مذہب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام خودکشی کرنے والوں کے نام

خوکشی کا معنی و مفہوم:کسی شخص کا اپنے آپ کو قصداً و عمداً اور غیر قدرتی طریقوں سے ہلاک کرنے کا عمل،اپنے آپ کواز خود موت کے گھاٹ اتارلینے کا عمل خود کشی کہلاتا ہے جسے انگریزی زبان میں SUICIDE کہتے ہیں ،

محمدعبد الرحیم خرم عمری جامعی
مہتمم ومؤسس جامعہ اسلامیہ احسن الحدیث
عبا داللہ فاؤنڈیشن۔ فون نمبر:9642699901

خوکشی کا معنی و مفہوم:کسی شخص کا اپنے آپ کو قصداً و عمداً اور غیر قدرتی طریقوں سے ہلاک کرنے کا عمل،اپنے آپ کواز خود موت کے گھاٹ اتارلینے کا عمل خود کشی کہلاتا ہے جسے انگریزی زبان میں SUICIDE کہتے ہیں ، زیادہ تر لوگ دماغی خرابی،طویل لاعلاج بیماری سے تنگ آکر ،معاشی تنگ دستی سے دل شکستہ ہوکر ، قرضوں میں ڈوب کر ،سود خوروں اور قرض داروں کی دہمکیوں سے تنگ آکر ، کسی حسینہ کے عشق میں ناکام ہوکر ،ہتک عزت کا صدمہ نہ سہہ کر ،سسرال والوں کی جانب سے جہیز کے مطالبے کے سبب، امتحانات میں ناکامیابی، ذ ہنی تناؤ، بے روزگاری وغیرہ کے سبب خودکشی کا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔اس ضمن میں آئے دن خودکشی کے بہت سارے واقعات رونما ہوتے ہیں جو اخبارات و ذرائع ابلاغ کی زینت بنتے ہیں جسے پڑھ کر ہمیں بہت افسوس بھی ہوتا ہے۔

کسی شاعر نے کہا تھا :
کرکے تم میری زندگی حرام
اب کہتے ہو خود کشی حرام ہے

خودکشی پر محققین کا تجزیہ:فطرتا مردوں میں عمر کے ساتھ خود کشی کی شرح بڑھتی جاتی ہے لیکن خواتین میں 25 برس کی عمر کے بعد خود کشی کا رجحان تقریبا ختم ہوجاتا ہے ، عورتوں کے مقابلے میں مرد اور سیاہ فام کے مقابلے میں سفید فام لوگ زیادہ تعداد میں اپنے آپ کو ہلاک کر لیتے ہیں۔عالمی اداہ صحت WHO کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر 40 سیکنڈ میں ایک انسانی خودکشی کرکے اپنی جان لے لیتا ہے۔WHO خود کشی پر ہونے والی اپنی دس سالہ تحقیق اور ڈیٹا اکٹھا کرکے اس کا تجزیہ کیا ہے جس کا مأخذ مندرجہ ذیل ہے: سالانہ 8 لاکھ افراد خود کشی کرکے اپنی جان لے لیتے ہیں ، جس میں 15سے 29 سال کے نوجوانوں کی کثرت ہے اس کے علاوہ 70 برس کی عمر کے افراد میں خود کشی کو رجحان زیادہ ہوتا ہے ، خود کشی کرنے والوں کی اکثریت معاشی تنگدسی سے وابستہ ہوتی ہے ۔امیر ممالک میں خود کشی سے مردوں کی اموات خواتین کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہوتی ہے ۔ ایک شاعر نے کہا تھا :

غریب شہر تو فاقے سے مرگیا عارفؔ
امیر شہر نے ہیرے سے خود کشی کر لی

WHO کی اپنی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خودکشی صحت عامہ کا ایک ایسا اہم مسئلہ ہے جس پر اکثر لوگ بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ دنیا کے صرف 28 ممالک میں خود کشی کی روک تھام کے لئے حکمت عملی تیار کی گئی ہے ،بعض سماجی تنظیموں نے کہا ہے کہ :’’ خودکشی کے رجحان کو کم کرنے کے لئے اسکول کی سطح پر تعلیم دینے کی ضرورت ہے ‘‘ ایک اور مفکر نے کہا کہ :’’خود کشی کے واقعات کی ذرائع ابلاغ و نشر یاتی ادارہ جات کی جانب سے رپورٹوں اور خبروں کی اشاعت نہیں ہونی چاہئے جس پر اس نے سخت تنقید کی ، اس رہورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ :’’ ان لوگوں کی امدد کے لئے اقدامات ہونا چاہئے جنہوں نے ماضی میں خود کشی کی کوششیں کی تھیں کیونکہ ان کی جانب سے خودکشی کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے‘‘۔ خودکشی کے خلاف مہم چلانے والے ایک برطانوی ’’ جان بنجامن‘‘ نے BBC کوکہا کہ:’’ میرے خیال میں خود کشی کے بارے میں زیادہ آگاہی ہونی چاہئے اور لوگوں کو اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ وہ خود کشی کا رجحان رکھنے والے لوگوں کے ساتھ کس طرح سے پیش آئیں‘‘۔

کسی شاعر نے کہا :
خودکشی قتل انا ترک تمنا بیراگ
زندگی تیرے نظر آنے لگے حل کتنے

خودکشی ابراہیمی مذاھب و ادیان میں : مذھب انسان کے روحانی سکون کا ذریعہ ہے کوئی بھی مذھب جرائم کی اجازت نہیں دیتا،کسی مذھب کی تعلیمات سے اس کے پیروکار ہی بے سکون رہیں تو وہ مذہب کیسے قرار پائے گا ؟واضح طور پر کسی بھی مذھب نے خودکشی کے رجحان کو پسند نہیں کیا ہے ، لیکن خودکشی کرنے والے سے نرم رویہ اختیار کیا، یہ ضروی ہی کہ خود کشی سے متعلق مذاھب کی تعلیمات و نظریات کا بھی علم رکھا جائے ۔

خود کشی یہودیت میں :دنیا کے قدیم و معروف مذاھب میں سے یہود بھی ہیں، یہودیت میں خود کشی کو ناپسنددیدہ مانا جاتا ہے ، اور خود کشی کرنے والے کو علیحدہ قبرستان میں دفنایا جاتا ہے ، اس کے لئے کچھ ماتمی و مذہبی رسوم بھی ادا نہیں کئے جاتے ،حالانکہ یہودیت میں خودکشی ثابت کرنا بہت مشکل ہے لیکن کسی بھی طرح خود کشی کو خودکشی نہ ماننے کی ترکیبیں کی جاتی ہیں جیسے کہ خود کشی کرنے والا شخص دماغی طور پر بیمار تھا ، یا خود کشی کا ارتکاب کرتے ہی موت سے قبل اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہوگا ؟ !،خود کی جان لینا جرم عظیم کا ارتکاب کرنے سے بہتر مانا جاتا ہے، اکثر علمائے یہود کا ماننا ہے کہ درد سے بچنے کے لئے موت کو جلدی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہودیت میں بڑے پیمانے پر خودکشی کی ایک طویل تاریخ ہے جہاں دوسرے متبادل کی جگہ اس کو ترجیح دی گئی ہے۔

خود کشی عیسائیت میں :انجیل میں خود کشی کی حرمت سے متعلق کچھ بھی مذکور نہیںہے، انجیل خودکشی کی مذمت نہیں کرتا اور انجیل میں ایسے لوگوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے خود کشی کی ہے البتہ متعدد عیسائی نظریات میں خود کشی کو پسند نہیں کیا گیا ہے عیسائیت میں یہ کہیں بھی نہیں کہا گیا ہے کہ خود کشی کبھی نہ معاف ہونے والا گناہ ہے ۔ کیتھولک کلیسا میں خود کشی کرنا گناہ ہے ، لیکن اس جرم کی شدت اور اس کا گناہ حالات کے مد نظر مختلف ہوتا ہے ابتداء میں کیتھولک کلیسا خود کشی کرنے والے کی لاش کو دفنانے سے منع کرتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہے ۔

دین اسلام کی تعلیمات:دین اسلام نے ہر سنگین مسئلے کا پر امن اور سنجیدہ حل تلاش کیا ہے جس میں انسانیت کے لئے مکمل سکون و اطمینا ن اور راحت موجود ہے شکستہ دل، بد حال و پامال لوگوں کے لئے مستحکم و حوصلہ مندتعلیمات دی گئی ہیں انھیں زندگی گزارنے کا مقصد بتایاگیا ہے اور پر پریشان حال انسان کے لئے دو بنیادی تعلمات یعنی صبر و شکر کی تلقین کی ہے، صبر انسان کے اندر قوت اعتماد اور قوت برداشت پیدا کرتا ہے، اسلام سکھاتا ہے کہ ہر قسم کی آزمائش صرف اللہ تعالی ہی کی جانب سے آتی ہے چاہے وہ بیماری ہو یا معاشی تنگدستی ، ہر صورت حال سے نمٹنے اور اس سے مقابلے کی طاقت انسان میں از خود پیدا ہونی چاہئے اور یہ صفت صبر کے ذریعے سے پیدا ہوتی ہے اسی لئے اللہ سبحانہ و تعالی نے ارشاد فرمایا : وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیٍٔ مِّنَ الخَوْفِ وَالجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الاَمْوَالِ وَالانْفُسِ وَالثَّمَرَات وَبَشِّرِالصَّابِرِیْن ’’اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے ،دشمن کے ڈر سے ،بھوک پیاس سے،مال و جان اور پھلوں کی کمی سے ا ور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے‘‘۔ (البقرۃ:155 )

اسی لئے مسلمان کو قوت برداشت و اعتماد کی ایک ایسی دعا سکھائی گئی ہے جو اس کے صبر کو مضبوط و مستحکم کرتی ہے اللہ سبحانہ وتعالی نے ارشاد فرمایا : الَّذِیْنَ اِذَاأَصَابَتْہُمْ مُصِیْبَۃٌ قَالُوْااِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن ’’جنہیں جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالی کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ (البقرۃ:156 )ان آیات میں مذکوہ پنہائیوںکو بندہ سمجھ جائیگا تو کبھی خودکشی کا رجحان اس کے اندر پیدا نہیں ہوگا ۔

اسی لئے اہل ایمان کی صفت بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : عَجَباًلأَمْرِالمُؤْمِنِ اِنَّ أَمْرَہُ کُلُّہُ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذاکَ لأَحَدٍ اِلَّا لِلْمُؤْمِنِ اِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْراً لَہُ ،وَاِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْراًلَہُ ’’مؤمن کا معاملہ عجیب ہے اس کا ہر معاملہ اس کے لئے بھلائی کا ہے ،اور یہ بات مؤمن کے سوا کسی اور کو میسر نہیں ،اسے خوشی اور خوشحالی ملے تو شکر کرتا ہے اور یہ اس کے لئے اچھا ہوتا ہے اور اگر سے کوئی نقصان پہنچے تو صبر کرتا ہے یہ بھی اس کے لئے بھلائی ہوتی ہے‘‘( مسلم :7500 )

خودکشی اسلام میں سنگین جرم:خودکشی کے متعلق دین اسلام نے مضبوط اقدام کیا ہے اور اپنے ماننے والوں کو سخت تعلیمات دی ہیں اللہ سبحانہ و تعالی کا ارشاد ہے : وَاَنْفِقُوْافِی سَبِیْلِ اللَّہِ وَلَاتُلْقُوابِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ وَاَحْسِنُوَاْاِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ’’اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوںہلاکت میں نہ پڑو اور سلوک و احسان کرو اللہ تعالیٰ ا حسا ن کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘۔( البقرۃ:195 )

اسی طرح اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا: وَلَاتَقْتُلُوٓا اَنْفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا ’’اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو ، یقینا اللہ تعالیٰ تم پر نہایت مہربان ہے‘‘۔( النساء:29 )

خود کشی کرنے والوں کے متعلق نبوی حکم :خود کشی کرنے والوں کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت اقدام کیا ہے اور انھیں اخروی برے انجام کی خبر دی ، کسی بھی خود کشی کرنے والے کے ساتھ کسی رحم و مروت کا معاملہ اختیار نہیں کیا بلکہ اس اقدام کو سختی سے ناپسند کیا اس ضمن میں کچھ احادیث و واقعات بیان کئے گئے ہیں جس کا ذکر کرنا مناسب ہوگا ۔

پہلی حدیث:(۱) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوے میں شریک تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے متعلق جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا تھا فرمایا کہ: ھٰذا مِنْ أَھْل النَّارِ ’’یہ دوزخ میں جائیگا‘‘ جب جنگ شروع ہوئی تو وہ شخص بڑی بہادری کے ساتھ لڑا اور وہ زخمی بھی ہوگیا،صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ !جس شخص کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ وہ دوخ میں جائیگا ، آج تو وہ بڑی بے جگری کے ساتھ لڑا ہے اوروفات پاگیا،آپ نے اب بھی وہی جواب دیا کہ وہ جہنم میں گیا۔ ابو ہریرہ( رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ ممکن تھا کہ بعض لوگوں کے دل میں کچھ شبہ پیدا ہوجاتا ،لیکن ابھی لوگ اسی غور و فکر میں مبتلا تھے کہ کسی نے بتایا کہ وہ مرا نہیں ہے البتہ شدید زخم لگا ہے پھر جب رات آئی تو اس نے زخموں کی تاب نہ لاکر خودکشی کر لی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی گئی تو آپ نے فرمایا: اَللّٰہُ اَکْبَر! أَشْھَدُ أَنِّیْ عَبْد اللّٰہِ وَرَسُوْلہ ،ثُمَّ أَمَرَ بِلالاً فَنَادَی بِالنَّاسِ: انَّہُ لایَدْخُل الجَنَّۃُ اِلاَّ نَفْسٌ مُّسْلِمَۃٌ ’’ اللہ اکبر ! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ، پھر آپ نے حضرت بلا ل رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، اور انہوں نے لوگوں میں اعلان کردیا کہ مسلمان کے سوا جنت میں کوئی اور داخل نہیں ہوگا اور اللہ تعالی کبھی اپنے دین کی مدد کسی فاجر شخص سے بھی کرا لیتا ہے‘‘( بخاری:3062 /4203 )

دوسری حدیث:(۲)حضرت سھل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لشکر کے ساتھ ( یعنی یہو دخیبر) کا مقابلہ کیا ، دونوں طرف سے لوگوں نے جنگ کی ، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خیمے کی طرف واپس ہوئے اور وہ( یہودی) بھی اپنے خیموں میں واپس چلے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کے متعلق کسی نے ذکر کیا کہ ان( یہودیوں) کا کوئی بھی آدمی اگر انھیں مل جائے تو وہ اس کا پیچھا کرکے اسے قتل کئے بغیر نہیں رہتے ۔ کہا گیا کہ آج فلاں شخص ہماری طرف سے کتنی بہادری اور ہمت سے لڑا ہے شاید اتنی بہادر ی سے کوئی بھی نہیں لڑا ہوگا ،لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق فرمایا کہ: ’’أَمَّااِنَّہُ مِنْ أَھْلِ النَّارِ‘‘ ’’کہ وہ اہل دوزخیوںمیں سے ہے‘‘۔ یہ سن کر ایک صحابی نے کہا کہ: پھر میں ان کے ساتھ ساتھ رہوں گا ۔

بیان کیا کہ : پھر وہ ان کے پیچھے پیچھے ہوئے جہاں وہ ٹہر جاتے یہ بھی دوڑنے لگتے ، اور جہاں وہ دوڑ کر چلتے یہ بھی دوڑنے لگتے ، بیان کیا کہ پھر وہ صاحب انتہائی شدید زخمی ہوگئے اور چاہا کہ جلدی موت آجائے ،اس لئے انہوں نے جلدی اپنی تلوار زمین میں گاڑھ دی اور اس کی نوک سینے کے مقابل کرکے اس پر کود پڑے اور اس طرح خود کشی کر لی ۔ اب دوسرے صحابی( جو ان کی جستجو میں پیچھے لگے ہوئے تھے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ! پوچھا کیا بات ہے؟ ان صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ جن کے متعلق ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھاکہ ’’ وہ اہل جہنم میں سے ہیں تو لوگوں پر آپ کا یہ فرمان بڑا تکلیف دہ گزرا تھا ، میں نے ان سے کہا کہ میں تمہارے لئے ان کے پیچھے پیچھے جاتا ہوں ۔ چنانچہ میں ان کے ساتھ ساتھ رہا ، ایک موقع پر جب وہ شدید زخمی ہوگئے تو اس خواہش میں کہ جلدی موت آجائے اپنی تلوار انہوں نے زمین میں گاڑھ دیا اور اس کی نوک کو اپنے سینہ کے سامنے کرکے اس پر گر پڑے اور اس طرح انہوں نے خود اپنی جان کو ہلاک کر دیا ۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ أَھْلِ الجَنَّۃِ فِیْمَا یَبْدُ ولِلنَّاسِ وَھُوَ مِنْ أَھْلِ النَّارِ، وَاِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ أَھْلِ النَّارِ فِیْمَایَبْدُوْ لِلنَّاسِ وَھُوَمِنْ أَھْلِ النَّارِ: ’’انسان زندگی بھر جنت والوں کے عمل کرتا ہے ،حالانکہ وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا ہے ،اسی طرح دوسرا شخص زندگی بھر اہل دوزخ کے عمل کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے‘‘( بخاری:4202 /4207 )

تیسری حدیث:(۳) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَنْ تَرَدَّی مِنْ جَبَلً فَقَتَلَ نَفْسَہُ فَھُوَ فِیْ نَارِجَہَنَّمَ ، یَتَرَدَّی فِیْہِ خَالِداًمُخَلِّداًفِیْہَاأَبَداً،وَمَنْ تَحَسَّی سُمًّافَقَتَلَ نَفْسَہُ فَسُمُّہُ فِیْ یَدِہِ یَتَحَسَّاہُ فِیْ نَارِجَہَنَّمَ خَالِداً مُخَلَّداً فِیْہَا أَبَداً، وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَہُ بِحَدِیْدَۃٍ فَحَدِیْدَتُہُ فِیْ یَدِھَایَجَأُ بِہَا فِیْ بَطْنِہِ فِیْ نَارِجَہَنَّمَ خَالِداًمُخَلَّداًفِیْہَاأَبَداً’’جس نے پہاڑ سے اپنے آپ کو گراکر خود کشی کرلی وہ جہنم کی آگ میں ہوگا اور اس میں ہمیشہ پڑا رہے گا ،اور جس نے زہر پی کر خود کشی کرلی وہ زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا اور جہنم کی آگ میںوہ اسے اسی طرح ہمیشہ پیتا رہے گا ،اور جس نے لوہے کے کسی ہتھیار سے خودکشی کر لی تو اس کا ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا اور جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لئے وہ اسے اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا‘‘ ( بخاری:5778 )اس ضمن میں اور بھی و واقعات مذکور ہیں جن کا بیان کرنا ضروری ہے ان شاء اللہ آئندہ قسط میں اس کا تذکرہ کیا جائیگا۔
٭٭٭