مضامین

ذات پر مبنی مردم شماری-مرکز کا انکار،اپوزیشن کا اصرار، بہار میں شروعات!

سلمان عبدالصمد

ذات پات کا نظام اپنے آپ میں ایک انتہائی پیچیدہ نظام ہے۔ جب اس نظام کو مردم شماری کے معاملات سے جوڑدیا جائے تو مزید پیچیدگی بڑھ جاتی ہے۔ ہندستان ایک جمہوری ملک ضرور ہے تاہم یہاںکے جمہوری مزاج کی تشکیل میں ذات پات اپنا حصہ طے کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پارٹیاں ذات کے مدنظر اپنے امیدواروں کو سیاسی حلقوں میں اتارتی ہیں۔ اب جب کہ ملک بھر کی بہت سی سیاسی پارٹیاں ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کررہی ہیں تومرکز نے اس سے انکار کردیا ہے جس کے بہت سے سیاسی تعبیرات ہوسکتے ہیں۔ مرکز کے انکار اور سیاسی پارٹیوں کے اتحاد سے دو باتیں متضاد طور پر سامنے آتی ہیں۔
اول: یہ کہ آج مرکزمیں برسر اقتدار بی جے پی اس مردم شماری سے انکار کررہی ہے، تاہم اسی پارٹی کے لیڈر گوپی ناتھ منڈے نے 2010 میں ذات پر مبنی مردم شماری کی وکالت کی تھی۔انھوں نے بڑی شد ومد کے ساتھ آواز اٹھائی کہ اوبی سی کو سماجی انصاف دلانے کے لیے مذکورہ مردم شماری ضروری ہے۔ اس کے علاوہ 2018 میں سابق وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے یہ عندیہ ظاہر کیا تھا کہ 2021 کی مردم شماری میں او بی سی کی تفصیلات جمع کی جائیںگی۔ حالاں کہ اب مرکز نے اپوزیشن کے مطالبات کو سرد بستے میں ڈال دیا ہے۔ مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ نیتانند رائے نے 20 جولائی 2021 کو لوک سبھا میں کہا تھا کہ فی الحال مرکزی حکومت نے درج فہرست ذاتوں اور قبائل کے علاوہ دیگر ذاتوں کی گنتی کا کوئی حکم نہیں دیا ہے۔ اس کے علاوہ اپوزیشن کی متعدد پارٹیوں نے وزیراعظم نریندر مودی سے اس مسئلے پر ملاقات کی تھی اور انھوں نے اپوزیشن کے مطالبے کو تسلیم نہیں کیاہے۔ کانگریس نے بھی پارلیمنٹ میںکہا کہ یوں تو اوبی سی کو 27فیصد ریزرویشن کی بات کی جاتی ہے، تاہم انھیں 22فیصد ریزر ویشن کا فائدہ مل رہا ہے۔ اس لیے ذات کی بنیاد پر مردم شماری ضروری ہے۔ چھتیس گڑھ میں اوبی سی مردم شماری کا کام شروع ہوگیا ہے۔ اس صورت حال میں یہ دیکھنا ہے کہ مرکز ی حکومت آگے کیا قدم اٹھاتی ہے ۔
دوم: ہندوستان میں ایسا کم ہی ہوتاہے کہ کسی ایک مسئلے پر بہت سی پارٹیاں باہم متفق ہوجائیں۔ ذات پر مبنی مردم شماری میں جہاں بہار کی پارٹیاں متحد ہیں،وہیں مہاراشٹر سمیت متعدد لیڈران وریاستیں متفق ہیں۔ ان کے اتحاد پر سیاسی پنڈتوں نے کئی گہرے اشارے دیے ہیں، کیوںکہ ماضی میںبھی ریزرویشن،ذات پات اور مردم شماری کے نتائج سے سیاسی جغرافیہ بدلنے کا واقعہ پیش آ چکا ہے۔ قیاس آرائیوں کو تسلیم کیا جائے تو دراصل ذات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے میں جہاں بہت سی باتیں پوشیدہ ہیں، وہیں اس مطالبے کے بطن میں تیسرے محاذ کا فلسفہ بھی موجود ہے۔ اس فلسفے کی وضاحت کے لیے چند حقائق کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ گرچہ نیا ہے تاہم سال 1931 تک ہندستان میں ذات کی مردم شماری کی جاتی تھی۔1941 میں مردم شماری کے دوران ذات پر مبنی موادجع تو کیا گیا تھا لیکن اسے منظر عام پر نہیں نہیں لایا گیا۔1951 سے 2011 تک کی مردم شماری میں ہر بار شیڈولڈ کاسٹ اور شیڈولڈ ٹرائب کی تفصیلات دی گئیں لیکن او بی سی اور دیگر ذاتوں کی نہیں۔ سال 1990 میں منڈل کمیشن کی شفارسات کا معاملہ پیش آیا۔ جس میںسفارش تھی کہ سرکاری ملازمتوں میں او بی سی امیدواروں کو27 فیصد ریزرویشن دیا جائے۔ ریزرویشن کے اس مسئلے پر ہندوستانی سیاست میں ایک نیا موڑ آیا تھا، جس کے متعلق بہت سے مواد موجود ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اگر ذات پر مبنی مردم شماری ہوتو کوئی بعید نہیں کہ ایک بار پھر ہندوستانی سیاست میں بڑی تبدیلی آئے گی اور کئی ایسے سوالات بھی رونما ہوں، جن کے جوابات ڈھونڈنے میںکافی دقتیں پیش آئیں گی اور مرکزی حکومت پر خطرات کے بادل منڈلانے لگیں گے۔ اس پیچیدگی کو کئی مثالوں سے سمجھا جاسکتاہے:
اول: ہندوستان میں4.3 فیصد برہمنوں کی آبادی ہے، تاہم سرکاری نوکریوں میں وہ تقریباً34فیصد ہیں۔ اب جب کہ ذات پر مبنی مردم شماری ہوگی تو یہ سوال از خود اٹھے گا کہ تقریباً ساڑھے چار فیصد برہمن 34فیصد سرکاری عہدوں پر کیوں فائز ہیں؟ گویا ایسی مردم شماری برہمنی ذہنیت کے لیے خطرہ ہے۔ سیاسی ماہرین نے یہ بھی امکان ظاہر کیا ہے کہ ایسی مردم شماری کے بعد ذات پات کی بنیاد پر ریزرویشن کے سخت مطالبات سامنے آنے لگ جائیں گے۔ ظاہر ہے ان مطالبوں کے درمیان مرکزی حکومت کے لیے قدم جمائے رکھنا شاید ناممکن ہو۔
دوم: منڈل کمیشن کی سفارشات کے بعد ہندوستان میں اوبی سی طبقے کو 27فیصد ریزرویشن دیا جارہا ہے، تاہم اوبی سی کی صحیح تعداد سے واقفیت نہیں ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی پہلو ہے کہ اوبی سی میں متعدد ذاتوں کے افراد شامل ہیں۔ اگر ذات پر مبنی مردم شماری ہوتی ہے تو اوبی سی زمرے کی ذاتوں کا تناسب بھی سامنے آئے گاکہ اس میں کس ذات کے افراد زیادہ ہیں اور کس کے کم؟کوئی بعید نہیں کہ اس مردم شماری میں اوبی سی آبادی کا فیصد پچاس فیصد ہندوستانی آبادی سے زیادہ ہوجائے۔ اگر ان کی آبادی زیادہ ہوگی تو ظاہر سی بات ہے کہ ریزرویشن فیصد میں اضافے کا مطالبہ ہوسکتاہے۔ اس کے علاوہ باہم اوبی سی زمرے کی ذاتوں میںبھی افتراق کا اندیشہ ہے۔ کیوںکہ جس ذات کی آبادی زیادہ ہوگی، وہ ذات زیادہ ریزرویشن کا مطالبہ کرے گی۔
سوم:اگر اوبی سی ذاتوں کی آبادی بہت زیادہ ہوگی تو اوبی سی طبقے کے منتخب ایم پی/ ایم ایل اے کوئی نیا سیاسی فرنٹ تیار کرنے کی پالیسی بنانے میں مصروف ہوجائیں۔
چہارم: ریزرویشن کے ضمن میں ایک یہ بات بھی ہوسکتی ہے کہ ای ڈبلیو ایس کوٹے میں دس فیصد ریزرویشن دیا گیا ہے۔ جس کا مقصد مالی لحاظ سے کمزور طبقے کو فائدہ پہنچانا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس ریزرویشن میں سیٹیں تو مختص ہورہی ہیں،تاہم جس طرح دیگر ریزرویشن میں عمر کے معاملے میں بھی رعایت دی جاتی ہے، ویسا معاملہ ای ڈبلیو ایس میں نہیں ہے۔ جب ذات پر مبنی مردم شماری ہوگی اور ریزرویشن کا نیا فارمولہ تیار ہوگا تو ای ڈبلیو ایس طبقے میں بھی یکساں رعایت کا مطالبہ ہوگاجو کہ مبنی برانصاف ہوگا۔لیکن اسی مطالبے کے ساتھ ساتھ ای ڈبلیو ایس کے لیے سالانہ جو آٹھ لاکھ آمدنی طے کی گئی ہے، اس پر بھی گفت وشنید کے لیے آواز اٹھے گی۔
پنجم: فی الحال ایس سی اور ایس ٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی حلقوںکا دائرہ طے کیا گیا ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ اگر ذات برادری کا مسئلہ سامنے آئے تو ذات کے مدنظر سیاسی حلقوں کی تقسیم کا مطالبہ اٹھنے لگے۔ گویا اس صورت میں ہندوستانی جمہوریت کی تفہیم میں مذاہب کی بھی شمولیت ہوگی اور ذات پات کی بھی۔ ذات پر مبنی مردم شماری کے بہت سے ایسے پہلو ہیں جو خصوصاً مرکزی سرکار کے لیے سوہان روح سے کم نہیں۔ کیوںکہ مردم شماری کے بعد سامنے آنے والے حقائق کے مدنظر مطالبات مرکزی حکومت سے ہی ہوں گے۔ مرکز نہ برہمنی ذہنیت کی ناراضگی مول لے سکتی ہے اور نہ ہی اوبی سی طبقے کی۔ واقعہ یہ ہے کہ 1951-2011 تک ہونے والی مردم شماری میں ایس سی اور ایس ٹی آبادی کی وضاحت کی گئی ہے۔ ہندوستان میں 15فیصد شیڈول کاسٹ ہیں اور ساڑھے 7 فیصدشیڈول ٹرائب ہیں۔ انھیں ان کی آبادی کے تناسب سے ریزرویشن دیا جارہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ذات پرمبنی مردم شماری میں شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب کا کوئی مسئلہ حکومت کو پریشان نہیں کرے گا، کیوںکہ ان کی آبادی ہر مردم شماری میں واضح ہوتی رہی ہے اور اسی حساب سے انھیں ریزرویشن کا فائدہ ملتا رہا، تاہم اوبی سی کا مسئلہ سب سے زیادہ پریشان کن ہو گا، کیوں کہ ان کی آبادی کی وضاحت اب تک نہیں ہوسکی ہے۔ ساتھ ہی برہمنوں کی بڑی تعداد میں سرکاری نوکری میں ہونے کا موضوع بھی زیر بحث ہوگا۔ چنانچہ مذہب پر مبنی مردم شماری سے تیار ہونے والی سیاسی جغرافیہ میں تیسرے محاذ کا پہلو بھی مضبوط ہوسکتاہے،کیوںکہ ذاتوں کی تفصیلات منظرعام پرآنے کے بعد بہت سے سوالات ہوں گے اور ہر سوال کا جواب دینا یا پھر ان سوالوں کے مدنظر پورے ملک کو متحد رکھنا مرکزی حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ ایسے سیاسی منظرنامے میں وہ سیاسی لیڈران سامنے آئیں گے اور تیسرے محاذ کی تیار ی کریں گے جو فی الحال ذات پر مبنی مردم شماری کا علم بلند کررہے ہیں۔ یہ الگ بات ہوگی تیسرے محاذ میں کس لیڈر کو کتنی کامیابی ہاتھ آئے گی۔گویا ذات پر مبنی مردم شماری اپنے آپ میں ایک بڑی سیاست ہے۔
اسی درمیان ایک بڑی خبر یہ ہے کہ بہار میں ذات پر مبنی مردم شماری شروع ہوچکی ہے ۔ یہ مردم شماری مختلف مرحلوں میں ہوگی۔ پہلا مرحلہ 7جنوری 21طے کیا گیا ہے جس میں فقط گھروں کو نمبر دیا جائے گا اور ان میں رہنے والوں کی تفصیلات جمع کی جائیں گی ۔ ظاہر ہے اس عمل سے چند باتیں واضح طور پر سامنے آئیں گی۔ اول،باشندگان بہار کی کل تعداد بھی واضح ہوگی ۔ ساتھ ہی ذات اورمذہب کے معاملات سے آشکا رہوں گے۔ دوم، دوسری ریاستوں کے سامنے بھی نظیر قائم ہورہی ہے کہ وہ اپنے یہاں ذات پر مردم شماری کراسکتی ہے ۔ سوم، مرکز کے انکار کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔ گویا یا یہاں ریاست اور مرکز کے نظریاتی تصامات بھی پیدا ہورہے ہیں۔ بہار کے اقدامات پر سب سے پہلا اہم پہلو یہ ہے کہ کیا مرکز اپنے نظریات پر نظر ثانی کرے گا یا پھر انکار پرمصر رہے گا۔ اس کے علاوہ بہار حکومت کے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ ذات پر مبنی مردم شماری کے نتائج کے مدنظر نئی نئی اسکیم بنائے گی یا پھر مرکز سے اختلاف ہی اس کا منشا ہے !
٭٭٭

a3w
a3w