ایشیاء

چین میں صدیوں پرانی مسجد کو منہدم کرنے کی کوشش پر جھڑپیں، اویغور مسلمانوں کے بعد اب ہوئی مسلمان حکومت کا نشانہ

تون غائی قصباتی علاقہ میں واقع ناجیائنگ مسجد کے گیٹ کے قریب ہنگامہ آرائی کے دوران پولیس نے مظاہرین کے ایک گروپ کو پیٹا جبکہ وہ حکومت کے اقدام کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔

نئی دہلی: چین کے صوبہ یونان میں ایک مسلم اکثریتی قصبے کے مسلمانوں اور پولیس کے درمیان اس وقت زبردست جھڑپ ہوگئی جب حکام صدیوں پرانی مسجد کا ایک حصہ منہدم کرنے کے لئے وہاں پہنچے۔

متعلقہ خبریں
مودی کے دورہ اروناچل پردیش پر چین کا احتجاج
شی جنپنگ G20 چوٹی کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے
چین نے ہندوستان کی ہزاروں کلومیٹر اراضی پر قبضہ کرلیا: راہول گاندھی
چین، جیٹ مسافر طیارہ بنانے میں کامیاب
چین میں شرح پیدائش میں اضافہ کیلئے کنواری خواتین کے بیضے منجمد کرنے کی تجویز

بتایا گیا ہے کہ مقامی مسلمان صدیوں پرانی مسجد کی گنبد والی چھت کو منہدم کرنے سے روکنے کے لئے پولیس کے ساتھ متصادم ہوگئے۔ سی این این نیوز 18 نے یہ اطلاع دی۔  پولیس نے احتجاجیوں کے خلاف مرچ کا اسپرے استعمال کیا اور کئی افراد کو گرفتار کرلیا۔

تون غائی قصباتی علاقہ میں واقع ناجیائنگ مسجد کے گیٹ کے قریب ہنگامہ آرائی کے دوران پولیس نے مظاہرین کے ایک گروپ کو پیٹا جبکہ وہ حکومت کے اقدام کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔

سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیوز سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مسجد صوبہ یونان میں رہنے والے مینڈارن (چینی زبان) بولنے والے ہوئی نسل کے مسلمانوں کے لئے قابل احترام عبادت گاہ ہے۔

بعد میں پولیس کو علاقے سے پیچھے ہٹتے دیکھا گیا جب مظاہرین نے مسجد کے گیٹ کے باہر دھرنا دیا۔

واضح رہے کہ 2020 میں سنائے گئے عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ مسجد کی حال ہی میں کی گئی کچھ تزئین و آرائش غیر قانونی ہے جس کے بعد اسے منہدم کرنے کا حکم دیا گیا۔

جھڑپوں کے بعد مقامی موبائل فون سروس منقطع کر دی گئی جس کے بعد اشارے ملے ہیں کہ وہاں مسلمانوں پر کریک ڈاؤن کیا جائے گا تاہم دوسری طرف تون غائی پولیس نے احتجاجیوں سے کہا ہے کہ اگر وہ ہلکی سزا چاہتے ہیں تو 6 جون سے پہلے پہلے خود کو قانون کے حوالے کردیں۔

ناجیائنگ مسجد 13ویں صدی کی ہے اور اسے منگ خاندان کے دور حکومت میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس مسجد کی کئی مواقع پر توسیع کی گئی تھی اور 2019 میں مسجد کے ایک حصے کو ثقافتی وجوہات کی بنا پر محفوظ بھی قرار دیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ چین نے چینی صدر شی جن پنگ کے دور حکومت میں لوگوں کو مذہبی شناخت اختیار کرنے اور اس پر چلنے سے روکنے کی کوشش کی ہے۔  شی کا مطالبہ ہے کہ تمام مذہبی برادریوں کو کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی پی سی) کے ساتھ وفادار رہنا چاہیے۔ اس کے ساتھ شی نے تمام ملک میں مذہبی رہنماؤں کی نگرانی بھی تیز کر دی ہے۔

چین نے اس ماہ مذہبی اساتذہ کا ایک ڈیٹا بیس بھی شروع کیا جسے متعلقہ برادریوں نے باضابطہ طور پر منظور بھی کیا۔ ڈیٹا بیس میں منظور شدہ اسلامی، پروٹسٹنٹ اور کیتھولک مذہبی اساتذہ کی تفصیلات شامل ہیں۔

چین نے بالخصوص اسلام اور عیسائیت پر شکنجہ کسا ہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ یہ مذاہب غیر ملکی اثر و رسوخ کے ایجنٹ ہو سکتے ہیں جو چین کو اندر سے کمزور کرنے کا موجب بنیں گے۔ انہی وجوہات کی بنا چین کی حکومت نے بین الاقوامی تبادلے اور عطیات پر بھی پابندی لگا رکھی ہے۔ ایسی ہزاروں عمارتوں، عبادت گاہوں کو ڈھایا جاچکا ہے جو طرز تعمیر کے اعتبار سے ’’چینی‘‘ نظر نہیں آتیں۔

بتادیں کہ ابھی بھی صوبہ یونان میں ہوئی نسل کے مسلمان اتنے متاثر نہیں ہیں جتنے صوبہ ژنجیانگ میں اویغور مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے ہیں۔ تاہم صوبہ یونان میں حالیہ جھڑپوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کریک ڈاؤن سے کئی مذہبی کمیونٹیز متاثر ہوں گی۔

واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہوئی نسل کے مسلمانوں کو سابق چینی صدر ماؤ زے تنگ کی طرف سے شروع کیے گئے ثقافتی انقلاب کی زیادتیوں سے بھی محفوظ رکھا گیا تھا کیونکہ اس وقت ہوئی مسلمانوں نے حکومت کے ساتھ تعاون کیا تھا لیکن حالیہ جھڑپوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب حکومت اویغور مسلمانوں کے بعد ہوئی مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔