھر میں ان کا قدم پڑتا ہے وہ گھر برباد ہوکرایک ویران گلستان کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ جس گھر میں نیک صفت ، سمجھدار، ملنسار ، خوش اخلاق بہو کے مبارک قدم پڑتے ہیں وہاں بہار آجاتی ہے ، پیار محبت کے گل کھلنے لگتے ہیں، مگرسب کو ساتھ لے کر چلنے والی بہوئیں آج کل کم یاب ہوگئی ہیں ، سب کا ساتھ سب کا وکاس ایک فریبی جملہ ہے، عملی دنیا میں یا شیخ اپنا اپنا دیکھ والا معاملہ چل رہا ہے ۔ لڑکا اگر جورو کا غلام نکلا تو پھر وہ ایم بی بی ایس بن جاتا ہے (میں۔ بیوی۔بچے۔سسرال) ۔ لڑکا اگر سمجھدار ہوتو وہ بیوی کو اس کا حق دیتا ہے ،پورا پیار دیتا ہے اس کی ضرورتوں کا بھرپور خیال رکھتا ہے، مگر اسے سر پر چڑھاکراپنے ماں باپ کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کا دل نہیں دُکھاتا، دانشمند وہ ہوتا ہے جو بیوی اور والدین کے درمیان عدل کرے اور تواز ن برقرار رکھے، وہ والدین پر بیوی کو کبھی فوقیت اور ترجیح نہیں دیتا۔ واضح رہے کہ اللہ میاں کے قدرتی نظام کے تحت ماں باپ صرف ایک ہی ہوتے ہیں دنیا کا کوئی امیر ترین شخص چاہے وہ ارب پتی اور بادشاہ ہی کیوں نہ ہواپنے لئے اپنی پسند کے والدین نہیں لا سکتا، اس کے برعکس وہ اپنی پسند کی کئی بیویاں(اگر مسلمان ہوتو چار تک)لا سکتا ہے، مگر ماں باپ تو وہی ایک ہوتے ہیں جن کے نطفے اور کوکھ سے وہ پیدا ہوتا ہے چاہے وہ انہیں پسند کرے یا نہ کرے ۔ بیوی سے ماں باپ کا کوئی تقابل ہو ہی نہیں سکتا بلاشبہ والدین بیوی پر مقدم ہیں۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اللہ تعالی نے انسان کونصیحت کی اور حکم دیا ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے، اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ والدین کے حقوق ادا کرنے کا بھی اس نے حکم دیا ہے جس سے والدین کی عظمت اور ان کے مقام و مرتبہ کا اندازہ ہوتا ہے، فرمایا کہ ماں باپ کو (کسی ناگوار بات پر) اُف تک نہ کہنا اور ان کے سامنے ادب سے ہاتھ باندھ کر جھکے رہنا (اس طرح کا حکم پوری قرآن میں بیوی کے لیے کہیں نہیں ملتا۔ اگر کہیں ہے تو مجھے بتائیے!!!) ہاں البتہ حضورﷺ نے عورتوں سے یہ ضرور کہا ہے کہ میں اللہ کے سواءکسی کے آگے سجدہ کرنے کا اگر حکم دیتا توعورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں۔ اس سے مرد کی فوقیت اور اس کے مقام کا پتہ چلتا ہے ۔ اچھی بیوی وہ ہوتی جسے دیکھ کر شوہر کا دل خوش ہوجائے۔ یقینا ایسی بہو سے سسرال والے بھی خوش رہتے ہیں جو خوش اخلاق ہو ، محنتی ہو، سلیقہ مند ہونہار ہو اور سب کو ساتھ لے کر چلے، بڑوں کی عزت و احترام کرے اور چھوٹوں سے شفقت کرے ، ایسی لڑکیاں جن میں صبرکا مادہ ہو بردباری ہو، ان کی سسرال میں عزت نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، ایسی پیاری صفات کی حامل لڑکیوں پر اگر کوئی سسرال والے ظلم کرتے اور ستاتے ہیں تو یقیناً وہ ظالم، جاہل اور سنگدل ہیں۔ایسے لوگوں میں قدردانی کے جذبہ کا فقدان ہوتا ہے۔ جو دوسروں کی خوبیوں کے معترف نہیںہوتے وہ زعفران کی قدر نہیں کرتے ، اصلی ہیرے کو پہچاننے والا ہی حقیقی جوہری ہوتا ہے ورنہ مارکٹ میں نقلی اور ڈپلی کیٹ مال بہت ہے۔ان لوگوں کی بات مجھے بڑی ناگوار لگتی ہے جو کہتے ہیں کہ لڑکیوں (بہو) پر ساس سسر کی خدمت واجب یا لازم نہیں ہے۔ جناب! یہ ایک اخلاقی فریضہ اور سماجی ذمہ داری ہے، انسانیت اور رحمدلی کی کسوٹی ہے ، ایک اچھے اخلاق و اوصاف والی با عمل مسلم خاتون کس طرح اپنے بزرگوں کی خدمت سے انکار کرکے سخت دلی اور بے مروتی کامظاہرہ کرسکتی ہے؟ ہمیں توغیروں اور اجنبیوں سے بھی حسن سلوک کرنے کا حکم دیاگیا ہے تو پھر وہ کیوں کر ساس سسر اور ضعیف والدین کی خدمت پر اجرو ثواب سے محروم رہ سکتی ہیں۔ اگر آج وہ اپنے والدین اور ساس سسر کی خدمت کریں گی تو مستقبل میں ان کی بہو بیٹیاں بھی ان شاءاللہ ان سے ایسا ہی اچھا سلوک اور خوب خدمت کرکے دعائیں لیںگی۔
سسرال میں پھوٹ ڈالنے اور بیٹے کو ماں باپ سے جداکروادینے والی لڑکیاں للیتا پوار جیسی ہوتی ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت اچھی اور بہتر سے بہتر کریں، انہیں اچھے اخلاق و آداب صبر و تحمل معاملہ فہمی ، تمیز تہذیب اور سلیقہ سیکھائیں۔ لڑکیوں کو امور خانہ داری میں ماہر اور لڑکوں کو محنتی اور خودداربنائیں تاکہ شادی کامیاب اور پختہ ہو، نہ کہیں بہو کی بلی چڑھے اور نہ کسی خاندان میں کوئی بہو اپنے سسرال والوں کو بلی کا بکرا بنائے۔ نہ کوئی لڑکی والے برے ہوتے ہیں اور نہ لڑکے والے، اگر برے ہوتے ہیں تو وہ انسان کے اعمال۔

a3w
a3w