پروفیسر اخترالواسع
حج کے لغوی معنی ارادہ کرنے اور قصد کرنے کے آتے ہیں۔ اصطلاح شریعت میں مخصوص اوقات میں بیت اللہ کی زیارت اور وہاں کچھ عبادات کے انجام دینے کا نام حج ہے۔ اب حج اپنے لغوی معنی میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اصطلاحی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ حج ایک عبادت ہے اور اسلام کی پانچ بنیادوں میں سے ایک ہے۔ یہ اگرچہ عمر بھر میں صرف ایک مرتبہ فرض ہوتی ہے اور صرف ایسے لوگوں پر فرض ہوتی ہے جو سفرِ حج کے اخراجات برداشت کرسکیں اور اپنے زیرِ کفالت لوگوں کی کفالت کا انتظام کر سکیں اور پھر بیت اللہ تک جا بھی سکیں۔ لیکن فرض اسی طرح ہوتی ہے جس طرح اپنے وقت پر نماز یا دیگر فرض عبادتیں، حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر کوئی حج کر سکتا ہو اور پھر حج نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اور بھی متعدد روایات ہیں جن سے اندازہ ہوتاہے کہ جو حج کرسکتا ہو اس کے لیے حج ادا کرنا ضروری ہے، لازمی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ حج کیا ہے اور اس کی اتنی اہمیت کیوں ہے؟ اس کے جواب کے لیے تاریخ کے صفحات میں چار ہزار سال پیچھے نظر ڈالنی ہوگی جب اس وقت کا انتہائی متمدن اور تہذیب و تمدن کا گہوارہ عراق بت پرستی اور شرک کا مرکز بن گیا تھا۔ بادشاہ اور رعیت مالکِ حقیقی کو بھول کر اپنے ہاتھو ںکے تراشے ہوئے خدائوں کی عبادت میں لگ گئے تھے، بت پرستی تو مذہب تھا، بت تراشی کی اتنی اہمیت ہو گئی تھی کہ اس وقت کے سب سے بڑے بت تراش کو وزارت کا اعلیٰ عہدہ تفویض ہوتا تھا۔
ایسے ماحول میں وہا ںکے سب سے بڑے بت تراش کے گھر میں ایک بچے کی ولادت ہوئی۔ وہ بچہ تو عام بچو ںکی طرح تھا لیکن اس کو رب العالمین نے قلب سلیم عطا فرمایا تھا۔ بتوں سے اس کو نفرت تھی اور خدائے واحد و قدوس کے دربار میں سر جھکانے کی تمنا اس کو اللہ نے فطرت کی گود میں غیبی اشارو ںکے ذریعہ توحید ربانی کی تعلیم دی۔ اس بچے نے ستارے، چاند اور سورج کے استعارے میں توحید الٰہی کا یہ پیغام اپنی قوم کو بھی دیا لیکن قوم بت پرستش میں ایسی مشغول تھی کہ اس نے اس آواز پر کان دھرنے کی زحمت بھی گوارہ نہ کی۔ آخر ایک دن ایسا آگیا کہ ان کے بڑے بت خانے کے تمام چھوٹے بت پاش پاش کردیئے گئے۔ تب قوم کو احساس ہوا کہ اس بستی میں کوئی ایسا بھی ہے جو ان بتوں کی مذمت کرتا ہے۔ لوگوں نے اپنے دیوتائوں کی مدد کرنے کی ٹھانی اور توحید خالص کے اس پرستار کو دہکتی ہوئی آگ میں جھونک دیا۔ کہتے ہیں جب ان کو آگ میں پھینکا جا رہا تھا تو فرشتہ ان کے پاس آیا اور کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں اس آگ کو بجھا دوں؟ حضرت ابراہیمؑ نے جواب دیا کہ اگر اس کا حکم خدا نے دیا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ خدا میرے حال سے زیادہ باخبر ہے۔
زمین و آسمان کے مالک کو بندے کی یہ ادا اور خدا پر اعتماد کا انداز پسند آیا اور ان کو خلیل اللہ کے لقب سے سرفراز کیا۔ اس دہکتی ہوئی آگ کو ان کے لیے گلزار بنا دیا۔ بندۂ مومن کا امتحان یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ ایک اور آزمائش سامنے تھی۔ ان کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا۔ دیس چھوڑ کر پردیس کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان نامساعد حالات میں ملکوں ملکوں کے سفر کیے لیکن ہر جگہ وہی بت پرستی، وہی بت گری نظر آئی۔ توحید کے پرستار اس بندے کو کہیں ایسی جگہ نہیں ملی جہاں اپنے جذبۂ عبودیت کو خدائے واحد کی بارگاہ میں سجدہ ریز کرے اور کوئی روکنے والا نہ ہو۔ رب کائنات کو اپنے سچے پرستار کی ادا پسند آئی اور عالم ملکوت میں فیصلہ ہو گیا کہ انہی کی اولاد کو یہ سرفرازی ملے کہ جب جب بندگانِ خدا پنے خدائے واحد کی تلاش میں سرگرداں ہوں تو ان کے سایہ عاطفت میں توحید کی نرم اور ٹھنڈی چھائوں ان کو میسر آجائے۔
حضرت ابراہیمؑ کی عمر ۸۶؍ سال ہو چکی تھی۔ ظاہر ہے کہ ان کی بیویوں کی عمریں بھی کم نہ ہوں گی۔ لیکن احکم الحاکمین کے لیے کیا مشکل ہے؟ ۸۶؍سال کی عمر میں ان کو ایک بیٹا ہوا ور پھر ۱۰۰؍سال پورے ہونے پر دوسرا بیٹا۔ ان دونوں بیٹوں اور ان کے اخلاف میں امارت و سیادت اور خیر و برکت ودعیت فرمائی۔ لیکن ابھی امتحان اور بھی جن سے سیدنا ابراہیمؑ کو عہدہ برآ ہونا تھا۔ ۸۶؍سال کی عمر میں اولاد کی خوشی میسر ہوئی لیکن فرمان الٰہی آپہنچا کہ اس بچے اور اس کی والدہ حضرت ہاجرہؓ کو عرب کے ریگستانی علاقے میں چھوڑ آئو۔ خدا کے بندے نے یہ بھی کر دیا۔ کہتے ہیں کہ مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں سیدنا ابراہیمؑ اپنے شیر خوار بچے اور بیوی کو چھوڑ کر جا رہے تھے تو بیوی نے روک کر پوچھا کہ کیا خدا نے آپ سے ایسا کرنے کو کہا ہے؟ جو اب اثبات میں تھا اس لیے خدا کی اس نیک بندی نے فرمایا کہ پھر تو اللہ ہماری حفاظت فرمائے گا۔
تقدیر کے معنی میں حسب استطاعت وسائل اختیار کرنا شامل ہے۔ اس خاتون نے اپنے بچے کو لے کر چاروں طرف پانی یا ہریالی یا کھانے پینے کے سامان کی تلاش کی، لیکن کچھ نہیں ملا۔ اسی طرح سورج ڈھل گیا۔ چٹانوں کے سائے لمبے ہونے لگے۔ خاتون نے بچے کو ایک چٹان کے سایے میں لِٹایا اور دوڑ کر ایک پہاڑی پر چڑھی تاکہ دور تک نظر ڈالیں۔ معاً بچے کے تنہا ہونے کا خیال آیا تو دوڑتی ہوئی بچے کے پاس آئیں پھر دوسری دفعہ گئیں اور پھر واپس آگئیں۔ اسی طرح سات چکر لگائے، پانی تو نہیں ملا لیکن ابرِرحمت برس گیا اور ایسا برسا کہ آج تک اس کا فیضان نہ جانے کتنوں کی تشنہ لبی اور جگر سوختگی کو قرار دے چکا ہے۔ ساتویں دفعہ واپس آئیں تو بچے کی ایڑیاں گیلی دیکھیں، مٹی ہٹائی، پانی نکلا اور بہنے لگا۔ انہوں نے کہا زم زم یعنی ٹھہرو، وہ پانی کا سوتا آج بھی جاری اور اس کی پیدائش کے وقت دیا گیا نام آج بھی اس کی شناخت ہے۔ اور پانی کی تلاش میں لگائے گئے سات چکر خدا کو اتنے پسند آئے کہ طالبانِ کوثر یعنی حجاجِ کرام کے لیے ان سات چکروں کو ضروری قرار دیا۔
راہِ خدا میں اخلاص و للہیت کے امتحان ابھی اور بھی باقی تھے اور آخری امتحان تو شاید سب سے بڑا امتحان تھا۔ چودہ سالہ فرزند اسماعیلؑ کے لیے ۱۰۰؍سو سالہ باپ کو حکم ربّانی ہوا کہ اسے راہِ خدا میں قربان کر دیں۔ باپ کے لیے بڑی آزمائش تھی۔ بیٹے کو بُلا کر پریشانی بتائی۔ سعادت نشان فرزند نے فوراً سر اطاعت خم کر دیا اور باپ بیٹے کو قربان کر نے کے لیے لے کر چلے۔ خدا کے عبادت گزار بندوں کے ازلی دشمن شیطان کی نظر سے بھی اطاعت اور للہیت کا روح پرور منظر مخفی نہیں تھا۔ اس نے فوراً والدہ کو بہکایا کہ تمہارے بیٹے کو ذبح کرنے لے جایا جا رہا ہے۔ حضرت ہاجرہؓ نے فرمایا کہ بھلا کوئی باپ اپنے بیٹے کو قربان کرسکتا ہے؟ ماں کا استقلال دیکھ کر شیطان بھی سچ بولنے پر مجبو رہوا اور کہا کہ دراصل خدا نے بیٹے کی قربانی مانگی ہے۔ ماں نے کنکریاں اٹھا کر شیطان کو ماری اور کہا کہ کمبخت اگر خدانے قربانی مانگی ہے تو اس سے بڑا انعام اور کیا ہوگا۔ دور ہو جا۔ شیطان نے اس طرح حضرت اسماعیلؑ اور حضرت ابراہیمؑ کو بھی بہکانے کی کوشش کی لیکن دونوں برگزیدہ پیغمبر اطاعت الہی پر ثابت قدم رہے اور دونوں نے شیطان کو کنکریاں ماریں۔ خدا کو یہ ادا بھی بہت پسند آئی اور آج تک ان مقامات پر کنکریاں ماری جاتی ہیں جہاں اس دن شیطان ظاہر ہوا تھا۔
لگاتار آزمائشوں اور صبر آزما مراحل میں ثابت قدم رہنے والے حضرت ابراہیمؑ پر انعام و اکرام کی بارش شروع ہوگئی۔ قرآن مجید میں اس کا تذکرہ اس طرح ہے کہ ’’اور جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان پر پورا تر گیا تو فرمایا کہ میں تجھ کو انسانوں کا امام بناتا ہوں۔‘‘
حضرت ابراہیمؑ کو اس طرح عالمِ انسانیت کی سیادت و امامت سونپی گئی۔ مکہ میں اللہ کی عبادت کے لیے پہلا گھر بنایا گیا اور اس کی تعمیر کے بعد حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کے حکم سے وہاں حج و زیارت کے لیے صدا بلند کی۔ اس صدا کو رب العالمین نے عالم امکان کے ذرے ذرے تک پہنچایا اور ۴؍ہزار برس سے زیادہ عرصہ گزر گیا کہ آج بھی لاکھوں لوگ اس کے دربار میں ’’میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں‘‘ کی صدائیں بلند کرتے ہوئے پہنچتے ہیں اور حج کے ارکان و مناسک ادا کرتے ہیں۔ جن مناسک میں سے زیادہ تر اسی اسوۂ ابراہیمیؑ کی یادگار ہیں جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیمؑ ، حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیلؑ نے ۴؍ ہزار سال قبل اس سرزمین پر کیا تھا۔
حج کے بارے میں حدیث میں آتا ہے کہ جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ حج کیا وہ ایسے ہوگیا جیسے آج ہی اپنی ماں کے بطن سے پیدا ہوا ہو اور جو شخص باوجود قدرت کے حج نہ کرے اس کے لیے قرآن میں فرمایا گیا ’’اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی قدرت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے اور جس نے کفر کیا تو اللہ تعالی دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔ حج کیا ہے؟ اسی سنت ابراہیم کا مشاہدہ کرنا اور اس کی نقل کرنا ہے۔ یہ اگرچہ نقل ہے لیکن اخلاص کے بغیر ا س نقل کی بھی کوئی اہمیت، اخلاص کے ساتھ ان جلیل القدر بزرگوں کے انجام دیتے ہوئے اعمال کی نقل کر کے دراصل ہم اپنی زندگی کے لیے بھی یہی سبق حاصل کرتے ہیں کہ ہم بھی خدا کے سامنے اسی طرح سرنگوں ہیں جیسے حضرت ابراہیم تھے اور ہم بھی زباں حال سے وہی کہہ رہے تو سیدنا ابراہیمؑ نے کہا تھا کہ میرا جینا، میرا مرنا اور میری عبادت سب کچھ اللہ رب العالین کے لیے ہے۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)