طنز و مزاحمضامین

دو منہ والوں کی قدر و قیمت

زکریا سلطان۔ ریاض

مرزا اسداللہ خان غالب المعروف چچا غالب کی شکایت ہے ،کہتے ہیں:
حیران ہوں دل کو روﺅں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
انہوں نے یوں ہی گلہ نہیں کیا اس کے پیچھے ایک بڑا فلسفہ تھا، ایک حقیقت تھی، کچھ تلخیاں تھیں، کچھ گستاخیاں تھیں اور کرنے کو بہت کچھ شکوے شکایتیں اور گلے تھے۔ غرض یہ کہ رنج و الم کا ایک بڑا گودام تھا، تجربہ تھا، دکھ درد کی ایک لمبی چوڑی داستان تھی، تب ہی تو ان کے دل سے یہ آہ ایک شکایت بن کرکلاشنکوف کی گولیوں کی طرح نکلی جسے مصنفین و مورخین نے کیچ کرکے تاریخ کے صفحات پر درج کرلیا اور جب بھی کسی کو ایسی ملتی جلتی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اور ضرورت محسوس ہوئی تو اس نے کتاب کے صفحات پلٹ کر اس سے استفادہ کیا اور غالب کے رونے دھونے کا حوالہ دیا ۔ میں بھی یہ دیکھ کر حیران ہوں کہ آج درندوں کی، گدھوں کی ،چیتوں کی اور سانپوں کی تک قدر و قیمت ہے مگر ہائے رے انسان ! کہ اس کی جان کی قدر و قیمت نہ رہی ، اس کا خون ارزاں ہوگیا اور زندگی سستی!!! خبر آئی ہے کہ ایک دو منہ والا سانپ بہار کے ضلع بیگو سرائے میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں ایک کنٹینر میں پیش کیا گیا تا کہ معزز جج صاحب اس کا جائزہ لے کر محکمہ جنگلات کے عہدیداروں کو ضروری ہدایات و احکام دے سکیں، اس کی قیمت ہوش ربا ہے، پچیس کروڑ روپئے کا یہ سانپ کہا جاتا ہے کہ نایاب نسل کا ہے ، اس کی بین الاقوامی بلیک مارکیٹ میں قیمت پچیس کروڑ روپئے سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے!!! واہ رے حیوان! تیری تقدیر کہ تو کروڑوں کا ہوگیا اور انسان کوڑیوں کا ہوگیا۔ جب بھی ملک میں کوئی آفت آتی ہے، کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور انسان مارے جاتے ہیں تو حکومت اپوزیشن کے چیخنے چلانے اور ورثاءکے تڑپنے بلکنے اور بلبلانے کے بعد دو چار لاکھ روپئے بہ مشکل ایکس گریشیا منظور کرکے ان پر ایسا احسان جتاتی ہے جیساکہ متعلقہ وزیر نے اپنے ابا جان کی جیب سے یہ رقم عوام کو خیرات میں دی ہے پھر اس کی خوب دل بھر کر تشہیربھی کی جاتی ہے کہ ہم نے فلاں کام میں اور فلاں حادثہ کے وقت مدد کی تھی، یہاں ایک بات بڑی دلچسپ مزے دار اور قابل ذکر ہے کہ مذکورہ دو منہ والے سانپ کی قیمت بھی لگ بھگ دو منہ والے لیڈر وں کے برابر ہے، جی ہاں دوغلے ضمیر فروش لیڈروں کی آجکل سیاسی مارکٹ میں اتنی ہی قیمت ہے،تقریباً وہی ریٹ چل رہا ہے! اُن فریبی سیاستدانوں کی جو الیکشن سے پہلے گلی گلی محلہ محلہ پھر کر عوام سے جھوٹے وعدے کرکے ہاتھ جوڑتے ہوئے ووٹوں کی بھیک مانگتے ہیںکہ میں فلاں پارٹی کا امیدوار ہوں مجھے ووٹ دیجئے، پھر الیکشن جیتنے کے بعد یہ ابن الوقت دوسری پارٹیوں سے سودے بازی کرکے کروڑوں میں بکنے والے حیوانوں کی طرح خود بھی فروخت ہوجاتے ہیں نہ انہیں عوام کو دھوکہ دینے میں شرم آتی ہے اور نہ پارٹی سے بغاوت کرنے میں عار محسوس ہوتا ہے ، جو کل تک دوسری پارٹی کو کرپٹ اور برا بھلا کہہ رہے تھے وہ آج اسی پارٹی میں شامل ہوکر خود اپنے کرپٹ، دغا باز اور ضمیر فروش ہونے کا ثبوت دے دیتے ہیں۔چوری کا مال خریدنے والی پارٹی بھی دھوکہ باز، اخلاق و اقدار سے بے نیازاور فروخت ہونے والے بھی بے شرم ، سب ایک ہی حمام کے ننگے۔رہے بے چارے عوام وہ تو اتنے مجبور، احمق و لاشعور ہیںکہ وفاداریاں بدلنے والے لیڈروں کا احتساب ہی نہیں کرتے اور اللہ میاں کی گائے بنے رہتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ الیکشن کے بعد لیڈر انہیں پلٹ کر نہیں پوچھتے اور نہ گھاس ڈالتے ہیں ۔عوام اگر اپنے ووٹ کی قدر و قیمت جانتے اور مضبوط و متحد ہوکر وفاداریاں اور پارٹیاں بدلنے والے لیڈروں کا گریبان پکڑکر ان سے سوال کرتے، حساب کتاب مانگتے تو پھر کسی لیڈر کی مجال نہیں ہوتی کہ وہ عوام کو دھوکہ دے کر ایک پارٹی کے نام پر ووٹ لے اور پھرگرگٹ کی طرح رنگ بدل کر دوسری پارٹی میں شامل ہوجائے۔ مگر مسئلہ بلکہ المیہ یہ ہے کہ سب ہی پارٹیاں ایک دوسرے کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے والی ہیں جن کا جہاں زور چلتا ہے چلا لیتے ہیں اور جہاں جس کا بس چلتا ہے اپنی بس میں "معززاراکین ” کوبٹھاکرکسی دوسری ریاست کے فائیو اسٹار ہوٹل کا رخ کرلیتے ہیں ۔جب بس نہیں چلتا تو بس بھی نہیں چلتی ، اس وقت صرف ماتم اورواویلا ہوتا ہے کہ ہائے رے کمبخت پارٹی چھوڑکر بھاگ گئے، دغا دے گئے، وفا داری بدل ڈالی، بعض ایسے کھوٹے سکے بھی ہوتے ہیں جو چند مہینوں یا برسوں بعد بے شرمی سے گھر واپسی کے لیے تیار ہوجاتے ہیں کیوں کہ نئی پارٹی میں ان کی دال نہیں گلتی چنانچہ انہیں دال آٹے کا بھاﺅ معلوم ہوجاتا ہے ،تمام امیدوں پر پانی پھرجانے کے بعد توبہ تلّا کرکے خیر سے بدھو گھر لوٹ آتے ہیں ، پرانی پارٹی بھی جیسی روح ویسے فرشتے کے مصداق انہیں خوش آمدید کہہ کردوبارہ گلے لگالیتی ہے اورعوام یعنی رائے دہندے منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔ خلاصئہ کلام یہ کہ دو منہ والے سانپ کی خبر پڑھ کر ہم اس بات کے قائل ہوگئے ہیں کہ واقعی ہمارے ملک اور ہماری سوسائٹی میںدو منہ والوں کی بہت زیادہ قدر و قیمت ہے چاہے وہ سانپ ہوں یا انسان!
٭٭٭