طنز و مزاحمضامین

’’ لائٹ لیو یارو‘‘

حمید عادل

جہاں پنجابی زبان میں لطیفے کچھ زیادہ ہی مزہ دیتے ہیں وہیں دکنی زبان گفتگو میں جان ڈال دیتی ہے۔ مثال کے طورپرپانی پوری کو گپ چپ یا محض ’’گچپ‘‘ کہنا،لاری کو ’’رالی‘‘ اور سگریٹ کو ’’سرگیٹ ‘‘کہنے کا مزہ بھلاکسی اور زبان میں کہاں؟
ہمارے ہاں ایک تین لفظی جملہ ’’ لائٹ لیو یارو‘‘ بھی خوب چل پڑا ہے ،اور ہم لائٹ لیو یارو پر لائٹ ڈالنے ہمارا مطلب ہے کہ روشنی ڈالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ LIGHT کے لفظی معنی روشنی کے علاوہ ’’ ہلکا‘‘ اور ’’ ہلکا کرنا‘‘ کے ہیں لیکن ہم اس انگریزی لفظ ’’ لائٹ ‘‘کو جس کثرت سے استعمال کرتے ہیں اتنا تو انگریز بھی نہیں کرتے ہوں گے۔ وہ تودکھ درد کے موقع پرایک دوسرے کو ’’ ٹیک اٹ ایزی‘‘ کا درس دیتے ہیں جبکہ مشکوک حیدرآبادی نہ صرف لائٹ لیتے اور کہتے ہیں بلکہ جب کبھی انہیں کہیں کوئی موقع ہاتھ آ جائے تو ’’ لائٹ‘‘ بھی مارتے ہیں۔ واضح رہے کہ ماضی میں ’’لائٹ مارنے‘‘والا دو لفظی جملہ دو دھاری تلوار کے طور پر استعمال ہوا کرتا تھا۔اگر کوئی آنکھوں کو بھلا معلوم ہوتاتو کہا جاتا ’’ کیا بات ہے ، آج بہوت لائٹ مار رے‘‘ اور اگر کوئی آنکھیں سینک رہا ہوتو بھی کہا جاتا’’ کیاادھر ادھر لائٹ مارتے پھر رے تم ؟‘‘ آج کل ان جملوں یا نعروں کااستعمال کافی کم بلکہ نہ کے برابر ہوگیا ہے،شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ فیشن پرست لڑکیاں نیم عریاں لباس میں کچھ اس طرح لائٹ مارتی پھر رہی ہیں کہ سڑک چھاپ فرہاد ’’ لائٹ ‘‘ مارنا تو کجا لائٹ مارنے والا جملہ تک بھول چکے ہیں…
خوشی کے رخصت ہونے کا نام غم ہے، جتنی بڑی خوشی ہوگی، اتنا بڑا غم دے جائے گی جبکہ غم کی کئی قسمیں ہیں لیکن ہمہ اقسام کے درد و کرب اور دکھوں کے لیے ’’ لائٹ لیو یارو‘‘ کا کرشماتی جملہ نہایت مجرب نسخہ ثابت ہوتا ہے ،لہٰذا اسے مختلف موقعوں پر مختلف نقطہ نظر سے استعمال کیا جاتا ہے۔اگر کوئی ناگوار بات برداشت نہیں کرپارہا ہے تو کہا جائے گا: لائٹ لیو یارو… کوئی درد سے تڑپ رہا ہے تو کہا جائے گا ’’ لائٹ لیو یارو‘‘ کسی کی گاڑی گم ہوجائے تو کہا جائے گا ’’ لائٹ لیو یارو‘‘ ،کسی کا پی بی زیادہ یا کم ہوجائے تو کہا جائے گا: ’’ لائٹ لیو یارو‘‘ … قصہ مختصر یہ کہ حیدرآباد میں ’’ لائٹ لیو یارو‘‘ ہر مرض کی دوا کی طرز پر ہر دردکی دوابن چکاہے۔
کبھی کبھار حیدرآبادی ’’ ایزی لو یارو‘‘ بھی کہہ جاتے ہیں لیکن جو بات ’’ لائٹ لیو یارو‘‘ میں ہے وہ ’’ ایزی لو یارو‘‘ میں کہاں؟
موسم گرمامیں برقی بریک ڈاؤن کا ایک سلسلہ ساچل پڑا ہے، چنانچہ ہمیں بار بار لائٹ کے گل ہوجانے پرایک دوسرے کو خوش رکھنے کے لیے ’’ لائٹ لیو یارو‘‘ کثرت سے کہنا پڑ رہا ہے۔یہ وہ دور ہے جب لائٹ لیو یارو کہنے کے باوجود کوئی لائٹ نہیں لے پائے گا کیوںکہ لائٹ توگھروں سے غائب ہورہی ہے۔ یہاں ہمیں چمن بیگ یاد آرہے ہیں جو لائٹ لینے کوکچھ اور ہی سمجھ بیٹھے تھے ، چنانچہ اپنے گھر میں لائٹ ہونے کے باوجود انہوں نے’’ لائٹ لیو یارو‘‘ کے نعرے سے متاثر ہوکر لائٹ کے نئے کنکشن کے لیے محکمہ برقی کے دفتر کے شدت سے چکر کاٹنے شروع کردیے تھے،یہ تو ہم تھے کہ انہیں اس دیوانگی سے باز رکھاتھا۔
ایک معروف فلمی نغمہ ہے ’’ راہی منوا دکھ کی چنتا کیوں ستاتی ہے … ‘‘ فلم’’ دوستی‘‘ کے اس سحر انگیز نغمے میں یہ کہہ کر حوصلہ بخشا جارہا بلکہ بہلایا جارہا ہے کہ ’’ پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ، دکھ،سکھ تو زندگی کا ایک حصہ ہیں، ان سے ہرگز نہ گھبرائیں لیکن تین لفظی حیدرآبادی جملے ’’ لائٹ لیو یارو‘‘ میں جو بات ہے ،وہ بات کئی اشعار پر مبنی مذکورہ نغمے میں بھی نظر نہیں آتی۔ شاعر نے بلا شبہ کڑی محنت اور مشقت سے مذکورہ نغمے کو قلمبند کیا ہوگا، قافیہ ردیف اور فلم کی سچوئشن کے حساب سے خیالات کو یکجا کرنے میں یقینا انہیںکافی عرق ریزی کرنی پڑی ہوگی لیکن دکنی زبان کا ’’ لائٹ لیو یارو‘‘ جیسا چھوٹا سا جملہ بڑی سے بڑی فکر و پریشانی کے لیے مرہم بن جاتا ہے۔ دراصل’’ لائٹ لیو یارو‘‘ بالی ووڈ کے ایک اور معروف فلمی نغمے ’’ہر فکر کو دھوئیں میں اڑاتا چلا گیا‘‘کی مکمل ترجمانی کرتاہے۔
یہ کہہ کے دل نے مرے حوصلے بڑھائے ہیں
غموں کی دھوپ کے آگے خوشی کے سائے ہیں
ماہر القادری
’’ لائٹ لینا‘‘ کاروباری معاملات میں بھی خوب چل پڑا ہے…کہتے ہیں کہ کویت سے نکلنے والے مشہور مجلہ "المجتمع” میں ایک واقعہ شائع ہوا ، جس میںہماری وعدہ خلافی اور جھوٹ کو اجاگر کیا گیا تھا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ لندن میں ایک مسلمان جو پیشے سے کارپینٹر تھا۔کسی یہودی نے اس کار پینٹر سے اپنے گھر کے ڈیکوریشن اور اس میں فرنیچر کا کام کرانے کا معاملہ کیا۔مقررہ تاریخ گزر جانے کے بعد بھی کام نصف بھی مکمل نہیں ہوپایا تھا۔اس دوران یہودی اسے بارہا یاد دہانی کراتا رہا یہاں تک کہ مقرر تاریخ آ گئی۔ یہودی نے صبروتحمل کا مظاہرہ کیا اور اپنی تقریب کسی اور جگہ پر کر کے خاموش بیٹھ گیا۔قریب دو ماہ بعد وہ مسلم کاریگر یہودی کے پاس پہنچا اور کام کے مکمل ہونے کی خبر دی اور اپنا معاوضہ طلب کیا۔یہودی نے بھی ٹھان لی کہ اس شخص کو مزہ چکھانا ہے،چنانچہ وہ یہودی اس مسلم کارپینٹرکو روز یہ کہہ کر واپس بھیج دیتا کہ ابھی پیسے نہیں ہیں کل لے لینا۔اس طرح ٹال مٹول میں دو ماہ گذر گئے لیکن اس مسلم شخص کو معاوضہ نہ مل سکا۔وہ تنگ آکر یہودی عالم کے پاس گیا اور اس سے شکایت کی۔عالم نے مسلم شخص کو تسلی دی اور ایک چھوٹی سی پرچی میں کچھ لکھ کر دیا اور کہا کہ یہ بند لفافہ اس یہودی شخص کو دے دینا، وہ پڑھتے ہی تمہارا پیسہ دیدے گا اورہوا بھی ایسے ہی ۔ جیسے ہی اس یہودی نے اپنے یہودی عالم کی تحریر پڑھی، فوراً اس مسلمان کو اس کا پیسہ دے دیااور اس سے معافی مانگ لی۔اس مسلمان کے دل میں تجسس پیدا ہوا کہ آخر کیا بات ہے کہ میں اتنے دن سے پریشان پھرتارہا لیکن اس نے مجھے میرے پیسے نہیں دیے اور اب اس چھوٹی سی پرچی کوپڑھ کر فورا پیسے دیدیے…اس نے جب پرچی کھولی تو اس میں لکھا تھا :
’’تمہارے اندر مسلمانوں جیسی عادت کب سے پیدا ہوگئی…جس قوم میں عہدو پیماں اور وعدہ خلافی کی گندی عادت پیدا ہو جاتی ہے وہ قوم دنیا میں ذلیل ورسوا ہو جاتی ہے،زوال کی شکار ہوکر دوسری قوموں کی ماتحت بن جاتی ہے۔پھر نہ تو اس کو اقتدار مل پاتا ہے اور نہ عزت وعظمت بلکہ اس پر ایسے بندوں کو مسلط کر دیا جاتا ہے جن کے پاس طاقت ہوتی ہے۔اقتدار ہوتا ہے، حکومت وسلطنت ہوتی ہے اور یہ مسلط قوم اسے سخت سزا دیتی ہے۔کیا تم بھی مسلمانوں کی طرح اپنی عزت وعظمت،سلطنت واقتدار،حکومت وسیادت اور غلبہ و بلندی کو ختم کرنا چاہتے ہو۔‘‘
یہ تحریر اس مسلمان کے لیے کسی تازیانے سے کم نہ تھی، اسے خود پر اور اپنی قوم کی زبوں حالی پر ماتم کرنے کے علاوہ کچھ سمجھ میں نہیں آیا…
ہر معاملے کو لائٹ لینے سے ہمارے اندر بے حسی انتہا کو پہنچ سکتی ہے ….اور پھر بے حسی ہی لائٹ لینا اور لائٹ لینا ہی بے حسی بن کر رہ جاتی ہے ۔
ایک بادشاہ جس کی رعایالائٹ لیتے لیتے بے حس ہوکر رہ گئی تھی…بادشاہ انہیں بے حسی کی دلدل سے باہر نکالنے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھاکہ اسے ایک جگہ بہت سے لو گوں کو دریا عبور کرتے دیکھا تو اس نے حکم صادر کردیا: اس دریا کی کشتیوں کی تعداد کو کم کر دیا جائے تاکہ لو گوں کو آنے جانے میں دقت محسوس ہو اور وہ پریشان ہو کر میرے دربار میں حاضر ہو کر اس مسئلے کے حل کی درخواست کریں ۔کافی عرصہ انتظار کے باوجود بھی رعایا کا کوئی فرد بادشاہ کے حضور یہ التجا لیکر نہ پہنچا تو بادشاہ نے اگلا حکم دیتے ہوئے کہا: رعایا پر ان کشتیوں کے ذریعے سفر کرنے کی پاداش میں ٹیکس لگایا جائے ۔ اس حکم نامے کے باوجود بھی کوئی فرد بادشاہ کی خدمت میں پیش نہ ہوا تو بادشاہ نے آگ بگو لا ہوکر ایک اور حکم نامہ جاری کردیا کہ دریا کے دو نوں کناروں پر ایک ایک اہلکار تعینات کر دیا جائے جو رعایا کے آنے جانے والے لوگوں کی جوتے سے پٹائی کرتے رہیں۔ اس حکم نامے کے کچھ عرصہ بعد رعایا کا ایک فرد بادشاہ سلامت کے رو برو پیش ہو کر عرض کیا کہ بادشاہ سلا مت آپ نے دریا کے دو نوں کناروں پر ایک ایک اہلکار جوتوں سے ہماری پٹائی کے لیے تعینات کیا ہوا ہے جس کے نتیجہ میں جوتوں سے مار کھانے والوں کا بہت زیادہ رش ہو جاتا ہے، لہٰذا آپ سے استدعا کی جاتی ہے کہ وہاں پر اہلکاروں کی تعداد کو اس قدر بڑ ھا دیا جائے کہ وہ ہمیں جلدی جلدی جوتے مار کر فارغ کر دیں…
موجودہ حالات کو دیکھ کربھی یوں لگتا ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی غیر محسوس طریقے سے بے حسی کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیںاور حساس معاملات میں بھی ہم ’’ لائٹ لیو یارو‘‘ کا نعرہ مار کر چپ ہوجاتے ہیں…
دوستو!آج کا دورتناؤ اور غموں کا دور ہے،جن میں سے بیشتر غم ہم خود خوشی خوشی، ہول سل مارکٹ سے خرید لیتے ہیں۔ دکھ کی گھڑی میںاپنوں کا ’’ لائٹ لیو یارو‘‘ کہنا بھی بڑا بھلا معلوم ہوتا ہے کیوںکہ’’ لائٹ‘‘ لینے سے ہمیںاپنی زندگی روشن ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے لیکن ہمارا مسلسل لائٹ لینا کہیں ہمیں بے حسی کی تاریکی میںتو نہیں ڈھکیل رہا ہے ؟ہم لائٹ لے لے کر رشتوں کا تقدس اور ان کی اہمیت کو خاک میں تو نہیں ملارہے ہیں ؟کیوںکہ اگر کسی نے کسی کا دل دکھایا ہے اور پھر اسے اپنی غلطی کا احساس ستانے لگے توہم اس سے بے ساختہ کہہ اٹھتے ہیں ’’ لائٹ لیو یارو‘‘ ہم مذکورہ جملہ ادا کرتے ہوئے ذرا نہیں سوچتے کہ اگر ہم ایک دوسرے کو اسی طرح لائٹ لیتے رہے تو پھر خودہماری زندگی سے خوشیوں کی ’’ لائٹ‘‘ گل ہوکر رہ جائے گی۔ آج لائٹ لینے کا رجحان کچھ اس طرح چل پڑا ہے کہ پولیس، جرائم پیشہ افراد کو لائٹ لیتی ہے تو جرائم پیشہ افراد پولیس کو لائٹ لیتے ہیں،بچے ماں باپ کو لائٹ لیتے ہیں اور ماں باپ بچوں کو لائٹ لینے لگے ہیں (تبھی تو نئی نسل بگڑتی جارہی ہے)اگر ہم زندگی کو لائٹ لیں گے تو پھرزندگی ہمیں ’’ لائٹ‘‘ لے گی اور جب زندگی کسی کو لائٹ لیتی ہے تو پھرتاریکی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ہم آج دنیا تو دنیا، دینی فرائض کو تک لائٹ لینے لگے ہیں۔ذرا سوچیے اگر حشر کے میدان میں خالق کائنات نے ہمارے اعمال کی بدولت ہمیں ’’لائٹ‘‘ لے لیا توپھر ہمارا کیا ہوگا؟
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w