زکریا سلطان
سب سے پہلے ڈاکٹر سیدعباس متقی صاحب کا شکریہ ادا کرنا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ آپ نے میرے گزشتہ مضمون ”چلتا پھرتا پٹرول پمپ“ کو پسند کیا اور اس پر اپنے مزاج کے مطابق بڑی زندہ دلی سے تبصرہ کرکے مجھ ناچیز کی حوصلہ افزائی فرمائی، ڈاکٹر صاحب کے علاوہ اور بھی چندحضرات نے اُس مضمون کو پسند کیاہے، میں ان تمام احباب کا شکرگزار ہوں۔
آج کا عنوان پڑھ کر کئی لوگوں کے منہ میں یقینا پانی آرہا ہوگا بلکہ بعض کی رال بھی ٹپک رہی ہوگی اور وہ خیالات کی دنیا میں گھوڑے دوڑا کرخوش ہورہے ہوں گے، کوئی اپنے بچوں کی شادی کے بارے میں سوچ رہا ہوگا تو کوئی خود اپنے ہی بارے میں خوبصورت خواب سجا رہا ہوگا۔پھولوں سے سجا اسٹیج،گلاب کے ہار، قاضی صاحب کا نورانی چہرہ، مصری بادام کی پوٹلی اور بہت کچھ تصور میں آرہا ہوگا، ہے نا!!! میرے ذہن میں آج کئی موضوعات گھنے بادلوں کی طرح امنڈ امنڈ کر آرہے ہیں، میں ان سب کو سمیٹ کر رم جھم بارش کے قطروں سے مضمون کو تر و تازہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ گزشتہ مضمون کی اشاعت کے بعد مجھے کچھ تشنگی سی محسوس ہوئی اور خیال آیا کہ شاید اس میں مزید چند باتوں کا اضافہ ہونا چاہیے تھا، ان باتوں کاآج میں احاطہ کرنا چاہوں گا۔ محترم ڈاکٹر عباس متقی صاحب نے چلتے پھرتے پٹرول پمپ سے جومعنی اخذ کیے تھے اور ان کی جو مراد تھی وہ بھی دبئی میں بکثرت موجود ہے، قدم قدم پر ایسے ایسے نظارے ہوتے ہیں کہ اللہ کی پناہ! صحیح بات تو یہ ہے کہ ہر متقی کو یہاں گھر سے باہر نکلنے میں خطرہ محسوس ہوتا ہے اور آنکھوں کے گناہ کا ڈر لگا رہتا ہے، شاید اسی لیے کسی نے مفتی صاحب سے احتیاطاً یہ پوچھ لیا تھا کہ پہلی نظر تو معاف ہے مگر یہ بتائیے قبلہ کہ پہلی نظر کی مدت کا تعین کیا ہے اور ااس کا وقت کتنا مقرر ہے؟ یہاں دنیا کے کئی ممالک سے تعلق رکھنے والی ایسی ایسی روشن خیال حسیناؤں کا دیدار ہوتا ہے جو لباس کے معاملہ میں بہت ہی بخیل اور جسم کی نمائش میں بڑی فراخدل ہیں، بڑے بڑے شاپنگ مال، عوامی مقامات، ساحلِ سمندر اور دیگر تفریح گاہوں میں یہ حسینائیں اپنے جلوے بکھیرتی رہتی ہیں،ان کے چست اور مختصرقیمتی لباس فیشن کی دنیا میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، ایسے ایسے خطرناک مسابقتی مناظر ہوتے ہیں کہ ہم جیسے لوگوں کو آنکھ پر پٹی باندھ کر گھر سے نکلنے کی نوبت آتی ہے، اس لیے ان سب جھنجھٹوں سے چھٹکارا پانے کے لیے ہم گھر سے کم ہی نکلتے ہیں۔ گھر اور مسجد کے دوران ہی اکثر ہماری دوڑ ہوتی ہے مگر جب کبھی بیگم کا حکم ہوتا ہے تو بہ حالت مجبوری سوپر مارکٹ کا چکر تو لگانا ہی پڑتا ہے کہ پاپی پیٹ کا سوال ہوتاہے۔
مگرحسیناؤں کی کثرت اور آزادی سے کھلے عام گھومنے پھرنے کے باوجود کسی کی مجال نہیں کہ کوئی کسی خاتون کو چھیڑے یا کسی قسم کا فقرہ کس دے، ہم نے رات کافی دیر گئے بھی خواتین کو بغیر کسی خوف کے آزادی سے تنہا چلتے پھرتے اور چہل قدمی کرتے دیکھا ہے، نہ چوری کا ڈر ہوتا ہے نہ چین چھینی جاتی ہے، بس چین ہی چین ہوتا ہے(یہ اور بات ہے کہ دوسرے بے چین ہوجاتے ہیں) یہ ہے دبئی کا قانون جس سے سب ہی مامون ہیں، اس میں نہ کسی مذہب کا عمل دخل ہے نہ فرقہ اور ذات پات کا،قانون سب کے لیے یکساں ہے، یہاں ہندو مسلم سکھ عیسائی بلکہ یہودی بھی سکون کی پرامن زندگی گزار رہے ہیں بلکہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم یہاں مزے میں ہیں، ان کی بڑے پیمانہ پر شاندار تجارت، ملازمتیں اور سب کچھ ہے۔ یہاں گاڑی خریدنے سے زیادہ ڈرائیونگ لائسنس بنوانا دشوار ہے، اس کے لیے بہت نزاکتیں باریکیاں اور اصول و ضوابط ہیں چنانچہ اکثر خواتین و حضرات کو لائسنس کے حصول میں بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور اس کی فیس بھی کافی تگڑی ہے، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دبئی کے لائسنس کی قیمت میں کئی تولے سونا آسکتا ہے۔ ڈرائیونگ کے وسیع تجربہ کے باوجود ہمیں بھی ٹیسٹ میں ”لُڑھکادیا گیاتھا“پھر دوسری مرتبہ کامیابی ملی الحمدللہ۔ بُرج خلیفہ جیسی یہاں کی بلند و بالا شاندار عمارتیں، گولڈ مارکیٹ اور شاپنگ مول بہت مشہور اور دیکھنے کے لائق ہیں، سونے کی ہر دکان پر تازہ ترین نرخ لمحہ بہ لمحہ الیکٹرانک بورڈ پر اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے، اس میں ہیرا پھیری اور دھوکہ نہیں ہوتا،کہتے ہیں نا کہ سونے کو گھس کے دیکھو مگر یہاں سونا گھس کر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ دھوکہ بازی کرنے والوں کو ہی گھس دیا جاتا ہے، ہمارے ہاں کی طرح سونے کے زیورات کی خرید و فروخت میں چھچورے پن کا مظاہرہ اور گاہکوں کی مجبوری کا استحصال بھی نہیں ہوتا، کافی شفافیت ہے۔
حیدرآباد میں شادی بیاہ کا موضوع آج کل زیر بحث ہے، بسا اوقات اس پر بیانات، تبصرے اور مضامین دیکھنے کو مل رہے ہیں، اس ضمن میں ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ شادی سادی ہو، اس میں ڈُبُک ڈُبُک(بینڈ باجہ) اور آتش بازی نہ ہو۔ نا جائز مطالبات اور غیر واجبی شرائط سے اجتناب کیا جائے۔لڑکے لڑکی کے انتخاب میں اگر تھوڑی سی لچک پیدا کرکے حالات سے سمجھوتہ کرلیا جائے تو رشتے آسانی سے طئے ہوسکتے ہیں۔
بچوں کی شادی مسلم معاشرہ کا ایک اہم مسئلہ ہے جس پرلوگ وقتاً فوقتاً توجہ دلا تے اور تحریک چلاتے رہتے ہیں، نصیحت کرتے اور تجاویز پیش کرتے ہیں کہ خدارا شادیوں میں اسراف مت کیجئے، نکاح کو آسان بنائیے، تقاریب سادگی سے منائیے، مگر اس کا زیادہ اثردیکھنے میں نہیں آرہا ہے! آج ہزاروں لڑکیاں شادی کے انتظار میں بیٹھی برف کی مانند گھل رہی ہیں، ماں باپ فکر مند اور پریشا ن ہیں۔رشتوں کے طئے نہ ہونے کی وجہ سے جہیز اور لین دین کے علاوہ لڑکی اور لڑکے کو پسند کرنے میں ناز نخرے اور نا جائزمطالبات، غیر واجبی شرائط وغیرہ بھی دخیل ہیں جن میں اگر تھوڑی سی لچک پیدا کرکے حالات سے سمجھوتہ کرلیا جائے تو رشتے آسانی سے طئے ہوسکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ایک ویڈیو میں اسی بات کاذکر و اعتراف کرتے ہوئے ایک پردہ نشین لڑکی نے پچھتاوا ظاہر کیا ہے کہ اس کی عمر ایسی ہی کچھ نا واجبی شرائط کی وجہ سے ڈھل گئی ہے اور بر وقت شادی نہ ہوسکی۔ ایک اور نوجوان کا رشتہ محض اس وجہ سے مسترد کردیا گیا کہ وہ داڑھی رکھتا ہے، کیا یہ کوئی معقول وجہ ہے؟ کوئی کلین شیو لڑکا شادی کے بعداگر داڑھی رکھ لے تو کیا ہوگا؟ کیا سالے اورخسرصاحب پکڑ کر حجام کے پاس لے جاکرداڑھی منڈوادیں گے؟ عموماً لوگوں کی نظر لڑکے کے مضبوط مالی موقف اور تگڑی تنخواہ پر ہوتی ہے لیکن آمدنی کے ذرائع کو وہ اہمیت نہیں دیتے کہ آیا وہ جائز ہے یا لوٹ مارکی حرام کمائی ہے۔ انہیں تو صرف لڑکے والوں کے ” اعلیٰ سوشل اسٹیٹس” سے غرض ہوتی ہے کہ پارٹی مالدار کھاتی پیتی اور چکنی ہو۔اب لڑکی اور لڑکے کے انتخاب میں سیرت و کردار اور فیملی بیک گراؤنڈبھی تقریباً نظر انداز کردیا گیا ہے۔ اہمیت صرف ظاہری شان و شوکت کو دی جارہی ہے، گھوڑے گدھے سب برابرہوگئے ہیں۔تعلیم تو ہورہی ہے، مگرافسوس کہ صحیح تربیت نہ ہونے اور اسلامی خطوط پر ذہن سازی نہ کرنے کی وجہ سے مسلم لڑکیاں غیر قوم کے لڑکوں کے ساتھ فرار ہوکر شادیا ں رچا رہی ہیں، مرتد ہوکر حرام کاری کر رہی ہیں۔مسلمانوں میں جھوٹ بول کر اور دھوکہ دے کر شادی کرنے کے واقعات بھی سُننے میں آرہے ہیں، لہٰذا رشتہ طئے کرنے سے پہلے اچھی طرح ٹھوک بجاکر دیکھ لیجئے۔ اخبار اٹھا کر دیکھئے عقد اولیٰ اور عقد ثانی کے اشتہارات کی بھرمار ہے۔غیر دانشمندی،صبر و تحمل کے فقدان اور عدم برداشت کی وجہ سے کئی شادیاں ٹوٹ رہی ہیں۔حیدرآباد میں طلاق کی شرح تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟ ذمہ دار کون ہے؟ کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے؟ بداخلاقی، بے حیائی، نا جائز تعلقات،زنا، شراب نوشی اور قتل کی وارداتیں تک ہورہی ہیں اورہم اس مسئلہ میں الجھے ہوئے ہیں کہ شادی میں کھانا رکھیں یا چائے اور عثمانیہ بسکٹ۔عزیزان گرامی! یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے۔مسئلہ تو لڑکی والوں سے گھوڑے جوڑے کی رقم، جہیز،طعام اور شادی خانہ کا مطالبہ کرنا ہے جو ناجائز، حرام اور بے شرمی ہے، یہ رواج ختم ہونا چاہیے! والدین اولاد کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی اچھی تربیت بھی کریں، انہیں اچھے اخلاق و آداب، صبر و تحمل، معاملہ فہمی، تمیز تہذیب اور سلیقہ سکھایا جائے۔ لڑکیوں کو امور خانہ داری میں ماہر اور لڑکوں کو محنتی اور خودداربنایا جائے، ان کے دلوں میں اللہ کی محبت اور اس کا ڈر پیداہو تاکہ شادی کامیاب رہے اور زندگی خیر سے گزرے۔انٹرنیٹ موبائیل اور واٹس ایپ جیسی تباہ کن سہولتوں نے ماحول کو بگاڑ دیا ہے، ان چیزوں کے استعمال میں معقولیت و اعتدال ہونا چاہیے۔شدت پسندی اورحد سے تجاوز کسی بھی معاملہ میں جائز نہیں۔ اگر کوئی والدین بغیر کسی دباؤ کے اپنی مرضی اور خوشی سے مہمانوں کے لیے حسبِ استطاعت شادی میں کھانے کا انتظام کرنا چاہیں تو ان کی مرضی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں مرحبا کہہ کر ان کی اس خواہش کوقبول کرلینا چاہیے، بس اس بات کا خیال رہے کہ نمود و نمائش، اسراف اور مسابقت نہ ہو۔دین میں اعتدال کی راہ کو پسند کیا گیا ہے اورزور زبردستی سے منع فرمایا گیا ہے۔اکثر دیکھا جاتا ہے کہ تقاریب میں چن چن کر مالدار اور نام نہاد بڑے لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے اور غریبوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے حالانکہ وہ بڑے نہیں دہی بڑے ہوتے ہیں، یہ طریقہ بالکل نامناسب اور ناپسندیدہ ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کھاؤ پیؤ اور اسراف مت کرو۔ غریب رشتہ داروں کا خیال رکھنا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا ذریعہ ہے۔ جائز آمدنی سے بغیر کسی غرض کے کھلانے پلانے اور تحفے تحائف دینے سے دلوں میں محبت و الفت پیدا ہوتی ہے، یہ عمل مشروع اور پسندیدہ ہے جو خیر و برکت کا باعث بنتا ہے۔
بے شرم رنگ اور "پٹھان "کے بھی آج کل بہت چرچے ہیں، ایسا لگ رہا ہے کہ ہندوستان کا سب سے اہم مسئلہ اس وقت یہی ہے۔ ایک طرف برہنگی،بے حیائی اور بیہودگی ہے تو دوسری جانب عصبیت، نفرت، تشدد پسندی اورجھگڑالو نظریہ ہے، دونوں ہی مذموم و مکروہ اور بے شرم ہیں،نادان مسلمان پٹھان کی تائید و حمایت میں ایسے کھڑے ہیں جیسے کہ شاہ رخ خان یافلم انڈسٹری کے دیگر خان صاحبان اسلام کے علمبردارا ور مسلمانوں کے آئیڈیل ہیں، حقیقت یہ ہے کہ عملی طورپر اسلام اور اسلامی احکام و تعلیمات سے ان کا کوئی لینا دینا اوردور کابھی واسطہ نہیں ہے۔ یہی حضرات تو ہیں جو مسلم ملت کی نوجوان نسل کو گمراہ کرکے راہ راست سے بھٹکاتے ہوئے تباہ کررہے ہیں۔ نوجوان لڑکے، لڑکیاں ان کے پیچھے بیوقوفوں کی طرح ہائے اللہ شاہ رُخ ہائے اللہ سلمان کہہ کردیوانہ وار دوڑ رہے ہیں۔مسلمانو! عقل سے کام لو!!!