مشرق وسطیٰ

فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کاقانونی حق حاصل: ریاض منصور

فلسطین کو اقوام متحدہ میں مکمل ریاست کی حیثیت سے رکنیتی موقف کی منظوری سے ہی دو ریاستی حل کا تحفظ ہوسکتاہے اور اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن کارروائی کو دوبارہ تقویت پہنچ سکتی ہے۔

نیویارک سٹی: فلسطین کو اقوام متحدہ میں مکمل ریاست کی حیثیت سے رکنیتی موقف کی منظوری سے ہی دو ریاستی حل کا تحفظ ہوسکتاہے اور اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن کارروائی کو دوبارہ تقویت پہنچ سکتی ہے۔

اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر ریاض منصور نے یہ بات بتائی۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان کے ساتھ اس سال صلاح و مشورہ کا آغاز کیا تاکہ فلسطین کو موجودہ موقف سے ترقی دیتے ہوئے ایک مبصر ریاست میں عالمی تنظیم میں تبدیل کیاجائے اور ساتھ ہی ساتھ رکن کامل کی حیثیت سے اسے تسلیم کیاجائے۔

اقوام متحدہ کے نیویارک کے ہیڈ کوارٹرمیں عرب نیوز کو خصوصی انٹرویو میں منصور نے بتایا کہ ان کی مساعی فلسطین کے قدرتی اور قانونی حق میں پیوست ہے تاکہ وہ اقوام متحدہ کے نظام میں مکمل رکن بن سکیں۔انہوں نے بتایا کہ ریاست کے لیے جستجو اور بھی زیادہ عجلت طلب بن گئی ہے جبکہ اسرائیل‘اس بات کی یکطرفہ کوشش کررہاہے کہ مناسب حل کے امکان کو دھکا پہنچایا جائے جس کے ذریعہ ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم ہوسکتی ہے۔

منصور نے بتایا کہ انہوں نے قبل ازیں سیکوریٹی کونسل کے ارکان سے مناسب تائید حاصل کی جس میں آئیر لینڈ‘البانیہ اور ناروے کے ووٹس بھی شامل ہیں تاکہ یہ سفارش حاصل کی جائے کہ فلسطین کو جنرل اسمبلی میں مکمل ریاست کی رکنیت دی جائے۔

جنرل اسمبلی کے صدر کے ایک ترجمان کولینا نے بتایا کہ اقوام متحدہ کی منصور کی دفعہ 4میں بتایاگیا ہے کہ رکنیت کا معاملہ جنرل اسمبلی کے فیصلہ پر ہے جو سیکیوریٹی کونسل کی سفارش پر منحصر ہے۔ جنرل اسمبلی سیکیوریٹی کونسل کی سفارش کے بغیر رکنیت کا فیصلہ نہیں کرسکتی ہے اگرچیکہ فلسطین کو مکمل رکن کی حیثیت سے موقف کی منظوری موجودہ امریکی انتظامیہ کے ان عملی اقدامات کے مطابق ہوگی تاکہ دو مملکتی حل کی تکمیل کی جاسکے۔

منصور نے واشنگٹن میں بتایا کہ اسے اس منصوبہ کے بارے میں کسی قسم کا جوش و خروش نہیں ہے۔ اس نے بتایا کہ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر تھامس گرین فیلڈ کو ایک سے زائد میٹنگ میں بتایاگیا کہ وہ اگر وہ ان کے منصوبہ کو پسند نہیں کرتے ہیں تو متبادل پیش کریں۔ ایک ایسا عملی منصوبہ جس سے دو مملکتی حل کا تحفظ کیاجاسکے۔

لیکن اگر آپ مجھ سے یہ کہیں کہ آپ کو میرا منصوبہ پسند نہیں تو پھر آپ ایک متبادل حل پیش نہیں کررہے ہیں اور یہ بات ناقابل قبول ہے۔ منصور باور کرتے ہیں کہ واشنگٹن نے جو خاموشی اختیار کی ہے اس کا تعلق مذاکرات کے ذریعہ دو مملکتی حل سے ہے۔ منصور نے بتایا کہ اس معاملہ کی فلسطینی بدستور تائید کرتے رہیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ بین الاقوامی قانون اور عالمی اتفاق رائے کی بنیاد پر فلسطینیوں کو اسرائیل کے بشمول دیگر کسی کے ساتھ اعتراض نہیں ہے جس میں عرب امن مساعی بھی شامل ہے۔

تاہم اس کے لیے اسرائیل کو رضا مند ہوناہوگا۔ عرب امن مساعی‘عرب۔ اسرائیل جنگ کے خاتمہ کے لیے سعودی کی پیش کردہ تجویز پر مبنی ہے اسے ابتداء میں 2002 میں عرب لیگ نے منظوری دی تھی اس میں عرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لاناہے اور مکمل طور پر اس کے بدلے میں مقبوضہ علاقوں کااسرائیل کو تخلیہ کرناہوگا۔

انہوں نے اسے فلسطینی مسئلہ کاایک منصفانہ حل قرار دیا اور ساتھ ہی ساتھ دارالحکومت کی حیثیت سے مشرقی یروشلم میں فلسطینی ریاست کے قیام کا موجب قرار دیا۔ منصور نے اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کی تائید میں عرب ممالک کے متحد رہنے اور اس کی تائید میں رائے دہی میں ناکامی کا مظاہرہ نہ کرنے پر اظہار تشکر کیا ہے۔