
محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد
٭ بیوہ کا حق صرف آٹھواں حصہ۔
٭ بیٹی کا حق بیٹے کے مقابلے میں نصف ہے۔
٭ تمام بھائیوں کی جانب سے کیا ہوا بیع نامہ غیر قانونی ہے۔
٭ اس طرز کے بیع نامہ کو منسوخ کروایاجاسکتا ہے۔
سوال:- میرے والد صاحب مرحوم کی کئی جائیدادیں ہیں جو حیدرآباد کے اطراف کئی پلاٹس اور شہرمیں کئی مکانات اور دوکانوں پر مشتمل ہے۔ میری دو بہنیں اور چار بھائی ہیں۔ ہم دو بہنوںکو آبائی جائیداد سے یکسر محروم کردیا گیا ہے۔ والدہ صاحبہ کی تمام مہربانیاں اپنے بیٹوں پر ہی ہیں۔جب کبھی بھی ہم بہنوں نے اپنے حق کا مطالبہ کیا تو والدہ صاحبہ نے کہا کہ شادی کے وقت تم کو بہت دیا جاچکا ہے اور تمہارے شوہر بھی بڑی جائیدادوں کے مالک ہیں۔ تم کو اس جائیداد میں کوئی حق نہیں ملے گا۔ والدہ صاحبہ تمام جائیدادوں کو فروخت کرکے امریکہ منتقل ہونے کا ارادہ رکھتی ہیں کیوں کہ تمام بھائی گرین کارڈ ہولڈر ہیں۔ ہماری ساری جائیدادیں اب ایک بہت بڑی رئیل اسٹیٹ لابی کو فروخت کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ خریدار نے جائیدادوں اور تمام ورثاء کے بارے میں تفصیلات معلوم کیں اور ان کو پتہ چلا کہ ہم دونوں بہنیں بھی وارث ہیں اس لئے اصرار کررہے ہیں کہ ہماری بھی دستخط ضروری ہے۔ والدہ صاحبہ اور تمام بھائی جو فی الوقت حیدرآباد میں ہیں ہم بہنوںپر دباؤ بنانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ والدہ صاحبہ کہہ رہی ہیں کہ ہم نافرمان ہیں اور یہ دھمکی دے رہی ہیں کہ تمام زندگی ہم سے بات نہیں کریں گی۔ ہم نے فتویٰ حاصل کیا جو اس طرح ہے ۔
-1 تمام جائیدادمیں بیوہ یعنی ہماری والدہ کا حصہ آٹھواں ہے۔
-2 مابقی جائیداد دس حصوں میں تقسیم ہوگی جس میں ہر بھائی کو فی کس دو حصے ملیں گے اور ہم بہنوں کو فی کس ایک حصہ ملے گا۔
اس لحاظ سے ہم دونوں بہنوں کا حق ایک بھائی کے برابر ہوگا اور یہ چھوٹا سا حق بھی ہمیں دینے کو تیار نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صرف ہم بہنوں کے حق میں اگر ایک ملگی بھی آجائے تو اس کی قیمت دیڑھ کروڑ روپیہ ہوسکتی ہے‘ اس لئے اتنی بڑی رقم دینے تیار نہیں۔
ہم اپنا شرعی حق حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ ہمیں بھائیوں کے حق سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ہمیں پتہ چلا ہے کہ تمام متروکہ جائیدادوں کی فروخت کی بات ہورہی ہے۔ اگر ایسا ہوتو ہم کس طرح اپنا حق حاصل کرسکتی ہیں۔ فقط
X-Y-Z & ABC ۔ حیدرآباد
جواب:- آپ بے فکر رہیں۔ کوئی بھی رئیل اسٹیٹ لابی جو کہ کتنی ہی دولت مند اور طاقتور ہو اس طرح کی حرکت نہیںکرسکتی۔ آپ دونوں کی مرضی کے بغیر آپ کی آبائی جائیداد فروخت نہیں ہوسکتی۔ اور اگر ایسا ہوجائے تو بیع نامہ عدالتی حکم سے منسوخ ہوسکتا ہے۔ پھر بھی آپ کو رائے دی جاتی ہے کہ خریدار ہوشیار باش کی اساس پر کم از کم دو اخباروں میں نوٹس شائع کروائیں اور وارننگ جاری کریں کہ ان جائیدادوں میں آپ دونوں بہنوں کا شرعی حق ہے جسے غیر قانونی طور پر فروخت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لہٰذا خریدار ہوشیار ہوجائیں بصورتِ دیگر تمام نقصانات کے وہی ذمہ دار ہوں گے۔
اس عمل کی تکمیل کے بعد اگر واقعی میں آپ کی والدہ اور بھائی صاحبان متروکہ جائیداد کو فروخت کرنے کیلئے سنجیدہ ہوں تو آپ دونوں بہنوں سے کوئی معاہدہ کرلیں گے اور آپ کے حق میں آنے والی جائیدادوں کی قیمت ادا کرکے آپ دونوں بہنوں کو رجسٹری کیلئے راضی کرلیں گے۔ بصورتِ دیگر آپ بہنوں کو تقسیمِ ترکہ کا مقدمہ دائر کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ عدالت اپنے عبوری حکم کے ذریعہ تمام متروکہ جائیدادوں کی فروخت پر امتناع عائد کردے گی اور پھر آپ کی والدہ صاحبہ اور بھائیوں کو پتہ چلے گا کہ وہ کس قدر ناہموار راہ پر چل رہے ہیں۔
بیٹیوںکو اور تمام خواتین کو متروکہ سے محروم کردینے کا چلن عام ہوتا ہوا نظر آرہا ہے اور یہ لعنت اضلاع اور تعلقہ سطح پر بہت زیادہ ہے۔ اس گناہ سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے۔
طلاقِ تفویض کا معاہدہ کس طرح کیا جائے؟ ایک سوال
سوال:- طلاقِ تفویض عنوان پر آپ کا مضمون گزشتہ اشاعت میں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ ایک قانونی اور شرعی حقیقت ہے جس پر آپ کے بموجب دھول پڑی ہوئی تھی اور عوام الناس میں اس مضمون کی کوئی واقفیت ہی نہیں تھی۔ جب یہ بات ظاہر ہوئی تو آنکھیں کھل گئیں اور پتہ چلا کہ بلا وجہ معقول شوہروں کے ظلم کی شکار خواتین کس طرح کئی سالوں سے عدالتوںکے چکر کاٹتے کاٹتے بیزار ہوگئی ہیں۔ ہماری ایک چھوٹی سی سماجی اکائی ہے جہاں خاندانی اور گھریلو مسائل کو سلجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر اس شرعی حقیقت کا علم ہوتا تو کئی مظلوم خواتین کو راحت بہم پہنچائی جاتی۔
ایک مسئلہ ہمارے سامنے آیا ہے۔ ایک مظلوم خاتون نے شکایت کی ہے کہ اس کا شوہر نشہ کا عادی ہے اور ہر روز شراب پی کر مظالم ڈھاتا ہے۔ اس کے ماں باپ اس کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ شوہر ہے۔ مرد ہے۔ کماکر لاتا ہے اور تجھے اور تیرے بیٹے کو پالتا ہے وہ جو بھی کرے تجھے قبول کرنا ہوگا۔ لڑکی کا تعلق ایک دیندار گھرانے سے ہے۔ شادی کے بعد یہ حقیقت آشکار ہوئی جبکہ وہ لوگ شرافت کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھے۔ سچ ہے دولت ہر عیب پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ ہم لوگوں نے محلہ کے اشراف کی ایک میٹنگ بلائی جس میں علاقہ کے ایک بارسوخ صاحب بھی شامل ہیں۔ تمام نے اس شخص کو طلب کیا ۔ اس نے تسلیم کیا کہ واقعی میں شراب کا عادی ہوں لیکن اب میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کروں گا۔ آپ کے مضمون کے مطالعہ کے بعد ہم نے اس سے کہا کہ اگر تم نے آئندہ ایسی کوئی حرکت کی تو تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ اس نے کہا کہ جو بھی چاہیں میں لکھ کر دینے کو تیار ہوں۔ ہم نے ایک سو روپیہ کے اسٹامپ پیپر پر ایک اقرار نامہ تحریر کیا جو دونوں کی جانب سے تھا اوراس میں شرط یہ تھی کہ اگر میں آئندہ شراب نوشی کروں تو میری بیوی کو اختیار حاصل ہوگا کہ اس معاہدہ کی روشنی میں خود کو طلاق دے لے اور میں یہ اختیار اپنی بیوی کو دیتا ہوں۔ اس میں اس کے علاوہ کچھ اور بھی شرائط تھیں۔ معاہدہ کی تکمیل کے بعد معاہدہ پر دونوں فریقین کے دستخط حاصل کئے گئے اور ہماری کمیٹی کے صدر اور دیگر ارکان نے اس پر بطور گواہ دستخط بھی کئے۔ اس کے بعد ایک زیراکس نقل شوہر کو دیدی گئی اور اصل کاغذ لڑکی کے والدین کو تھمادیا گیا۔ اس واقعہ کو ایک ہفتہ ہوگیا۔ اب تک کوئی شکایت نہیں آئی۔ اگر اس شخص نے دوبارہ شراب نوشی کی تو طلاقِ تفویض کو روبہ عمل لانے کا کیا طریقۂ کار ہوگا۔ دیگر اور کیا صورتیں ہوسکتی ہیں جن میں طلاقِ تفویض کارگر ہوسکتی ہے۔
فقط ۔ دستخط
مسلم سماج سدھار کمیٹی۔اترپردیش
جواب:- بہت بہت شکریہ۔
اگر وہ شخص دوبارہ شراب نوشی کرے اور اس کی بیوی کو اس بات کا پکا یقین ہے کہ اس کے شوہرنے شراب پی رکھی ہے تو وہ اس اختیار کو استعمال کرسکتی ہے بشرطیکہ وہ ایک حلف نامہ پر اپنی دستخط کرے اور اقرار کرے کہ اس کے شوہر نے معاہدۂ طلاق تفویض کی خلاف ورزی میں شراب نوشی کی ہے۔ یہ بات ایک حقیقت ہے کہ مرد کو عورت سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ اس کے بعد ازروئے معاہدۂ طلاقِ تفویض خود کو ان اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے طلاق دے لے اور خود کو اپنے شوہر کی زوجیت سے خارج کرلے۔ لیکن شوہر کو نوٹس کا اجراء ضروری ہے۔ وہ رجسٹرڈ پوسٹ کے ذریعہ طلاقِ تفویض کا حلف نامہ روانہ کرسکتی ہے۔ اب عورت شوہر کی زوجیت سے خارج ہوچکی ہے اوربعد اتمامِ مدت عدّت اس کو اختیار حاصل ہوگا کہ دوسرا نکاح کرلے۔ اس طلاقِ تفویض کی اساس پر وہ شہر کے دفترِ قضأت سے طلاق کا سرٹیفکیٹ حاصل کرسکتی ہے۔
علاوہ ازیں کئی ایسی صورتیں ہوسکتی ہیں جن میں طلاقِ تفویض کا معاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
-1 شوہر کا مار پیٹ کرنا اور گالی گلوچ کرنا۔
-2 مہر کی عدم ادائیگی۔
-3 دیکھ بھال نہ کرنا اور ضروریاتِ ز۔دگی سے محروم کرنا۔
-4 غیر عورتوں سے تعلقات بنائے رکھنا۔
-5 ماں باپ سے ملنے کی اجازت نہ دینا۔
علاوہ ازیں دیگر کئی ایسی صورتیں ہوسکتی ہیں۔
اگر اس اصول پر عمل کیا جائے تو مسلم سماج میں پھیلی ہوئی ایسی برائیوں کو روکاجاسکتا ہے۔
سوال:- ہم چار بھائیوں نے باہمی طور پر ایک کاروبار کا آغاز کیا۔ تجارت میں بہت فائدہ ہوا۔ کاروبار زیادہ تر سرکاری محکمہ جات میںمختلف اشیاء کی سپلائی کا تھا۔ لیکن کاروبار بڑے بھائی کے ہی ہاتھ میں تھا۔ تمام بینک اکاؤنٹس انہی کے نام پر تھے۔ کاروبار کروڑوں روپیوں تک پہنچ گیا۔ ہم لوگ اپنے اخراجات فرم سے لیتے تھے اور ہماری لی ہوئی رقومات کا رجسٹر میں اندراج بھی تھا ۔ لین دین فرم کے نام پر تھا۔
اچانک بڑے بھائی صاحب کا انتقال ہوگیا اور ہم تین بھائی یہ کاروبار کرنے لگے۔ بڑے بھائی صاحب کی بیوی اور دو بیٹے ہیں۔
بھاوج اور بھتیجوں نے ہم سے کہا کہ اس کاروبار کو چار حصوں میں تقسیم کرلیں اور ایک چوتھائی حصہ جو ہمارے والد کا تھا وہ ہمیں اور ہماری والدہ کو دیدیں۔ ہم اس تجویز کو قانونی شکل دینا چاہتے ہیں تاکہ آئندہ کوئی مشکل نہ ہو۔ فقط
ABC ۔ حیدرآباد
جواب:- آپ تینوں بھائی اور مرحوم بھائی کے کسی بیٹے یا ان کی بیوہ کے ساتھ ایک پارٹنر شپ فرم کا رجسٹریشن کروائیں اور فائدہ یا نقصان میں چار حصہ رکھیں۔ تین آپ تینوں بھائیوں کے اورایک آپ کی بھاوج اور بھائیوں کا ۔ اس تجارت کو ایسے ہی چلنے دیجئے۔ آپ کی بھاوج اور بھتیجے نیک نیت معلوم ہوتے ہیں ورنہ وہ ساری تجارت پر قبضہ کرلیتے۔ آپ کو بہت پہلے ہی پارٹنر شپ فرم بنالینا چاہیے تھا ۔ خیر جو بھی ہوا ‘ اچھا ہوا۔
سوال:- میری شادی کو ہوئے تین سال ہوئے ۔ کوئی اولاد نہ ہوئی۔ بیوی سے تعلقات کشیدہ رہے۔ اس کے والد بہت ظالم آدمی ہیں۔ ایک دن زبردستی پولیس اسٹیشن لے جاکر مجھ سے خلع نامہ پردستخط لے لئے ۔ میں راضی نہ ہوا تو مار پیٹ کرنے لگے۔ اب میں کیاکروں۔ آپ سے گزارش ہے کہ میری مدد کریں۔ فقط۔
X-Y-Z حیدرآباد۔
جواب:- ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ جو ہونا تھا ہوچکا۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰