مذہب

مفتیٔ اعظم حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدینؒ

ازہرِ ہند جامعہ نظامیہ کے با وقار بزرگ مفتیٔ اعظم حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدین رحمہ اللہ، تاریخ کی اُن عبقری شخصیات میں سے ہیں، جن کے بغیر فقہائے دکن کی تاریخ ادھوری کہلائے گی۔

مولانا حافظ محمد آصف عرفان قادری
(ایڈیٹر ماہنامہ عرفان انوار)

ازہرِ ہند جامعہ نظامیہ کے با وقار بزرگ مفتیٔ اعظم حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدین رحمہ اللہ، تاریخ کی اُن عبقری شخصیات میں سے ہیں، جن کے بغیر فقہائے دکن کی تاریخ ادھوری کہلائے گی، آپؒ ۲۶/ شعبان المعظم ۱۳۵۸ھ م ۱۰ اکتوبر ۱۹۳۹ء بروز چہارشنبہ کو مدینۃ العلم حیدرآباد دکن میں علمی و روحانی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کے والد بزرگوار حضرت مولانا نظام الدین صاحبؒ اپنے وقت کے اکابر علماء و صوفیاء میں شمار کئے جاتے تھے، آپؒ کے دادا حضرت علامہ شیخ حسینؒ بھی بڑے پایہ کے عالم تھے۔

ابتدائی تعلیم و تربیت: آپؒ کی ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر اپنے والد و بزرگوں کے پاس ہوئی، بچپن ہی سے آپؒ نہایت ہونہار، ذہین تھے۔ ازہر ہند جامعہ نظامیہ میں داخلہ کے بعد آپؒ نے جن اساتذہ و شیوخ سے استفادہ و اکتساب کیا ان میں محدثِ کبیر فقیہ اعظم علامہ ابوالوفاء الافغانیؒ، شمس المفسرین علامہ مفتی محمد رحیم الدینؒ (سابق صدر مفتی جامعہ نظامیہ) علامہ مفتی محمد عبد الحمیدؒ (سابق شیخ الجامعہ) صوفی باصفا علامہ مفتی مخدوم بیگ الہاشمیؒ، علامہ مفتی شیخ سعید قادریؒ، رئیس المفسرین علامہ سید شاہ طاہر رضوی القادریؒ (صدر الشیوخ جامعہ نظامیہ، جامع المعقول و المنقول علامہ مفتی حافظ محمد ولی اللہ قادریؒ (سابق شیخ المعقولات جامعہ نظامیہ) و دیگر شامل۔

سن ۱۹۵۶ء میں آپؒ جامعہ نظامیہ سے سند فضیلت، سن ۱۹۵۹ء میں سند کامل الفقہ درجہ اول حاصل کیا شیوخ و اساتذہ نے آپؒ کے سر پر کامیابی کا دستار فضیلت باندھا۔

حلیہ وطبع: ’’میانہ قد، نورانی چہرہ، خوب صورت سفید ریش مبارک، سر پر گول ٹوپی، اکثر سر پر عمامہ، بدن پر کرتا، مغلئی پاجامہ، شیروانی، کاندھے پر رومال، معصومیت کے پیکر، مرنجا مرنج، خاموشی پسند، اوپر کی سطح سمندر کی طرح خاموش اور اس کی تہ میں ذہانت، علم، عمل، تقویٰ و ورع، دیانت و امانت، اخلاص و دل سوزی، ہمدردی و شفقت کے آب دار موتی تھے۔

رشتہ ازدواج: آپؒ حضرت مفتی محمد رحیم الدینؒ کی صاحبزادی کے ساتھ ۱۴ جنوری ۱۹۶۷ء میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے، الحمد للہ چار صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں ہیں۔

سفر حج: آپؒ ۱۹۷۴ء میں اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ حج بیت اللہ کا فریضہ ادا کیا اور زیارت روضہ رسول کریم ﷺ سے مشرف ہوئے، اس سفر حج کے دوران مکہ مکرمہ میں صحن کعبہ میں علامہ شیخ عبد الفتّاح ابو غدہؒ درس حدیث دے رہے تھے حضرت مفتی صاحبؒ ان سے ملاقات کے لئے پہنچے جیسے ہی شیخ ابو غدہؒ نے آپؒ کو دیکھا فوری کھڑے ہوگئے اور نہایت مخلصانہ ملاقات کی اور مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔ اور حضرت سے کہا: آپؒ پختہ علم رکھنے کے ساتھ شکل و صورت میں بھی اپنے چچا حضرت مفتی محمد رحیم الدین صاحبؒ کے مشابہ ہیں، ملاقات کے بعد واپسی پر شیخؒ نے اپنے شاگردوں سے کہا: مفتی عظیم الدین حفظہ اللہ کی دست بوسی کریں، دعائیں لیں یہ خدا ترس بزرگ ہیں۔ علاوہ حج کے ایک سے زائد مرتبہ عمرہ کی بھی سعادت حاصل کی۔

علمی خدمات: فراغت کے بعد آپؒ عالمگیر علمی و تحقیقی ادارہ "دائرۃ المعارف العثمانیہ” سے بحیثیت مصحح وابستہ ہوکر علمی و تحقیقی خدمات انجام دیتے رہے، علمی صلاحیت، بڑی دلجوئی سے اس تحقیقی کام کو بڑے اچھے انداز میں انجام دینے، مخطوط شناسی اور فنی مہارت، تحقیقی کام کو وسعت دینے پر آپؒ کو صدر مصحح کا با وقار عہدہ کی ذمہ داری دی گئی اور آپؒ نے بڑی ذمہ داری و پابندی سے سن ۲۰۰۰ء تک یہ خدمات انجام دیں اور وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے۔

دار الافتاء جامعہ نظامیہ: سن ۱۹۶۳ء میں حضرتؒ کو بحیثیت مفتی جامعہ نظامیہ تقرر کیا گیا، اس وقت سے آخر دم تک اپنے علمی فقہی کمال اور نوکِ قلم سے تقریبآ پچاس ہزار سے زائد فتاوی صادر فرمائے، جبکہ انٹرنیٹ وکتابت کے فتاوی بڑی تعداد میں صادر فرمائے، آپؒ بلاشبہ جامعہ نظامیہ کے سب سے بڑے فقیہ ہیں، علمی تبحر اور فکری وسعت میں آپؒ کا کوئی ثانی نہیں، ایک فقیہ میں جتنے اوصاف و شروط مطلوب ہیں، سب آپؒ کے اندر بہ درجۂ اتم موجود تھے، ان کے علاوہ صبر و توکل، تقویٰ و طہارت، ریاضت و عبادت، جہد و مجاہدہ، امانت و دیانت، عدالت وثقاہت اور فہم و فراست، حلم و بردباری کی بیش بہا دولت سے قدرت نے آپؒ کو نوازا تھا، آپؒ کا قلم زر نگار ایک طرف فقہ و فتاویٰ کی ژرف نگاری کا عادی تھا اور ہم عصروں کے لئے قابلِ رشک تھا۔ اردو، عربی اور فارسی تینوں زبانوں میں بڑی قدرت تھی، ان سب کے با وصف آپؒ پر فُقاہت غالب تھی، آپؒ کو وقت کے بڑے اکابر نے مسندِ افتاء پر بٹھایا، آپؒ نے دارالافتاء کو تقریباً چھ دہائیوں تک رونق بخشی بلکہ معیار و اعتبار عطا کیا، آج تک فقہائے کرام آپ کے خوشہ چیں ہیں۔

طرز فتویٰ نویسی: فتاوی نویسی میں آپؒ عبارت آرائی اور لفاظی سے گریز کرتے اور بھاری بھر کم فقہی الفاظ و اصطلاحات استعمال نہ فرماتے تھے بلکہ آپؒ کا اندازِ بیان بالکل سادہ، رواں دواں اور برجستہ ہوتا تھا، ہر عام اردو خواں آپؒ کے فتوے کو سمجھ لیتا تھا، اسی کے ساتھ ہر لفظ حقیقت شناسی کا آئینہ دار ہوتا تھا، ملت اسلامیہ کے اہم مسائل پر جب جامعہ نظامیہ کا فتوی جاری ہوتا تو اس پر مفتی جامعہ کے علاوہ دیگر شیوخ کرام کے بھی دستخط سبط کئے جاتے ہیں چنانچہ ایک مرتبہ کسی مسئلہ پر فتوی پر دستخط کرتے ہوئے علامہ عبد اللہ قریشی ازہریؒ (نائب شیخ الجامعہ، خطیب مکہ مسجد) نے مفتی عظیم الدینؒ کے فتاویٰ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا:

آپؒ کا اندازِ فکر بالکل سلجھا ہوا صاف ستھرا اور پختہ ہوتا ہے، کہیں کسی مسئلہ میں آپؒ تذبذب کی راہ اختیار نہیں کرتے، بلکہ مسائل کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں اور جو جوابات تحریر فرماتے ہیں وہ ہر پہلو سے ٹھوس اور مکمل ہیں، کمال یہ ہے کہ دماغ اور حافظہ کبھی خیانت نہیں کرتا، ذہن جب جاتا تو صحت ہی کی طرف، یہی وجہ ہے کہ جوابات بے جا طول اور تکلیف دہ اختصار سے پاک ہیں، اندازِ بیان سلیس اور جامع، معمولی لکھا پڑھا آدمی بھی آسانی کے ساتھ آپؒ کا جواب سمجھ لیتا ہے، کسی کو کوئی الجھن پیش نہیں آتی ہے۔‘‘

اسی طرح علامہ مفتی ابراہیم خلیل الہاشمی (سابق شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ) نے کہا: حضرت مفتی صاحب کا کمال یہ ہے کہ ’’عرفِ زمانہ‘‘ سے کبھی صرفِ نظر نہیں کرتے، بلکہ اس پر گہری نظر رکھتے ہیں، اگر کسی مسئلہ کے دو مختلف مفتی بہ پہلو ہیں، تو ایسے موقع پر آپ سہل پہلو کو اختیار کرتے ہیں اور اسی پر فتویٰ دیتے ہیں، ایسی صورت ہرگز اختیار نہیں کرتے جو عوام کے لئے مشکلات پیدا کرنے والی ہو۔ جیسا کہ حدیث شریف ہے "’’الدین یسر‘‘” دین آسان ہے۔

ایسے ہی راقم الحروف نے حضرت سے ایک عریضہ میں مِن جملہ چند سوالات کے ایک یہ بھی سوال کیا کہ آیت: ’’وَأنْ لَیْسَ للإنسان إلّا ما سعٰی‘‘ (ترجمہ: اور انسان کے لئے بس وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی) سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو سوائے اپنے اعمال کے دوسروں کے اعمال سے نفع نہیں پہنچتا، حالانکہ احادیث سے نفع پہنچنا محقق ہے اور جمہور صحابہ و ائمہ کرام کا یہ مذہب ہے۔ اس کے جواب میں من جملہ دیگر جوابات معروضہ کے یہ معنی بھی ارقام فرمائے کہ ’’ماسعیٰ‘‘ سے مراد سعیِ ایمانی ہے، تو پھر کچھ خدشہ اور تعارض نہیں، کیونکہ حاصل اس صورت میں یہ ہے کہ انسان کو بدونِ سعی ایمان و بلا حصول و تحققِ ایمان کسی عمل سے نفع معتدبہ نہیں پہنچ سکتا، پس غیر کے اعمال کا نفع بھی اس کو اُسی وقت پہنچ سکتا ہے کہ اس کے اندر ایمان ہو اور سعی ایمانی اسی کی ہو، پس درحقیقت انسان کے لئے اپنی ہی سعی سے نفع پہنچتا ہے۔

علامہ مفتی حافظ محمد ولی اللہ قادریؒ نے فرمایا: مفتی محمد عظیم الدینؒ کو فقہ اور اصول فقہ پر کمال درجہ کا عبور حاصل ہے، "لا یخاف فی اللہ لومة لائم” کا آئینہ ہے۔ آپ جب بھی فتوی صادر کرتے قرآن و سنت فقہ کی روشنی میں کرتے کوئی کسی قسم کی گنجائش نکالنے کی کوشش کرتا تو سخت ہوجاتے اور کہتے کہ "یہ نبی ﷺ کی شریعت ہے، تمہاری طبیعت نہیں” چنانچہ بغیر کسی دباؤ و جھجک کے خالص شریعت مطہرہ کی روشنی میں مسائل حل کرتے رہے، یہی وجہ سے آپ کو دنیائے علم و ادب میں فقیہ اعظم، شیخ العلام اور مفتیٔ اعظم جیسے القابات سے یاد کیا جاتا رہا۔

سرکاری ایوارڈ: سن ۱۹۹۹ء حکومت کی جانب سے آپؒ علمی خدمات کو سراہنا کے طور پر عزت مآب ڈاکٹر شنکر دیال شرما ریاستی ایوارڈ دیا گیا پھر سن ۲۰۱۳ء میں تلنگانہ علاحدگی کے بعد چیف منسٹر کے چندر شیکھر راو نے "تلنگانہ کی روحانی شخصیت” ایوارڈ دیا۔

مجلس اشاعت العلوم: آپؒ نے بانی جامعہ نظامیہ شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ کے قائم کردہ طباعت و اشاعتی ادارہ مجلس اشاعت العلوم کو اپنی شب و روز کی مصروفیات میں شامل کرلیا تھا، بڑی کثیر تعداد میں کتابوں کی طباعت و اشاعت آپ کی نگرانی میں ہوتی رہیں۔ جن میں مقاصد الاسلام، حقیقة الفقہ قابل ذکر ہیں، آپؒ آخر عمر تک صدر نشین کے عہدہ پر فائز رہتے ہوئے اس ادارہ کو ترقی دینے میں انتھک کاوشیں کیں۔

مجلس علمائے دکن: آپؒ اس مجلس کے اہم عہدہ پر رہتے ہوئے دکن کے عوام کے علمی، فقہی مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل کو حل کرنے مختلف حالات و مسائل پر مسلمانوں میں شعور بیداری ملت کے عمومی مسائل حل کرنے کا اہم فریضہ انجام دیتے رہے۔

مرکزی رویت ہلال کمیٹی: کے آپؒ رکن رکیں رہے ہر ماہ رویت ہلال چاند کی تاریخ کا شرعی شہادت کے بعد معتمد کمیٹی اور ارکان کے ساتھ شرعی فیصلہ فرمایا کرتے۔ تقریباً پانچ دہائیوں سے ریاست و پڑوسی ریاستوں اور قرب جوار کے علاقوں کے لئے آپ بہ نفس نفیس نظام الاوقات رمضان المبارک اور اوقات الصلوٰۃ مرتب کرکے جاری کیا کرتے تھے۔ بیسیوں دینی مدارس کی سرپرستی فرماتے رہے ہر سال رجب کے مہینے سے ہی دینی مدارس کے سالانہ جلسوں میں دستار بندی اور حفظ قرآن کریم کی سعادت سے مشرف ہونے والے طلبہ کو اپنے مخصوص انداز و دعا کے تکمیل حفظ کرواتے طلبہ و فارغین آپؒ کے دست مبارک سے دستار و حصولِ سند کو سعادت سمجھتے بہر حال شہر، ریاست و پڑوسی ریاستوں میں بڑی تعداد میں مساجد و مدارس کے آپؒ کے ہاتھوں سے سنگ بنیاد و افتتاح عمل میں آتے رہے۔ ایسی علمی و روحانی شخصیت اپنی علمی فروزاں کو بکھیرتے ہوئے ۸۲ سال کی عمر میں ۲۶ شعبان المعظم ۱۴۳۲ھ م ۹ اپریل ۲۰۲۱ء بروز جمعہ ۹ ساعت شب داعی اجل کو لبیک کہ دیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

نماز جنازہ مسجد جامعہ نظامیہ کے وسیع صحن میں سینکڑوں شاگردوں، معتقدین کی موجودگی میں ادا کی گئی تدفین احاطہ درگاہ حضرت شجاع الدین قادریؒ عیدی بازار میں عمل میں آئی۔ جلوس جنازہ میں علماء و مشائخ حفاظ، دینی مدارس کے نظما، طلبہ و استاذہ، دینی، ملی، فلاحی تنظیموں کے ذمہ داران کے علاوہ بلا لحاظ مسلک و مذہب ہندو، سکھ، عیسائی ودیگر برادری سے تعلق رکھنے والے افراد بھی بہ دیدہ نم خراج عقیدت پیش کرتے نظر آئے۔ اللہ تعالیٰ حضرتؒ کے درجات کو بلند فرمائے اور اپنی رحمت برسائے۔ (آمین)
٭٭٭