مذہب

شہادت امام حسین واہل بیت عظام رضی اللہ عنہم

باطل کے خلاف لڑکر حق کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کا نام شہادت ہے اور یہ مقامِ شہادت خدائے تعالیٰ کے مقرب بندوں کو ہی نصیب ہوتا ہے، جسکی آرزو وتمنا انبیاء علیہم السلام ہمیشہ کرتے رہے۔

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ

باطل کے خلاف لڑکر حق کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کا نام شہادت ہے اور یہ مقامِ شہادت خدائے تعالیٰ کے مقرب بندوں کو ہی نصیب ہوتا ہے، جسکی آرزو وتمنا انبیاء علیہم السلام ہمیشہ کرتے رہے۔ نبی و رسول کے بعد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میںصدیق و شہید ہی کا درجہ ہے۔ جب کفر وباطل، ضلالت وگمراہی بد دینی وبد اخلاقی عام ہوجاتی ہے تو رب العالمین اسے ختم کرنے کے لئے مردانِ حق پیدا کرتا ہے۔ وہ جاں نثارانِ حق اپنا سب کچھ راہِ خدا میں لٹا کر پر چم اسلام کو بلند کرتے ہیں۔ تاریخ اسلام میں بہت سی شہادتیں ہوئیں ۔ ہر شہادت اہمیت کی حامل اور اللہ سبحانہ تعالیٰ کی بارگاہ میں محبوب وپسندیدہ ہے لیکن شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ کی شہرت نسبت رسول ؐ کی وجہ سے ہے۔

آپ ؓرسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لاڑلے وچہیتے نواسہ ہیں۔ اس شہادت میں خاندانِ نبوت کے بیسیوں افراد نے اپنی جانیں قربان کیں۔ سن ۶۰ ہجری کے اواخر میں یزید تخت نشین ہوا، اسکی بدعملی، بدکرداری، بداخلاقی عام تھی وہ ایک ظالم ، فاسق وفاجر قسم کا انسان تھا جسکی وجہ سے جلیل القدر صحابہ کرام جیسے حضرت امام حسین، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھم نے اسکی بیعت سے انکار کیااور اس وقت حالات ایسے ہوگئے کہ حضرتِ امام حسین رضی اللہ عنہ سمجھ گئے کہ شہر مدینہ میں رہنے کی وجہ سے میرے چاہنے والوں اور یزیدی لشکرکے درمیان جنگ ہوگی ۔ اور شہر مدینہ کی عظمت پامال ہو جائے گی۔اسی لئے وہ اپنے نانا جان رسولِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر پر حاضر ہوئے اور سلام عرض کیا، روتے ہوئے عرض کرنے لگے یارسول اللہ ! میرا یہاں قیام شہر مدینہ کی حرمت کو پامال کرنے کا سبب بن سکتا ہے اس لئے رخصتی کی اجازت چاہتا ہوں۔

آپؓ اپنے اہل وعیال کے ساتھ مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے ۔ آپ کی روانگی کی اطلاع کوفہ والوں کو ملی تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور یہ طئے پا یا کہ وہ امام حسین رضی اللہ عنہ کو یہاں بلا کر آپؓ کے دست مبارک پر بیعت کرینگے، سب لوگوں نے اس بات پر بڑی خوشی ومسرت کا اظھار کرتے ہوئے آپ ؓ کو دعوت دینے کا عزم کر لیااور کہا کہ آپؓ کو خطوط کے ذریعہ جلد دعوت دی جائے۔ انہوں نے آپؓ کی طرف کثرت سے خطوط لکھے اور عرض کی: آپ جلد سے جلد کوفہ تشریف لائیں تاکہ ہم آپؓ کے دست مبارک پر بیعت کر سکیں، اگر آپ تشریف نہیں لائیں گے تو ہم بارگاہ الٰہی میں عرض کرینگے کہ: اے اللہ! ہم تو کسی حق پرست کے ہاتھ پر بیعت کے لئے تیار تھے، کوئی بھی حق کی خاطر کھڑا ہی نہیں ہوا۔ امام عالی مقام کی غیرت دینی جوش میں آئی اور انہوں نے پکا ارادہ کر لیا کہ کسی بھی حالت میں انہیں کوفہ جانا ہے اور باطل کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے، یہ ایک بہت بڑا جہاد تھا۔ ظالم وباطل بادشاہ کے سامنے کھڑے ہوکر باطل کا مقابلہ کرنا سب سے بہترین جہاد ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

افضل الجھاد من قال کلمۃ حق عند سطانِ جائر (ترمذی، ابوداود) سب سے بہترین جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا ہے۔ اسی طرح دوسری حدیث شریف میں ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من رأی منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ، فان لم یستطع فبلسانہ (مشکوٰۃ) رسول انور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو شخص بھی کوئی برائی دیکھے تو چاہئے کہ وہ اپنی قوت بازو کے ذریعہ (برائی کو نیکی سے)بدل دے اور اگر اسکی طاقت نہیں رکھتا ہے تو زبان سے اسکی مذمت کرے اور اسکی بھی استطاعت نہیں ہے تو کم از کم دل سے اس کو بُرا سمجھے اور یہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ ہے۔ الغرض باطل کو مٹانے کی خاطر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے اہل وعیال کے ہمراہ مکہ معظمہ سے حرم کے تقدس کو پیش نظر رکھتے ہوئے ۸؍ذی الحجہ کو کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے اور سفر طے کرتے ہوئے ۲؍ محرم الحرام ۶۱ھ نینوا کے میدان میں اپنے خانوادے کے ساتھ پہنچ گئے تو اپنے ساتھیوں سے پوچھا یہ کونسا مقام ہے؟ ساتھیوں نے عرض کیا یہ کرب و بلا ہے ۷۲ افراد پر مشتمل یہ مختصر سا نورانی قافلہ کرب وبلا کے میدان میں خیمہ زن ہوا۔ ادھر یزیدی لشکر حربن یزید اور عمر وبن سعد کی قیادت میں ابن زیاد کی جانب سے ان پاک نفوس پر قیامت برپا کرنے کی غرض سے پہنچ گیا۔ سب سے پہلے یزیدی لشکر اور امام عالی مقام کے درمیان گفتگو چلتی رہی، بدبخت ظالم نے مردار دنیا کی لالچ میں اہل بیت عظام سے جنگ کرنے پر ہی اڑے رہے۔

یا پھر انہوں نے کہا کہ یزید کے ہاتھ پر بیعت کرلو تو بچ جائوگے۔ امام حسینؓ جانتے تھے کہ آج باطل کے خلاف اگر کوئی کھڑا نہیں ہوا تو پھر بعد میں آنے والے افراد میں سے کوئی باطل وظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھائیگا۔ آپؓ نے یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انکار کردیا۔سب سے پہلے ظلم کرتے ہوئے یزیدی لشکر نے خانوادئیِ نبوت پر پانی بندکردیا تاکہ اہل بیت نبوت مجبور ہوکر بیعت کے لئے تیار ہو جائیں۔ لیکن وہ امام عالی مقام باطل کے سامنے کیسے جھک سکتے ہیں، جن کی رگوں میں خاتون جنت حضرت فاطمہؓ و حضرت علی ؓشیر خدا کا خون گردش کر رہا ہواور جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت نصیب ہو۔ حضرت امام حسینؓ نے اپنے بھائی حضرت عباس علمبردارؓ کے ساتھ چند لوگوں کو پانی لینے کے لئے روانہ کیا۔ عمر و بن حجاج اپنے ساتھیوں کے ہمراہ انہیں روکنے کی کوشش کی لیکن تھوڑا سا پانی لینے میں وہ کامیاب ہوگئے ۔ (ابن اثیر، طبری) الغرض دس محرم ۶۱ھ بروز جمعہ کرب وبلا کے میدان میں امام حسین ؓ نے فجر کی امامت فرمائی، عمرو بن سعد نے امام عالی مقام و اہل بیت عظام کے خلاف ایک لشکر جرار کھڑا کردیا۔ جنگ کا آغاز ہوگیا، اہل بیت عظام کے علاوہ جو آپؓ کے ساتھ مکہ سے تشریف لائے تھے، آپؓ کی حمایت میں ایک ایک کرکے شہادت کا جام نوش کر گئے۔پھر بنو ہاشم و خاندانِ نبوت میں سب سے پہلے امام حسینؓ کے بڑے صاحب زادے جو اٹھارہ سال کے نوجوان تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسہ یہ رجز پڑھتے ہوئے دشمن پر حملہ کیا:

انا علي بن الحسین بن علي
نحن وبیت اللہ اولی بالنبي

ترجمہ : میں علی بن حسین بن علی ہوں۔ خانہ کعبہ کی قسم ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ (البدایہ والنہایہ) حضرت علی اکبر ؓ نے اپنی شمشیر بے نیام سے یزیدی سپاہیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنا شروع کر دیا، یزیدی لشکر بھیڑیوں کی طرح دُم دبا کر بھاگتا ہوا نظر آنے لگا، یہ ایمانی حرارت تھی۔ آپ ؓکے سامنے کوئی کھڑے ہونے کی ہمت نہیں کر سک رہا تھا ۔ ظالموں نے دور سے تیروں کی بارش شروع کردی۔ جسم پر بیسیوں زخم لگے لیکن ہمت نہیں ٹوٹی۔ دین اسلام کی بقا کے لئے مسلسل ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے۔جسم زخموںسے چور چور ہوگیا، پیاس کی شدت بڑھ گئی اور جسم پر ضعف طاری ہوا تو سواری سے گر گئے۔ آپؓ کی زبان سے میدان کرب و بلا میں ’یا ابتاہ ‘(اے ابا جان)کی آواز گونج اٹھی۔ امام حسین ؓ دوڑتے ہوئے اپنے صاحب زادے کے قریب آئے تو آپؓ نے عرض کیا : اے ابا جان پینے کے لئے کچھ پانی ہے تو عطا فرمائیے تاکہ تازہ دم ہوکر باطل کا پھر مقابلہ کر سکوں۔

لیکن پانی کہاں تھا ؟ ظالموں نے اسے پہلے ہی بند کر دیا تھا۔ امام عالی مقام ؓ نے اپنے صاحب زادے کو سوکھی ہوئی زبان چوسنے کے لئے دیکر کہا : باطل کے خلاف مقابلہ کے لئے پھر ہمت باندھی اور کہا : بیٹا جائو، آخری سانس تک اپنے نانا جان کے دین کی حفاظت کی خاطر لڑتے رہو۔ یزیدی لشکر نے دور سے حملہ کرتے ہوئے آپ کو شہید کردیا۔ إِنَّا لِلّہِ وَإِنَّـا إِلَیْہِ رَاجِعون خاندانِ نبوت کے چشم وچراغ حضرت علی اکبر ، حضرت عبداللہ بن مسلم بن عقیل، حضرت عبداللہ بن جعفر کے دو بیٹے عون و محمد، حضرت عقیل بن ابی طالب کے دو بیٹے عبد الرحمن و جعفراور قاسم بن حسن، حضرت ابو بکر، حضرت عباس، حضرت جعفر، حضرت محمد، حضرت عثمان رضی اللہ عنہم یکے بعد دیگر شہید ہوتے گئے۔حضرت امام حسینؓ کے سب سے چھوٹے صاحب زادے عبداللہ علی اصغرؓ ، آپؓ کی گودی میں تھے ۔ بھوک وپیاس کی شدت کی وجہ سے رو رہے تھے اور امام عالی مقام انہیں پیار کرتے ہوئے تسلی دے رہے تھے۔ اسی اثنا میں یزیدی لشکر کی جانب سے ایک تیر آیا اور نازک حلق میں پیوست ہو گیا۔ (البدایہ والنہایہ )

اہل بیت نبوت کے افراد جب ایک ایک کر کے جامِ شہادت نوش کئے تو آخر میں امام حسین ؓ نے میدانِ کارزار میں آنے کا ارادہ فرمایا۔ تو حضرت امام زین العابدین ؓجو اس وقت بیمار تھے امام حسین ؓ کی بارگاہ میں اجازت طلب کرتے ہوئے عرض کرنے لگے : بابا جان مجھے میدان میں جانے کی اجازت عنایت فرمائیے تاکہ میں باطل سے مقابلہ کر سکوں ۔تو آپؓ نے فرمایابیٹا تم رک جائو۔ تم میری نسل کے اکیلے فرد ہو اور تم ہی سے میری نسل باقی رہے گی۔چنانچہ حضرت امام حسین ؓ امام زین العابدین کو چھوڑ کر خود میدان ِ کرب و بلا میں اترے۔ آپؓ دیر تک یزیدیوں کو واصل جہنم کرتے رہے۔ آپ ؓ نے میدانِ جنگ میں شجاعت وبہادری کے ایسے جوہر دکھائے کہ آپؓ جدھررخ کرتے ادھر یزیدی لشکر ڈر کر میدان سے بھاگتا ہوا نظر آتا۔ دشمنوں کی فوج میں کہرام مچا ہوا تھا، کسی کی سامنے آکر آپؓ سے مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی،بہت دیر تک آپ ؓ مقابلہ کرتے رہے۔

ادھر سپاہِ شام ہے ہزار انتظام ہے
ادھر ہیں دشمنانِ دیں ادھر فقط امام ہے
مگر عجیب شان ہے غضب کی آن بان ہے
کہ جس طرف اٹھی ہے تیغ بس خدا کا نام ہے
یہ بالیقیں حسین ہے نبی کا نور عین ہے

بدبختوں نے ہر سمت سے تیروں کی بوچھار کردی ۔ امام عالی مقام ؓ کا جسم تلوار ، تیر ، نیزوں سے زخمی ہو چکا تھا ۔آپ ؓ اپنی سواری سے گر گئے اور حالت سجدے میں روح پرواز کرگئی۔ظالموں نے آپؓکے جسم اطہر کو گھوڑوں کے ٹاپوں سے پامال کرکے ریزا ریزا کردیا۔ اس طرح خاندانِ رسالت کے چشم و چراغ کر ب و بلا کے میدان میں یکے بعد دیگر جام ِشہادت نوش کئے۔ یہ عظیم قربانیاں باطل کی سر کوبی، حق کی بلندی، اسلام کی آبیاری ،اعلائِ کلیمۃ اللہ، اللہ و رسول کی رضا کی خاطر تھیں۔

قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کرب و بلا کے بعد

یہ وہ شہادت تھی جس میں رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس مشاہدہ کے لئے میدانِ کربلا میں تشریف لائے تھے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے: ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ سے مروی ہے:
دخلت علی ام سلمۃ وھی تبکي فقلت: ما یبکیک؟ قالت: رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی المنام وعلی رأسہ ولحیتہ التراب، فقلت: مالک یا رسول اللہ؟ قال: شہدت قتل الحسین اٰنفا (ترمذی)

حضرت سلمیٰ ؓ کہتی ہیں :میں حضرت ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ وہ رو رہی تھیں میں نے پوچھا : آپ کیوں رو رہی ہیں؟ حضرت ام سلمہ ؓ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ کے سر اور داڑھی مبارک پر گرد وغبار ہے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا بات ہے؟ آپؐ نے فرمایا : میں نے ابھی ابھی حسین ؓ کی شہادت کا منظر دیکھا ہے۔تقریبا ً چودہ سو سال سے آج بھی ہر طرف امام حسین ؓ کے چرچے ہیں اور اہل ایمان کی زبانوں پر ان کا ذکر جمیل جاری ہے۔ یہ قیامت تک جاری وساری رہے گا ۔ اب دنیا میں باطل ’یزیدیوں‘ کا نام لینے والابھی باقی نہ رہا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اہل بیت سے محبت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلینؐ۔
٭٭٭

a3w
a3w