ڈاکٹر سلیم خان
اتراکھنڈ کے ہلدوانی کی غفور بستی سے دل دہلانے والی خبروں کے درمیان اسی صوبے کے جوشی مٹھ سے دل شکستہ کرنے والی خبر آگئی ۔ ہلدوانی کے لوگ تو خیر اپنی گہار لگانے کی خاطر عدالت عظمیٰ پہنچ گئے لیکن جوشی مٹھ والوں کی مدد تو کوئی عدالت نہیں کرسکتی ۔ ہلدوانی کے معاملے میں پراسرا خاموشی اختیار کرنے والے ریاستی وزیر اعلیٰ نے جوشی مٹھ جانے اعلان تو کردیا مگر وہ بھی وہاں جاکر نقل مکانی کرنےپر مجبور پانچ ہزار لوگوں کی باز آباد کاری کا اعلان کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے ۔ وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کا راج دھرم تو یہ ہے کہ وہ غفور بستی اور جوشی مٹھ کے بیچ تفریق و امتیاز نہ کر یں کیونکہ وہ پورے صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں اس لیے سب کے ساتھ ان کا سلوک یکساں ہونا چاہیے ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ذریعہ جی ٹوینٹی کی سرباہی کے بعد ’ون ارتھ ون فیملی ون فیوچر‘ یعنی ایک زمین ایک خاندان اور ایک مستقبل کا نعرہ ملک بھر میں لگایا جارہا ہے لیکن نہ تو یہ لوگ غفور بستی اور جوشی مٹھ کو ایک زمین کا حصہ اور ایک خاندان کے افراد سمجھتے ہیں اور نہ دونوں کے مستقبل کی بابت یکساں طور پر فکر مند ہیں ۔ کتھنی اور کرنی کا فرق یہی ہے۔
عدالتِ عظمیٰ نے بجا طور پر اتراکھنڈ کی غفور بستی کے مکانات کو منہدم کرنے کے فیصلے پر حکم امتناع (سٹے آرڈر) جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور سات دن کے اندر پچاس ہزار لوگوں کو بے گھر نہیں کیا جا سکتا۔عدلیہ نے اپنی ذمہ داری غافل ریاستی حکومت اور رعونت کا شکار محکمہ ریلوے کو حکم دیا ہے کہ وہ اس مسئلے کا کوئی عملی حل تلاش کریں۔ اس ظلم عظیم میں اتراکھنڈ کی ہائی کورٹ کا سب سے بڑا حصہ ہے جس نے 20 دسمبر کو غفور بستی کے تقر یباً 4400 مکانوں کو منہدم کرکے زمین خالی کرنے کا حکم دیا تھا۔ ریلوے کے محکمے کا دعویٰ ہے کہ ہزاروں لوگوں نے اس کی زمین پر ناجائز تعمیرات کر لی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ کوئی نجی ملکیت ہے؟ کیا ریلوے نے زمین خریدی تھی؟ جس حکومت نے اسے یہ زمین دی تھی وہ واپس کیوں نہیں لے سکتی؟ ریلوے کی ہندوستان بھر میں لاکھوں ایکڑ زمین ہے۔ اس پر کئی ریلوے کوراٹر ، دفاتر ، اسکول اور میدان ہیں۔ اس کی ساری زمین پر ریلوے کی پٹری اور اسٹیشن نہیں ہے۔ اس لیے ریلوے کا محکمہ سرکار سے کوئی متبادل زمین کیوں نہیں لے سکتا؟
دہلی میں حکومت سو سے زیادہ بستیوں کو ریگولرائز کرچکی ہے تو غفور بستی کے ساتھ یہ کیوں نہیں ہوسکتا جبکہ ایک طویل عرصے سے وہاں وہ لوگ آباد ہیں ۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ سپریم کورٹ نے انہدام کی کارروائی پر حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے سبھی فریقوں کو ملکیت سے متعلق ضروری دستاویزات جمع کرنے کا حکم دیا ہے اور آئندہ سماعت کے لیے سات فروری کی تاریخ مقرر کردی ۔ اس فیصلے سے بستی کے لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہےاور انہیں یہ یقین ہوگیا کہ سپریم کورٹ میں ان کے ساتھ انصاف ہو گا۔ متاثرہ بستی میں ہائی کورٹ کے ناعاقبت اندیش انہدام کے حکم سے افراتفری مچی ہو ئی تھی۔ریلوے حکام کے گھمنڈ کا یہ عالم تھا کہ اس نے اخبارات میں اشتہار دے کر بستی کے مکینوں کو ایک ہفتے کے اندر اپنے مکان خالی کرکے از خود مکانات کو منہدم کرنے کا فرمان جاری کیا تھا مقامی انتظامیہ کے ذریعہ گرانےپر اس کے اخراجات بھی مکینوں سے وصول کرنے کی دھمکی دی گئی تھی ۔ دنیا کے ظالم حکمرانوں پہلے بھی بستیوں کا اجاڑہ مگر ایسی سفاکی مظاہرہ انسانی تاریخ میں شاید ہی کبھی ہوا ہوگا۔
سپریم کورٹ کے اس سے فیصلے سےہلدوانی کے متاثرین نے راحت کی سانس لی ہے لیکن اپنی چھت کے حوالے سے ہنوز وہ بے یقینی کا شکار ہیں۔ اس بیچ اتراکھنڈ کے جوشی مٹھ میں سینکڑوں گھروں کے اندر دراڑیں پڑنے کا سانحہ سامنے آگیا اور وہاں کے لوگوں میں خوف پسر گیا ۔ گڑھوال کے ڈویژنل کمشنر سشیل کمار کے مطابق نیچے سے پانی آنے کے سبب بعض علاقوں میں یہ دراڑیں پڑی ہیں ۔ گھروں اور سڑکوں پر پڑنے والی دراڑوں کے نقصان کا اندازہ لگایا جا رہا ہےاور متاثرہ افراد کو نائٹ شیلٹرز ( رین بسیرا) میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ لینڈ سلائیڈنگ سے تباہ ہونے والے ہوٹلوں میں سیاحوں کے ٹھہرنے پر پابندی عائد کر کے صورتحال پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ مقامی حالات کا معائنہ کرنے کے بعد ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ جوشی مٹھ کے باشندوں کے ساتھ ہمدردانہ رویہ قابلِ قدر ہے لیکن ہلدوانی کے لوگ بھی اسی خیر خواہی کے مستحق ہیں ۔
جوشی مٹھ میں زمین کھسکنے کے واقعات نئے نہیں ہیں لیکن اس کا دائرہ بتدریج وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔اس کی وجہ سے پورے شہر میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ ضلعی انتظامیہ 47 خاندانوں کو محفوظ مقام پر پہنچ چکا ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق وہاں سے اب تک 66 خاندان نقل مکانی کر چکے ہیں۔جوشی مٹھ میں جب زمین کے کھسکنے ( لینڈ سلائیڈنگ ) کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے توسرکاری افسران دورہ کرکے زبانی جمع خرچ سے آگے بات نہیں بڑھاتے۔ ابھی حال میں گڑھوال کےکمشنر سشیل کمار اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ سکریٹری رنجیت کمار سنہا سمیت ماہرین کی ایک ٹیم نے متاثرہ علاقوں کا سروے کیا۔ اس جائزے کے بعد انتظامیہ نے بتایا کہ اب تک کل 561 عمارتوں میں دراڑیں دیکھی گئی ہیں۔ سرکار نے جن 38 خاندانوں کو منتقل کیا ان کی رہائش کے لیے 70 کمرے، 7 ہال اور ایک آڈیٹوریم کا اہتمام کیا گیا ہے۔
اس تباہ کاری میں ویسے تو براہ راست کسی عدالتی یا سرکاری حکمنامہ کا دخل نہیں ہے اس کے باوجود لینڈ سلائیڈنگ کا شکار مقامی لوگ مشعل بردار جلوس نکال کر احتجاج کررہے ہیں ۔ وہ لوگ این ٹی پی سی ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ کو اس تباہی کےلیے ذمہ دار مانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے جلوس میں انہوں نے جوشی مٹھ میں ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ کا کام جلد سے جلد بند کرنے کا مطالبہ کیا اور اس کے خلاف نعرے لگائے ۔ اس بد قسمت بستی کے لوگ سڑک پر اتر آج جس تباہ کاری کے خلاف احتجاج کررہے ہیں اس انجامِ بد سے ماہرین ماحولیات پہلے ہی خبر دار کرچکے ہیں لیکن جاہل سرکاروں نے کبھی بھی ان کی جانب توجہ دینے کی زحمت نہیں کی۔ یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ ملک میں ماہرین ماحولیات کو ترقی کا دشمن سمجھا جاتا ہے۔ ان کی مخالفت کرکے نجی کمپنیاں خوب منافع کماتی ہیں۔ سرکاری افسران اور سیاستدانوں کے ساتھ ملی بھگت کرکے ٹھیکیدار مالا مال ہوجاتے ہیں لیکن غریب عوام اس کی بھاری قیمت ادا کرتے ہیں ۔
اتراکھنڈ کے کئی قصبے باندھوں اور سرنگوں کے سبب ڈوب چکے ہیں ۔ اس طرح کی تباہی سے مدھیہ پردیش اور گجرات کے قبائلی بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ان کے حقوق کی خاطر آواز اٹھانے والی میدھا پاٹکر کو قوم دشمن قرار دیا جاچکا ہے۔ اندھی ترقی کے نشے میں دھُت انجینیریوں نے جوشی مٹھ کے پہاڑ تلے تپوون باندھ کی جانب والی سرنگ نکال دی اور اس کا نام تپوون سرنگ رکھ دیا ۔ اسی سبب سے نہ صرف مکان دھنس رہے ہیں بلکہ دیواروں میں دراڑین پڑ رہی ہیں اور بیچ سڑک میں بڑے بڑے گڈھے بن گئے ہیں۔ ان دراڑوں سے زمین کے اندر کا ملبہ اوپر آرہا ہے۔ تپوون سرنگ کی کھدائی کا مقصد ہیلنگ وادی کے پانی کو الکنندہ ندی میں پہنچانا تھا لیکن گزشتہ سال جب رشی گنگا ندی میں سیلاب آیا تو بڑی مقدار میں ملبہ اس سرنگ میں گھس گیا۔ اس کے سبب الکنندہ ندی میں یہ سرنگ جہاں ملتی ہے وہاں اس کا دہانہ بند ہوگیا۔اب حالت یہ ہے ملبہ وہاں سے نکل نہیں پارہا ہے۔ سائنسدانوں کا خیال یہ ہے کہ سرنگ کے اندر بننے والی گیس وہ ملبے کو اوپر اچھال رہی ہےاور اس کے پھوٹ کر باہر نکلنے سے جوشی مٹھ میں دراڑ پڑ جاتی ہے۔
انتظامیہ کے افسران دورہ کرے خانہ پری کرتے ہیں لیکن مسئلہ کا مستقل حل نہیں نکالا جاتا۔ زیادہ سے متاثری کو اِدھر اُدھر بسانے کی کو شش ہوتی ہے۔ اس لیے لوگ اپنے آبائی گھروں کو چھوڑ کرائے کے مکانوں میں گزر بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ عوام جب پریشان ہوتے ہیں تو جوشی مٹھ بچانے کی خاطر ایک آدھ احتجاج کردیا جاتا ہے جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ ماہرین کی رائے ہے اگر جلد ہی کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا تو یہ تاریخی شہر نیست و نابود ہوجائے گا۔ اس تباہی کی ماہرین ایک فطری وجہ یہ بتاتے ہیں کہ یہ شہر مورین یعنی گلیشیئر کے اوپر بسا ہوا ہے۔ یعنی کسی گلیشیئر کی برف جب پگھل جاتی ہے تو اس پر لاکھوں ٹن مٹی اور چٹانیں آجاتی ہیں اوروہ ایک کا پہاڑ بن جاتاہے۔ ظاہر ہے آگے چل کر اسے بھی کھسکنا ہی ہے لیکن انسانی پروجکٹس اس مدت کو کم کررہے ہیں۔ ہندو عقیدے کے مطابق جوشی مٹھ ایک مقدس شہر ہے۔ ان کے خیال میں سردی کے موسم بدری ناتھ یہاں آکر بس جاتے ہیں۔ اپنے سارے تقدس کے باوجود بغیر کسی بلڈوزر اور عدالتی فیصلے کے یہ شہر اپنی موت کی جانب رواں دواں ہے۔ ہلدوانی کی غفور بستی کو مٹانے کا خواب دیکھنے والوں کو جوشی مٹھ سے عبرت پکڑنا چاہیے کیونکہ جو اس کے ساتھ ہورہا ہے وہ کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰