طنز و مزاحمضامین

ہم اوروہم …

حمید عادل

جو انسان کو یقین کی راہ سے ہٹاکر شک میں مبتلا کردے،جوانسان کے نظریات وعقائد کو کمزور کر دے ،وہی وہم کہلاتا ہے…کہتے ہیں کہ وہم کی دوا حکیم لقمان کے پاس بھی نہ تھی…وہم کے تعلق سے یگانہ چنگیزی فرماتے ہیں :
درد ہو تو دوا بھی ممکن ہے
وہم کی کیا دوا کرے کوئی
کسی کو اپنے اہم ہونے کا وہم ہوجاتا ہے تو کبھی کبھی وہم سے اہم رشتے تک ختم ہوجاتے ہیں… کبھی تویوں بھی ہوتا ہے کہ ہمیں وہم ہونے کا وہم ساہونے لگتا ہے …
یہ وہم تھا مرا یا پھر ہوا کا جھونکا تھا
تھا محو خواب، اٹھایا بلا کا جھونکا تھا
عاصم تنہا
کسی شاعر نے تو اپنے معشوق کے وہم کی انتہا کو شعر میںکچھ اس طرح ڈھالا ہے:
کیا جانے اسے وہم ہے کیا میری طرف سے
جو خواب میں بھی رات کو تنہا نہیںآتا
مرد حضرات کے مقابلے میں خواتین بہت جلد وہم میں مبتلا ہوجاتی ہیں اور ایسی ہی خواتین نام نہاد باباؤں کومالا مال کرتی ہیں۔ جیسے ہی مسز چمن ،چمن بیگ کو اکھڑا اکھڑا سا دیکھتی ہیں، وہم میں مبتلا ہوجاتی ہیں کہ ضرور شوہر صاحب کسی کے عشق میں مبتلا ہیں۔ وہ یہ بھول جاتی ہیں کہ ’’ اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘‘ بیچارہ شوہر دفتر یا پھر دیگر مسائل میںبھی توالجھا ہوسکتا ہے۔کسی کی سختی کو بھی ہم اس کی بے اعتنائی نہیں کہہ سکتے،اس کی سختی ہماری بھلائی کے لیے بھی تو ہوسکتی ہے…شاید ایسے ہی کسی موقع پر حسرت موہانی نے کہا تھا:
ہم جور پرستوں پہ گماں ترک وفا کا
یہ وہم کہیں تم کو گنہ گار نہ کر دے
خواتین کے وہمی ہونے پر معروف مزاح نگار شفیق الرحمن فرماتے ہیں :’’ ماہرین کا خیال ہے کہ عورتوں کو سنجیدہ مرد اس لیے بھی پسندآتے ہیں کہ انہیں یونہی وہم سا ہوجاتاہے کہ ایسے حضرات اِن کی باتیں غور سے سنتے ہیں۔‘‘
وہم ایک ا یسا مرض ہے جوڈھیر سارے امراض کو جنم دیتا ہے ، موقع کی مناسبت سے ہمیں ’’ حکایات رومی‘‘ میں درج ایک مختصر اور مفید کہانی یادآرہی ہے ، ملاحظہ فرمائیں :
ایک مکتب کے استاد بڑے سخت گیر تھے ، لڑکے ان کی سختی سے تنگ آچکے تھے اور دعائیں کیاکرتے تھے کہ خدایا ہمیں ان سے نجات دلا۔ استاد کی صحت بہت اچھی تھی ، انہیں کبھی بخار تک نہ آیا تھا۔ ایک دن بچوں نے بیٹھ کر مشورہ کیا کہ کوئی تجویز کی جائے جس سے ہم چند روز کے لیے ہی سہی استاد سے خلاصی پائیں۔ ایک نے کہا: تجویز تو میں دیتاہوں بشرطیکہ تم اس پر عمل کرو اور راز فاش نہ کرو۔ سبھی نے قسمیں کھائیں کہ ہم استاد سے اس کا ذکر نہ کریں گے۔چالاک لڑکے نے کہا بات یہ ہے کہ ہم میں سے جو بھی استاد کے پاس جائے بعداز سلام جھک کر ان کے چہرے کی طرف دیکھے اور کہے : استاد جی ! یہ کیا بات ہے کہ آپ کا چہرہ کچھ زیادہ ہی زرد ہوگیا ہے۔ جب استاد محترم ہر ایک سے یہی کلمہ سنیں گے تو وہم انہیںبیمار بنا دے گا۔ سب لڑکوں نے اس تجویز کو پسند کیا اور اس پر عمل کرنے کا عہدکرلیا۔ جب دوسرے دن مدرسہ کھلا اور استادآئے تو ایک شاگرد نے سلام کیا اور کہا: استاد جی !آپ کا چہرہ اس قدر زرد کیوں ہے؟ استاد نے کہا : کیا بکتا ہے ، جا اپنی جگہ پر بیٹھ …پھر دوسرا لڑکاآیا اس نے بھی سلام کیا اور وہی بات دہرائی … یعنی ساری جماعت نے استاد کو بیمار بتایا۔ اس کا وہم بڑھتے بڑھتے یقین کے درجے تک پہنچ گیا اور وہ سچ مچ بیمار پڑ گیا۔
ہم ہر روز اخبارات میں جرائم کے کالم میں دل دہلا دینے والے واقعات پڑھتے ہیں توہمیں اپنے انسان ہونے پروہم سا ہونے لگتا ہے۔چمن بیگ کا خیال ہے کہ آج کے انسان سے شیطان تک پناہ مانگتا ہے ،لہٰذا وہ امریکہ میں چین کی بانسری بجاتا پھررہا ہے اور اس کے سارے کام خودحضرت انسان بحسن و خوبی انجام دے رہا ہے۔
شیطان کا بچہ بھاگا بھاگا اپنے باپ کے پاس آیا اور بولا: ابو ابو مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے؟
شیطان: کیوں بیٹا؟
بچہ: میں نے ابھی ابھی ایک انسان کو دیکھا ہے۔
شیطان: نہیں نہیں بیٹا !یہ انسان ونسان کچھ نہیں ہوتے، بس تمہارا وہم ہے!
کلاس ٹیچر نے بچوں سے پوچھا:
یقین اور وہم میں کیا فرق ہے؟
ایک شاگرد: میڈم آپ پڑھا رہی ہیں یہ یقین ہے اور ہم پڑھ رہے ہیں یہ آپ کا وہم ہے۔
وہم کبھی بھی کسی کو بھی ہوسکتا ہے ،جیسے کہ چمن بیگ کو ان دنوں یہ وہم کھائے جارہا ہے کہ غنڈوںکے ہاتھوں ہی ان کی جان جائے گی۔لہٰذاگھر پر دستک بھی ہوتی ہے تو انہیں گمان گزرتاہے کہ ضروریہ غنڈے ہیں جو ان کے گھر کے فریج میں رکھے Meatکو Beaf کہہ کر انہیں مار مار کر مار ہی ڈالیں گے۔ چند سال قبل ہم خود بھی وہم کا شکار ہوگئے تھے۔ ہوا یوں کہ ہمیں اچانک خون کی کمی لاحق ہوگئی ،نقاہت کا یہ عالم تھاکہ دو قدم بھی چلتے تو ہماری سانسیں بے ترتیب ہوکر رہ جاتیں، سرکچھ اس طرح چکراتا کہ اپنے سوا ہر ساکت شئے گھومتی ہوئی نظرآتی اور گھومتا ہوا سیلنگ فیان ساکت نظرآتا۔ ہم پھول بانو کے ہمراہ ڈاکٹر انجکشن والا سے رجوع ہوئے تو انہوںنے ہماری تفصیلی کیفیت سنے بغیر ہی دو عدد انجکشن ہمیں ٹھونس دئیے اور ایک ادا کے ساتھ کہا: تم زیادہ سے زیادہ فروٹس کھایا کرواورتمہیں مکمل بیڈ ریسٹ کی ضرورت ہے۔سانس لینے کے سوا کوئی دوسرا کام مت کرنا بلکہ میرا بس چلتا تو میں تمہیں سانس لینے سے بھی منع کردیتا!
ڈاکٹر انجکشن والا کے مذکورہ ریمارکس نے ہمیں خاصا پریشان کر دیا، ڈاکٹرکے کہے کے مطابق ہم نے خود کو بیڈ ریسٹ کے نام پر بستر کی نذر کردیا… لیکن ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ‘‘ کے مصداق ہمارے جسمانی حالات اس قدر ابتر ہوچکے تھے کہ ہمیں اپنی موت آنکھوں کے آگے ناچتی ہوئی نظرآرہی تھی۔ دن بہ دن ہماری گرتی صحت جسمانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے پھول بانو کہنے لگیں: میرے سرتاج !اب آپ کی زندگی دواؤں سے زیادہ دعاوں کی محتاج ہوکر رہ گئی ہے ،چلیے ہم جھٹ پٹ بابا کے ہاں چلتے ہیں،مجھے لگتا ہے آپ پر کسی نے جادو کروا دیا ہے یا پھرآپ کسی آسیب کا شکارہوگئے ہیں۔‘‘
آسیب کا ذکر سنتے ہی ہمارے جسم میں جھرجھر ی سی آگئی اور غیب سے صداآنے لگی : پھول بانو ٹھیک کہہ رہی ہے ، پھول بانو ٹھیک کہہ رہی ہے…یوں تو ہم نام نہاد باباؤں سے دوربہت دور رہتے ہیں لیکن اس بار ہم چلنے کے قابل نہ ہونے کے باوجودجھٹ بٹ بابا کے ہاں چلنے کے لیے جھٹ پٹ تیار ہوگئے،ہم کیا چلتے ہماری سانسیں چل رہی تھیں یہی بہت تھا۔ ہمیں گھوڑے خان نے اپنے کندھوںپر لادااور جھٹ پٹ بابا کے روبروبڑے سلیقے سے بچھادیا۔ہمیں دیکھتے ہی بابا نے آنکھیں بند کرلیں ، بہت دیر تک وہ یوں ہی بیٹھے رہے، ان کی آنکھیں ہنوز بند تھیں لیکن انہوں نے اپنا منہ کھولا: اگر تم اس نیم مردہ جسم کو لانے میں ایک منٹ کی بھی تاخیر کرتے تو پھر یہ نیم اور بیر کے پتوں کا غسل فرما رہا ہوتا،اس پرکوئی خوبصورت بلا فدا ہے۔
پھول بانو فوری پوچھ بیٹھیں:’’کون ہے وہ چڑیل؟ ‘‘
’’ہاں! وہ چڑیل ہی ہے جس سے کبھی آپ کے شوہرنامدار عشق فرمایا کرتے تھے …‘‘جھٹ پٹ بابا ہماری ناتوانائی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہائی سفید جھوٹ کہے جا رہے تھے۔ ہم نے آنکھوں کے ذریعے اس سنگین الزام کی تردیدتو کی لیکن پھول بانو اسے خاطر میں لائے بغیر بابا سے پوچھ بیٹھیں:
’’ بابا!چڑیل سے اِن کا عشق شادی سے پہلے کا ہے یا شادی کے بعد کا؟ ‘‘
’’شادی سے پہلے کا عشق ہے یہ!‘‘
جھٹ پٹ بابا ایک زبردست رومانی فلم بنارہے تھے جس کے ہیرو ہم تھے اور ہیروئن وہ تھی جس سے کبھی ہمارا واسطہ ہی نہیں پڑا تھا،مگر بابا کی زبانی ہماری فرضی عشقیہ داستان سننے کے لیے پھول بانو مری جارہی تھیں چنانچہ انہوں نے ہماری جانب دیکھے بغیر ہی سوال داغا : ’’بابا!اِن کے عشق کے بارے میںمزید کچھ بتائیے ؟ ‘‘
جھٹ پٹ بابا کے موڈ کو دیکھ کر محسوس ہورہا تھا کہ وہ رومانوی فلموں کے لیے مشہور فلم ساز اور ہدایت کارآنجہانی یش چوپڑہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیں گے لیکن جیسے ہی ان کی نظریں ہماری نظروں سے ٹکرائیںبابا کا لہجہ نہایت ملائم ہوگیا، غالباً انہیں ہماری بے بسی اور سادگی پر ترس آگیا، کہنے لگے: اگر یہ شخص چاہتا تو اس چڑیل سے شادی رچا لیتا اور تجھے خبر تک نہ ہوتی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔لہٰذا اس کی معشوقہ نے خودکشی کرلی اور بری آتما بن کر تیرے شوہر کے دل پر قبضہ جمائے بیٹھی ہے اور اسی کے مسلسل خون چوسنے سے تیرا شوہرخون کی کمی کا شکار ہوچکا ہے۔
ہمارے عشق کی کوئی باقاعدہ کہانی نہیں لیکن ہمیں جھٹ بٹ بابا سے اپنی عشقیہ داستان سن کر بڑا اچھا محسوس ہو رہا تھا۔دریں اثنا ہماری نگاہوں کے آگے سوپر ہٹ فلم ’’ راز‘‘ چلنے لگی ، جس میں محترمہ بپاشا باسو اپنے شوہرنامدار کو چڑیل کے چنگل سے چھڑانے کے لیے جان کی بازی تک لگا دیتی ہے۔ ہمیں قوی امید تھی کہ پھول بانوبھی بپاشاباسو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے زور دار نعرہ ماریں گی کہ میں اپنے سہاگ کو بچانے کے لیے حد سے گزر جاؤں گی ، میں اپنے شوہر کو چڑیل کے چنگل سے چھڑاکر ہی دم لوں گی…لیکن ہماری یہ خوش فہمی غلط فہمی ثابت ہوئی، ہم نے فرش پر پڑے پڑے پھول بانو کو دیکھا تو انہیں کھا جانے والی نگاہوں سے ہمیںگھور تا ہوا پایا۔بابا نے کچھ پلیتے دیے،ہماری کلائی پر سیاہ ڈوری باندھی اور چڑیل کے اثر کو ختم کرنے کے لیے ساٹھ ہزار روپئے نقداوردو عدد سیاہ بکرے طلب کیے۔
ہم اپنا وہم دور کرنے کے لیے بابا کے ہاں پہنچے تھے ہمارا وہم تو دور ہوا نہیں، الٹے پھول بانو خواہ مخواہ ہمارے تعلق سے وہم میں مبتلا ہوگئیں۔ کل تک دل و جان سے ہماری خدمت کرنے والی پھول بانو ہم سے کترانے لگیں۔ اس خوف سے نہیں کہ ہمارے اندر موجود چڑیل کے غصے کا وہ شکار ہوجائیں گی، انہیں چڑیل سے نہیں ہم سے چڑ ہوگئی تھی کہ ہم نے آخر کسی چڑیل سے محبت کی کیسے ؟
ہم نے جھٹ پٹ بابا کی من گھڑت کہانی پر خاک ڈالی اور شہر کے کسی ماہر ڈاکٹر سے رجوع ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ مختلف ٹسٹوں سے گزرنے کے بعد پتا چلاکہ وٹامن بی 12کی کمی کی وجہ سے ہمارے جسم میں خون کی مقدار مسلسل گھٹتی چلی جارہی ہے۔ہم نے ڈاکٹر کے تجویز کردہ وٹامن بی 12کی کمی دور کرنے والے انجکشن لگوائے اور دیگر ادویات کا استعمال کیا تو ہماری زندگی میں دوبارہ بہارآگئی اور پھول بانو کو بھی یہ یقین ہوگیا کہ ہمارا کسی چڑیل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
دوستو!وہم بڑی عجیب و غریب چیز ہے ،کوئی وہم کسی کو کہیں کا نہیں چھوڑتا توکوئی وہم کسی کی جان تک لے لیتا ہے،کسی وہم کی قیمت ہزار روپئے ہوتی ہے تو کسی وہم کی قیمت کروڑوں روپئے ہوا کرتی ہے۔وہم کو کسی نام نہادبابا کے ذریعے نہیںبلکہ صرف اور صرف اللہ کے ذکر ہی سے دور کیا جاسکتا ہے۔جب ’’ ہم ‘‘ میں ’’ وسوسے‘‘ کا ’’ و‘‘ شامل ہوجاتا ہے تو پھر ہم ، ہم نہیں رہتے سراپا ’’ وہم ‘‘ بن جایا کرتے ہیں۔ فانی بدایونی نے کیا خوب کہا ہے :
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
رہا یہ وہم کہ ہم ہیں سو وہ بھی کیا معلوم
۰۰۰٭٭٭۰۰۰