سیاستمضامین

دہلی میں مسجدوں اور مزاروں پر پی ڈبلیو ڈی اور این ڈی ایم سی کا عتاب

پروفیسر اختر الواسع

دہلی میں آج کل ایک نئی وبا چل نکلی ہے اور وہ یہ کہ مساجد اور قبریں دونوں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ سنہری باغ روڈ کی مسجد کو اس لئے ہٹانے کی بات کی گئی کہ ٹریفک کی آمد و رفت میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لُوٹِن نے نئی دہلی کی جب تعمیر کے لئے نقشے تیار کئے تو اس میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ کسی کے مذہبی جذبات مجروح نہ ہوں اور یہ بھی کم دلچسپ بات نہیں کہ آزادی کے 75سال گزر جانے کے بعد یہ خیال آیا کہ ٹرانسپورٹ کی آسانی کے لیے مسجد کو، جو آج سے نہیں تقریباً 200سال سے موجود ہے، اس کو ہٹایا جائے۔ اس سے قبل سنہری باغ روڈ کے نکڑ پر جو قدیم مزارات تھے ان کو بھی ہٹا دیا گیا اور یہ سب اس دہلی میں ہو رہا ہے جہاں ماحولیاتی کسافت کے لیے ٹرانسپورٹ کو ہی ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے اور اسی لیے کبھی اوڈ اور ایون (odd-even) اور کبھی ریڈ لائٹ پر گاڑیوں کے انجن کو بند کر دینے کی پالیسیوں پر عمل ہوتا رہا ہے اور اسی طرح اکثر BS-4 کی پالیسی کے تحت گاڑیوں کی آمد و رفت پر اکثر روک لگادی گئی ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں پر 20ہزار روپئے تک کا جرمانہ لگایا جاتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ٹرانسپورٹ کو عذر لنگ کے طور ایک مسجد کو شہید کرنے کا نادر شاہی حکم جاری کیا گیا، وہ تو کہیے بھلا ہو مولانا محمود اسعد مدنی اور دوسرے مسلم رہنماؤں کا جس میں ایک اہم نام جامع مسجد دہلی کے شاہی سید احمد بخاری اور ان کے صاحبزادے نائب شاہی امام شعبان بخاری کا بھی ہے جن کی کوششوں سے فی الحال سنہری باغ روڈ کی مسجد کو شہید کرنے کا فیصلہ معرضِ التوا میں ڈال دیا گیا ہے۔
ابھی سنہری باغ روڈ کی مسجد کا قضیہ ختم نہیں ہوا تھا کہ دہلی کی سڑکوں کے کنارے فٹ پاتھ پر جو مزارات تھے ان کو ایک طرح سے مسمار کر دیا گیا اور یہ سب کچھ سرکاری محکمہ پی ڈبلیو ڈی کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں سے نفرت پر ابھی قابو نہیں پایا جا سکا تھا کہ زندوں کے ساتھ مُردوں کی بھی ماب لنچنگ ہونے لگی۔ زندوں کے خلاف تشدد اگر کچھ سرپھرے فسطائیوں اور فرقہ پرستوں کے ذریعے ہو رہا تھا تو مُردوں کی قبروں کو مسمار کرنے کا کام سرکار کی نگرانی میں اس کا محکمہ پی ڈبلیو ڈی کر رہا ہے۔ اس محکمہ کی دیدہ دلیری کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وقف کی وہ اراضی اور مزارات جن کے معاملات عدالتوں میں سماعت کے لیے موجود ہے، عدالتوں کے فیصلوں کا انتظار کئے بغیر یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور اس کی سب سے تکلیف دہ مثال رانی جھانسی روڈ پر عیدگاہ کے قریب ماموں بھانجے کے مزارات پر نوٹس دے کر اور مغالطہ میں رکھ کر انہدامی کارروائی کر دی گئی۔ دہلی کے لیفٹننٹ گورنر کو اس کا نوٹس لینا چاہیے کیوں کہ یہ سب کچھ ان کے نام پر ہی کیا جا رہا ہے۔
نئی دہلی آٹھویں دہلی ہے۔ اس سے پہلے پرتھوی راج چوہان کی دہلی تھی، پھر مہرولی، تغلق آباد، دین پناہ، جہاں پناہ، شاہجہاں آباد، یہ وہ دہلی تھیں جو انگریزوں کے تسلط سے پہلے مختلف زمانوں میں اقتدار کا مرکز و محور رہی تھیں جسے مسلمانوں نے قطب مینار کی بلندی، ہمایوں کے مقبرے کا حسن، لال قلعہ کی پختگی، شاہجہانی مسجد کا تقدس اور قطب صاحب اور حضرت نظام الدین اولیا کا عرفان عطا کیا تھا۔ اس کے علاوہ لودھی گارڈن، صفدر جنگ کا مقبرہ بھی مسلمانوں کی یادگار ہیں۔ مولانا الطاف حسین حالیؔ نے کیا خوب کہا تھا:
چپے چپے پہ ہیں یاں گوہر یکتا تہ خاک
دفن ہوگا کہیں اتنا نہ خزانہ ہرگز
مولانا الطاف حسین حالیؔ ہی کیا جو کہ دہلی مرحوم کے مرثیہ گو ہیں جب کہ دہلی کی عظمت اور شان و شوکت کے قصیدہ خواں حضرت امیر خسرو ہیں جو کہ دہلی کو حضرت دہلی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ آج کیسے افسوس کی بات ہے کہ وہ دہلی جسے امیر خسرو حضرت دہلی کے نام سے پکارتے تھے، آج اس کے آثار قدیمہ کو نیست و نابود کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔
وہ مرکزی سرکار جو سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کے وشواس کی بات کرتی ہے اسے ایک دفعہ کھل کر یہ بتا دینا چاہیے کہ مسلمانوں کی مسجدیں ہوں یا مزارات یا پھر وقف کا اراضی، ان کے لیے اس کی کیا پالیسی ہے؟ اگر مثبت اور ہمدردانہ پالیسی ہے تو پھر پی ڈبلیو ڈی کا محکمہ کس کے اشاروں پر یہ سب تخریبی کارروائیاں کر رہا ہے؟
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)