بیرون ملک تعلیم پانے والے دو تہائی اقلیتی طلبہ کو اسکالرشپس کی عدم اجرائی
ملی تنظیموں اور سیاسی قائدین کے حکومت سے باز پرس نہ کرنے کے نتیجہ میں بی آر ایس حکومت نے اقلیتوں کی بہبود و ترقی سے منہ ہی موڑ لیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اقلیتوں کے لئے بجٹ میں مختص بجٹ جاری نہ کرنے کے باوجود رقومات کی اجرائی کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔
حیدرآباد: ملی تنظیموں اور سیاسی قائدین کے حکومت سے باز پرس نہ کرنے کے نتیجہ میں بی آر ایس حکومت نے اقلیتوں کی بہبود و ترقی سے منہ ہی موڑ لیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اقلیتوں کے لئے بجٹ میں مختص بجٹ جاری نہ کرنے کے باوجود رقومات کی اجرائی کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اقلیتوں کے لئے بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے مالی امداد سے متعلق اسکیم ’چیف منسٹر کی سمندر پاراسکالرشپس‘ کے سال 2021 اور سال 2022 کے دو تہائی سے زائد استفادہ کنندگان کو رقومات جاری نہیں کی گئیں تاہم قانون حق آگہی کے تحت فراہم کردہ معلومات کے مطابق مالی سال 2020-21 میں ریاستی حکومت نے مذکورہ اسکیم کے تحت 62.5365 کروڑ روپے جاری کی تھی مگر 58.93 کروڑ روپے خرچ کئے گئے‘ اسی طرح مالی سال 2021-22 میں 72.540 کروڑ روپے کی اجرائی کے مقابل 71.04 کروڑ روپے خرچ کئے گئے اور مالی سال 2022-23 میں 75 کروڑ روپے کی اجرائی کے مقابل74.233 کروڑ روپے خرچ کئے گئے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ رقومات خرچ کی جاچکی ہیں جس کا دعویٰ کیا جارہا ہے تو پھر استفادہ کنندگان کے بینک کھاتوں میں کیوں منتقل نہیں ہوئے؟ ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ حکومت تو رقومات جاری کردی ہو اور سرکاری عہدیداروں نے یہ رقومات طلبہئ کے کھاتوں میں منتقل کرنے کی بجائے اپنے فرضی کھاتوں میں منتقل کردئیے ہوں چونکہ موجودہ طریقہئ کار میں محکمہ اقلیتی بہبود صرف رقومات کی اجرائی کے احکامات جاری کرتا ہے اور اس کی اساس پر ریاستی حکومت کے سنٹرل پول کے ذریعہ سرکاری اسکیمات کی رقومات متعلقہ استفادہ کنندگان کے کھاتوں میں راست منتقل ہوتی ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ اضلاع کے چند طلبہئ کو رقومات جاری کی گئیں مگر حیدرآباد اور رنگار یڈی کے طلبہئ کو جن کی تعداد ریاست کے طلبہئ کی کم و بیش دو تہائی ہوتی ہے‘ رقومات موصول نہیں ہوئی ہیں۔ یہ غریب طلبہئ جو حکومت کی امداد کے بھروسے پر بیرون ملک تعلیم حاصل کررہے ہیں بروقت رقومات نہ ملنے کی وجہ سے دیار غیر میں پریشان ہوجاتے ہیں۔ ان کے والدین نے شکایت کی کہ رقومات کی اجرائی سے متعلق جب وہ دفتر ڈائرکٹر اقلیتی بہبود یادفتر ڈسٹرکٹ مائناریٹیز ویلفیر آفیسر سے رجوع ہوتے ہیں تو انہیں جھڑکیاں دی جاتی ہیں۔
یہ سب کچھ اس لئے ہورہا ہے کہ ڈائرکٹر مائناریٹیز ویلفیر مسٹر محمد شفیع اللہ کو کئی عہدوں کی اضافی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اس لئے وہ مائناریٹی ویلفیر ڈائرکٹوریٹ کا رخ نہیں کرتے۔ والدین نے ملی تنظیموں اور سیاسی قائدین سے خواہش کی کہ وہ مداخلت کریں اور ان رقومات مسئلہ کی عاجلانہ یکسوئی کو یقینی بنائیں بصورت دیگر ان کے بچے بیرو ن ملک نامساعد حالات کا شکار ہوجائیں گے اور انہیں اپنی تعلیم ترک کرکے واپس لوٹنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔