سیاستمضامین

حکومتی اراضیات پر قبضہ کو باقاعدہ بنانے کی اسکیم۔ گورنمنٹ آرڈر کا اجراءایسی اراضیات جن پر حکومت کا دعویٰ ہے ان پر تعمیر شدہ مکانات کا موقف قانونی ہوگا

٭ ہر قابض حقیقی مالک ہوگا اور اس کے نام ضلع کلکٹر ملکیت کا سرٹیفکیٹ جاری کرے گا۔ ٭ قبضہ کو باقاعدہ بنانے کے لئے فی مربع گز 250 روپے قیمت مقرر کی گئی ہے۔ ٭ ایک ہزار مربع گز کی حد تک قبضہ کو باقاعدہ بنایا جائے گا۔ ٭ رجسٹریشن ۔ مکان کی تعمیر کا اجازت نامہ حاصل ہوگا۔ ٭ صرف قبضہ اور رہائشی مکان کا ہونا کافی ہوگا۔

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔

حکومت نے بتاریخ28 اکتوبر2022ء ایک گورنمنٹ آرڈر جاری کرتے ہوئے ایسے ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کی مشکلات کو حل کردیا ہے جن کے مکانات ایسی اراضیات پر تعمیر ہوئے ہیں جن پر حکومت کا ادعائے ملکیت ہے یا واضح الفاظ میں جوگورنمنٹ اراضیات ‘ اربن لینڈ سیلنگ میں فاضل اراضیات میں شامل ہیں۔ ان وجوہات کی وجہ سے قابضین کو تعمیری اجازت نامہ نہیں دیا جارہا تھا اور نہ ہی ان جائیدادوں کی فروخت ہورہی تھی۔ حکومت نے گورنمنٹ آرڈر جاری کرتے ہوئے احکامات جاری کئے ہیں کہ ایسے قابضین اپنی اراضیات پر قبضہ کو باقاعدہ بنانے کی درخواستیں ضلع کلکٹر حیدرآباد ‘ رنگا ریڈی اور میڑچل ملکاجگری کے روبرو پیش کریں لیکن حدِ اراضی ایک ہزار مربع گز سے کم ہونی چاہیے۔ درخواست کے ساتھ 250 روپے فی مربع گز رقم ادا کی جانی چاہیے۔
متذکرہ بالا تینوں اضلاع جو شہر حیدرآباد اور اطراف میں واقع ہیں وہاں 44 کالونیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن کی اراضیات پر حکومت کا ادعائے ملکیت ہے لیکن حکومت نے عوامی نمائندگیوں کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان مسائل کی یکسوئی کردی جائے تاکہ ان کالونیوں میں رہنے والوں کو حق ملکیت مل جائے اور انہیں بنیادی سہولیات دستیاب ہوسکیں۔
ان کالونیوں کی فہرست بہت طویل ہے لیکن ان میں سے چند کالونیوں کا ذیل میں تذکرہ کیا جارہا ہے جو شہر حیدرآباد میں واقع ہیں۔
کاروان‘ نامپلی اور جوبلی ہلز اسمبلی حلقہ انتخاب میں واقع بنجارہ دروازہ‘ گولکنڈہ منڈل‘ بینڈ لائنس(Band Lines)‘ نامپلی منڈل‘ محمدی لائنس ‘ شیخ پیٹ منڈل‘ مانصاحب ٹینک‘ آصف نگر منڈل‘ اے سی گارڈز آصف نگر منڈل۔
گورنمنٹ آرڈر کے مطابق صرف ایسے افراد ہی درخواست پیش کرنے کے اہل ہوں گے جن کا تعلق سماج کے پسماندہ طبقات سے ہو۔ ان کی آمدنی (Middle & low groups) زمرہ میں ہو۔
کاروان‘ نامپلی اور جوبلی ہلز انتخابی حلقوں میں واقع کالونیوں کا تذکرہ دبی زبان میں کیا گیا ہے جبکہ یہاں سینکڑوں مکانات تعمیر ہوئے ہیں اور وہاں رہائش پذیر افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اس کا مطلب یہ نکالا جاسکتا ہے کہ حکومت نہیں چاہتی کہ ان علاقوں میں رہائش پذیر افراد کو یہ سہولت بہم پہنچائی جائے۔ صرف جوبلی ہلز حلقہ انتخاب میں ٹولی چوکی واقع ہے جہاں درجنوں کالونیاں آباد ہیں لیکن گورنمنٹ آ ٓرڈر میں ان کالونیوں میں سے کسی کا بھی نام نہیں۔ ہمارے اندازے کے مطابق اس علاقہ میں واقع تمام کالونیوں میں سے چند ایسی ہوسکتی ہیں جو اربن لینڈ سیلنگ میں فاضل قرارشدہ اراضیات پر تعمیر ہوئی ہیں اور صرف اسی وجہ سے تعمیری اجازت نہیں دی جارہی تھی۔ اب موقع خود چل کر سامنے آیا ہے کہ اس کا بھرپور فائدہ حاصل کیا جاسکے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ 2002ء میں حکومت نے ایک گورنمنٹ آرڈر 455 جاری کیا تھا جس میں اربن لینڈ سیلنگ میں فاضل قرارشدہ اراضیات کی قیمت مقرر کی تھی۔ اس قیمت میں اضافہ کیاگیا اور آخرِ کار فی مربع گز 30ہزار روپیہ قیمت مقرر کی گئی تھی ۔ کسی بھی فرد نے اس قیمت پر اپنی رضامندی ظاہر نہیں کی اور یہ مسئلہ معرضِ التواء میں پڑا رہا۔
موجودہ صورت میں A.Cگارڈز ‘ مانصاحب ٹینک اور آصف نگر منڈل میں بھی سینکڑوں مکانات کی اراضیات پر حکومت کا دعویٰ ہے ۔ حکومت نے اپنے آرڈر میں تسلیم کیا ہے کہ حکومت ان اراضیات پر قبضہ حاصل نہ کرسکی کیوں کہ ان حکومتی اراضیات پر مکانات تعمیر تھے اور سینکڑوں بلکہ ہزاروں افراد وہاں رہائش پذیر تھے لیکن چونکہ حصولِ قبضہ مشکل ہے حکومت نے اس پالیسی کے تحت ایک معمولی سی رقم کے عوض قابضینِ اراضی کے قبضہ کو باقاعدہ بنادیا جائے لہٰذا کلکٹرس کو احکامات جاری کئے گئے کہ وہ اراضیات کو باقاعدہ بنانے کی درخواستیں وصول کرے اور مقررہ رقومات حاصل کرکے (Certificate of Sale) جاری کرے جو ایک رجسٹر شدہ دستاویز کے مساوی ہوگا۔ حکومت اس پالیسی کے تحت ان کالونیوں میں ترقیاتی کام کرنا چاہتی ہے جو اب تک نہ ہوسکے کیوں کہ ان اراضیات پر غیر قانونی قبضہ تھا اور اب اس پالیسی کے تحت ان علاقوں میں ترقیاتی کام کئے جائیں گے۔
درخواستیں پیش کرنے سے قبل مفاداتِ حاصلہ کے فریب میں نہ آئیں
جب بھی ایسے مواقع آتے ہیں چند مفاداتِ حاصلہ مثلاً ریوینیو ڈپارٹمنٹ کے عہدیدار ‘ موظف عہدیدار فوری ہوشیار ہوجاتے ہیں اور درخواست گزاروں سے کہتے ہیں کہ ہم آپ کاکام کروادیں گے اور اس مقصد کے لئے کیس کی عاجلانہ یکسوئی کے لئے آپ کو ایک بھاری رقم کا انتظام کرنا ہوگا جو متعلقہ عہدیداروں تک پہنچادی جائے گی ۔ لوگوں کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ رشوت ادا کرنے سے کام بہت جلد ہوجاتا ہے۔ آپ کو ایسے دھوکہ بازوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ا ٓپ کبھی بھی اور کسی صورت میں ان کے فریب میں نہ آئیں اور اپنی بھاری رقومات ان افراد کے حوالے نہ کریں۔
اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ یہ سہولت صرف تعمیر شدہ مکانات کی اراضیات کو باقاعدہ بنانے کے لئے ہے ۔ اگر 500 مربع گز اراضی پر صرف 100 مربع گز پر ہی مکان تعمیر ہوا ہو تو بھی تمام اراضی پر قبضہ کو باقاعدہ بنادیا جائے گا۔ بشرطیکہ قابض وہاں رہائش پذیر ہو یا ان کے کرایہ دار رہائش پذیر ہوں۔
اس اسکیم سے استفادہ کرنے کے فوائد
اس اسکیم سے استفادل کرنے کے کئی ایک فائدے ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپ کا قبضہ مسلمہ ہوگا جو کو حکومت تسلیم کرے گی۔ آپ اس اراضی پر تعمیری اجازت حاصل کرسکتے ہیں۔ ایسی اراضی یا اس کے کسی حصہ یا اس پر تعمیر عمارت ‘ فلیٹ کو فروخت کرنے میں کوئی مشکل نہ ہوگی اور بہ آسانی رجسٹری ہوجائے گی۔ اگر آپ کا قبضہ صرف نوٹری دستاویز کی اساس پر ہی ہو تو بھی کوئی حرج نہیں اس اسکیم سے فائدہ حاصل کرنے میں کسی بھی قیمت پر تاخیر نہیں کرنی چاہیے اور اولین فرصت میں رقومات جمع کرکے درخواستیں کلکٹر کے روبرو پیش کردینا چاہیے۔
اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کی اراضی یا مکان کی قیمت میں بھی اضافہ ہوگا کیوں کہ آپ کی جائیداد تمام قانونی نقائص سے پاک ہوگی۔
اس ضمن میں مزید تفصیلات کے لئے درج ذیل ہیلپ لائن پر ربط قائم کیا جاسکتا ہے۔
ہیلپ۔ لائن : 040- 23535273 – 9908850090
سوال:- میرا ایک اراضی کا قطعہ موازی1200 مربع گز راجندر نگر میں واقع ہے ۔ اس اراضی کو میں نے 1982ء میں محض 7000 روپے میں خریدا تھا۔ اراضی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ۔ ایک راجستھان کے سنگ مر مر کے ہول سیل مرچنگ نے مجھ سے رابطہ قائم کرکے کہا کہ وہ میرے پلاٹ میں دلچسپی رکھتا ہے اور وہ اسے ایک طویل عرصہ کے لئے کرایہ پر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس نے لیز کی مدت 15سال بتائی اور کہا کہ وہ قابلِ واپسی ایک کروڑ روپیہ بطور ڈپازٹ ادا کرے گا اور کرایہ بھی بہت بھاری ادا کرے گا۔ لیکن میرے تین لڑکے اس بات کے حق میں نہیں ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ایک قیمتی جائیداد محض ایک کروڑ روپیہ میں ضائع ہوجائے گی اور وہ مارواڑی ہماری اراضی کو کبھی واپس نہیں کرے گا۔ ایسی صورت میں کہ علاقہ بہت تیزی سے ترقی کررہا ہے ۔ اتنے معمولی کرایہ پر اتنی بڑی جائیداد کا کرایہ پر دیدینا ضروری نہیں۔ میرے یہ صرف تین ہی بیٹے ہیں۔ میں خوشحال زندگی گزاررہا ہوں۔ ویسے تو مجھے ضرورت نہیں‘ پھر بھی گھر بیٹھے کرایہ تو آتا رہے گا اس لئے میں مارواڑی سے وعدہ کرچکا ہوں اور وہ لیز کے کاغذات تیار کروارہا ہے۔
کیا میں اپنے بیٹوں کی رائے کو تسلیم کروں یا اس معاملت کو ختم کردوں۔ آپ سے اس معاملہ میں رائے کی اشاعت کی درخواست ہے۔ فقط
X-Y-Z حیدرآباد
جواب:- آپ کے تینوں بیٹے بہت ہی سمجھدار معلوم ہوتے ہیں۔ آپ ان کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے اس گورکھ دھندے سے باز آجائیے۔ ورنہ آپ کے ہاتھوں سے یہ جائیداد نکل جائے گی اور مارواڑی کو زمین سے نکالنا مشکل ہوجائے گا۔
آپ کو رائے دی جاتی ہے کہ مارواڑی سے معذرت طلب کرلیجئے اور اس معاملہ کو یہیں ختم کردیجئے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰